کوچۂ سخن

ہر ادا محبت کی یوں سدا سمجھتے تھے؛<br /> اس کے دل سے ہم نکلی ہر ندا سمجھتے تھے

فوٹو: فائل

غزل
روانہ میری طرف درد کی رسد کر دو
جو پیش کش ہے یہ موسم کی، اس کو رد کر دو
بہت ضروری ہے وہ شخص زندگی کے لیے
میں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں، مری مدد کر دو
دھڑک رہا ہے مرے سینے میں یہ اندیشہ
کہیں پہ تم بھی مقرر نہ کوئی حد کر دو
تمھاری روشنی ہے معتبر سو آ کے یہاں
ستاروں اور چراغوں کو مسترد کر دو
یہ بات روح کو بھی نا پسند ہو گی کہ تم
گزارشاتِ بدن کو سرے سے رد کر دو
(حسن ظہیر راجا۔ کہوٹہ)


۔۔۔
غزل
ان کہے اور پرانے کو نیا کرتا ہوں
سادہ لفظوں میں کہوں، شعر کہا کرتا ہوں
جلد بوری سے مری نعش برآمد ہو گی
میں اندھیرے کو جلاتا ہوں، دِیا کرتا ہوں
اپنی تنہائی سے کرتا ہوں تمھاری باتیں
اور پھر چپ کو بہت صاف سنا کرتا ہوں
جسم کی اپنی ضرورت ہے سو یہ بات سمجھ
تیری تصویر سے کیوں تجھ کو رہا کرتا ہوں
روز کرتا ہوں زیارت میں تری آنکھوں کی
روز میں خود کو نئے رنگ عطا کرتا ہوں
پہلی صورت میں کہاں یاد خدا آتا ہے
بات جب حد سے نکلتی ہے، دعا کرتا ہوں
اک خلا مجھ کو مکمل نہیں ہونے دیتا
روز پرکار کو میں چھوٹا بڑا کرتا ہوں
(گل جہان۔ جوہر آباد)


۔۔۔
غزل
دل کو اِک چاہ کے ارمان میں رکھ دیا ہے
جان کر بھی اسے نقصان میں رکھ دیا ہے
اُس سے ملنے کا اگرچہ کوئی امکان نہیں
اُس کا نامہ مگر سامان میں رکھ دیا ہے
دل سپردِ خمِ ابرو تو کیے بیٹھے تھے
جان کو چاہِ زنخدان میں رکھ دیا ہے
نہ بلاتے ہو نہ ملنے کا ارادہ کوئی
تم نے ناحق مجھے ہیجان میں رکھ دیا ہے
وہ محبّت سے تو پہلے ہی کنارہ کش تھا
اب مروّت کو بھی فقدان میں رکھ دیا ہے
وہ جو حاصل ہو کسی اور کی حق تلفی سے
ایسی نعمت کو تو کفران میں رکھ دیا ہے
اُس کی معصوم سی باتیں ہیں شرارت جیسی
جیسے چینی کو نمک دان میں رکھ دیا ہے
اِک زمانہ ہے تری خندہ لبی پر شیدا
ایسا جادو تیری مسکان میں رکھ دیا ہے
اُس کی فرقت تو مقدّر میں ہے ساجدؔ لیکن
اُس سے ملنے کو بھی امکان میں رکھ دیا ہے
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
برائے حفظ ِ مراسم سوال پوچھتا ہے
سپرد کر کے زمانے کے، حال پوچھتا ہے
وہ رنگ دیکھتا ہے جب بدلتے موسموں کے
حکومتوں کا عروج و زوال پوچھتا ہے
لپک کے جاتا ہے مرضی کے راستوں کی طرف
ہمارا حال بھی جو خال خال پوچھتا ہے
خود اپنی رائے مقدم ہے اس کو ہر شے سے
وہ رکھ رکھاؤ میں میرا خیال پوچھتا ہے
کبھی گھلانے لگے خود کو فکرِ فردا میں
کبھی گذشتہ مرے ماہ و سال پوچھتا ہے
عجب نہیں کہ خود اپنے ہی گھر کا رستہ لے
جو عشق میں بھی رہِ اعتدال پوچھتا ہے
بزعم ِ خود جو اسے مطمئن کریں کچھ دیر
نیا سوال کہیں سے نکال پوچھتا ہے
کبھی کبھی تو رلا دے مخالفت اس کی
جنوب لے کے چلوں تو شمال پوچھتا ہے
ہم اپنے زخم پہ نازاں نہ کس طرح ہوں بھلا
جو چارہ ساز ہے وہ اندمال پوچھتا ہے
بھٹکنے دیں گے نہیں ہم بھروسہ رکھتے ہوئے
قدم قدم پہ سفر کا مآل پوچھتا ہے
میں عنبرین اسے شعر میں اتارتی ہوں
کوئی بھی بات جو وہ خوش جمال پوچھتا ہے
(عنبرین خان۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
وادیٔ جسم پہ مامور نہیں ہونے کی
آنکھ درویش ہے، مجبور نہیں ہونے کی
تجھ کو درپیش ہے دنیا کی ہوس یاد رہے
یہ پریشانی تری دور نہیں ہونے کی
آپ نے مرکزی کردار دیا مذہب کو
یہ کہانی کبھی مشہور نہیں ہونے کی
اُس کو چھونے سے ہے مشروط کرامت ورنہ
روشنی ویسے کبھی نور نہیں ہونے کی
غار ہو گا نہ کوئی ثور و حرا کے جیسا
دوسری چوٹی کوئی طُور نہیں ہونے کی
اُس نے جھیلے ہیں زمانے کے مصائب فیصلؔ
اب وہ لڑکی کبھی مغرور نہیں ہونے کی
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
خواب در خواب مصیبت سے نکلنا ہے مجھے
یعنی خود اپنی شکایت سے نکلنا ہے مجھے
اتنا آساں تو نہیں اس سے نکلنا لیکن
جس طرح بھی ہو محبت سے نکلنا ہے مجھے
یوں مقفّل ہوا بیٹھا ہوں کسی کمرے میں
جیسے کمرے کی اجازت سے نکلنا ہے مجھے
چھوڑ آیا ہوں ترے شہر میں آنکھیں اپنی
اب کسی اور اذیت سے نکلنا ہے مجھے
بے وجہ دشمنوں پہ ٹوٹ رہا ہوں شافی
اور اپنوں کی حراست سے نکلنا ہے مجھے
(بلال شافی۔ جڑانوالہ)


۔۔۔


غزل
اُس ہوس زاد کا اب عشق بھی سودا ہی سہی
پیار اندھا ہے مری جان تو اندھا ہی سہی
عشق کا روگ فقیری کی سزا دیتا ہے
عشق کا روگ تماشہ ہے، تماشہ ہی سہی
آنکھ رستے سے نکل آئے محبت کا غبار
دل دریچے پہ تری یاد کا پہرہ ہی سہی
ریت میں پھول کھلا دیں گے خزاں آنے دو
ہم کو گلشن نہ میسر ہے تو صحرا ہی سہی
کون دنیا کو خریدے ہے، یہ فانی دنیا
عشق زادوں کے لیے خاک ہے، سونا ہی سہی
کب تلک منہ میں دبا رکھے کوئی چیخ فہدؔ
صبر کا پھل تو ملے واعظا، کڑوا ہی سہی
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)


۔۔۔
غزل
جس طرح خواب میں بنی تصویر
تم ہو میرے لیے وہی تصویر
وقتِ آخر تلک تجھے دیکھا
مرنے والے کے پاس تھی تصویر
آنکھ اشکوں سے بھر گئی میری
اور ہنستے ہی لی گئی تصویر
زندگی کی مثال ایسی ہے
جیسے البم میں دکھ بھری تصویر
تم مرے خواب میں چلے آئے
بند آنکھوں سے دیکھ لی تصویر
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)


۔۔۔
غزل
سکوتِ مرگ طاری کیوں!
یہ ہر سُو بے قراری کیوں
نہیں مجھ میں مجھے رہنا
تو پھر بے اختیاری کیوں
فقط تم ہی تو ہو اس میں
مگر یہ دل ہے بھاری کیوں
فنا ہونا ہے گر سب کو
تماشا ہے یہ جاری کیوں
خدا پر گر یقیں ہے تو
ہے ہمت تم نے ہاری کیوں
(ارباز ندیم بازی۔ کڈہالہ، آزاد کشمیر)


۔۔۔
غزل
روتے نہ ہوں فرقت میں در و بام تو کافر
یاد آئی نہ ہو تیری کسی شام تو کافر
ملتے تھے جہاں ہم کبھی اُس باغ میں اب تک
پیڑوں پہ نہ لکھا ہو ترا نام تو کافر
مجھ کو بھی کہیں کا نہیں رکھے گی جدائی
کر دے نہ اگر تیرا بھی یہ کام تو کافر
سَر اپنے میں لے لوں گا ہر اک جرمِِ محبت
آنے دوں کوئی اُس پہ جو الزام تو کافر
جو خاص بہت خود کو سمجھتا ہے وہی شخص
اک روز نہ ہو جائے بہت عام تو کافر
تم جتنے معزز ہو بھلے شرط لگا لو
اس عشق میں ہو جاؤ نہ بدنام تو کافر
میں صاف بتا آیا اُسے دل کی تمنا
رکھا ہو رضاؔ کوئی جو ابہام تو کافر
(احمد رضا راجا۔ راولپنڈی)


۔۔۔
غزل
ہر ادا محبت کی یوں سدا سمجھتے تھے
اس کے دل سے ہم نکلی ہر ندا سمجھتے تھے
بے رخی کی حد ہے یہ اب نہیں سمجھتے وہ
ابتدا میں جو میری ہر صدا سمجھتے تھے
اک حسین لمحے کے انتظار میں جاناں
آپ کے تغافل کو ہم ادا سمجھتے تھے
آج کل جو پیسے کو تم خدا سمجھتے ہو
لوگ تو ہبل کو بھی اک خدا سمجھتے تھے
عشق ہی اذیت ہے عشق ہی ہے بدنامی
عشق کے اوائل میں ہم جدا سمجھتے تھے
آج ان کے قصوں سے محفلیں سجاتے ہیں
پیار کرنے والوں کو جو گدا سمجھتے تھے
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
پہلے سے افتاد زدہ تھے منظر اور حالات الگ
وہ انگوری آنکھوں والی لے آئی آفات الگ
پہلے سے گہنایا ہوا تھا سورج اپنے جیون کا
اس پر اس کی زلفوں والی چھائی کالی رات الگ
اس کے گال کی لالی دیکھیں یا پھر خون میں ڈوبے لوگ
اندر کے جذبات الگ ہیں باہر کے حالات الگ
سب پیڑوں کے برگ و بار ہیں موسم کے محتاج مگر
اس کا عشق ہے برگد جیسا اور برگد کی بات الگ
ایک تو درد کمانا اس پر نقدِ درد بچانا بھی
اس کو شب بھر سوچتے رہنا اور کہنا ابیات الگ
اس شہزادی کو مفلس دہقان کا بیٹا جیت گیا
ہاتھ ہی ملتے رہ گئے ساہو کار الگ سادات الگ
(ظہیر مشتاق۔سیالکوٹ)


۔۔۔
غزل
محبت کا مجھ سے ہے وعدہ تمھارا
شگفتہ شگفتہ ہے لہجہ تمھارا
ہوا دل فدا ہے فقط تم پہ جاناں
حسیں سے حسیں ہے یہ چہرہ تمھارا
فراغت نہیں پر تمھیں ہم نے چاہا
ہوا کب سے دل اپنا شیدا تمھارا
قمر سے نہیں کم یہ صورت تمھاری
ہوئی شب تو دیکھا اجالا تمھارا
ہوئے تم ہمارے ہوئے ہم تمھارے
خدا نے کیا پورا سپنا تمھارا
یہ چاہت نہیں گر تو پھر کیا صنم ہے
وہ میرے لیے روز سجنا تمھارا
(احمد مسعود قریشی ۔ملتان)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس،
5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story