کراچی پولیس ایکسپریس نیوز کے3جاں بحق کارکنوں کے قاتل پکڑنے میں ناکام مقدمہ سرد خانے کی نذر
واقعے میں ملوث چاروں ملزمان کا اب تککوئی سراغ نہیں مل سکا نہ ہی مستقبل قریب میں ان کی گرفتاری کا امکان ہے، تفتیشی افسر
پولیس نے ناظم آباد بورڈ آفس کے قریب ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس ین جی وین پر حملے میں جاں بحق 3 کارکنوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی مستقبل قریب میں گرفتاری خارج از امکان قرار دیتے ہوئے اسے داخل دفتر کردیا۔
کراچی میں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی وین پر حملے اور اس میں 3 کارکنوں کے قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران تفتیشی افسر یونس رضا جعفری نے عدالت میں ملزمان کی گرفتاری کے سلسلے مین کئے گئے اقدامات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ واقعے میں ملوث 4 افراد کے بارے میں اب تک کسی بھی قسم کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں ان کی گرفتاری کا کوئی امکان نہیں، اس لئے اب اس کیس کو داخل دفتر کردیا جائے، جس پر عدالت نے پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کو داخل دفتر کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ 17 جنوری 2014 کو ناظم آباد بورڈ آفس کے قریب 4 افراد نے ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کرکے 3 کارکنوں وقاص،اشرف اورخالد کو جاں بحق کردیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ واقعے پر صوبائی حکومت نے انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
کراچی میں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی وین پر حملے اور اس میں 3 کارکنوں کے قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران تفتیشی افسر یونس رضا جعفری نے عدالت میں ملزمان کی گرفتاری کے سلسلے مین کئے گئے اقدامات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ واقعے میں ملوث 4 افراد کے بارے میں اب تک کسی بھی قسم کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں ان کی گرفتاری کا کوئی امکان نہیں، اس لئے اب اس کیس کو داخل دفتر کردیا جائے، جس پر عدالت نے پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کو داخل دفتر کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ 17 جنوری 2014 کو ناظم آباد بورڈ آفس کے قریب 4 افراد نے ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کرکے 3 کارکنوں وقاص،اشرف اورخالد کو جاں بحق کردیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ واقعے پر صوبائی حکومت نے انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔