تنخواہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
دہلی یعنی مرکزی مکتبہ کے ساتھ ممبئی شاخ کے ملازمین کو لگ بھگ اٹھارہ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مرزا داغ دہلوی کا یہ شعری تفاخر بجا ہے بیشک وہ زمانہ گزرے ابھی بہت وقت نہیں بیتا جب واقعتاً ہماری زبان کی دھوم ہندوستاں میں' تھی'... اب کیا ہے، جوابا ایک مثال پر توجہ کیجیے کہ ممبئی میں ہمارے والد سمیت پانچ بھائیوں میں سے بحمد للہ دو باحیات ہیں۔ ایک دن ہمارے عمِ مکرم نے درد بھرے لہجے میں ہم سے پوچھا '' کیا اُردو واقعتاً ختم ہوجائے گی؟''
ہم نے اُن سے کہا ''چچا! ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا کہ آپ پانچ بھائیوں میں سے چار بھائی باقاعدہ اُردو کے اخبار و رسائل پڑھتے تھے اورآپ لوگوں کو اُردو کے اشعار پر سَر دھنتے ہوئے بھی دیکھا ہے، اب اسی خاندان میں پانچ سے بارہ پندرہ فرد ہو چکے ہیں اور اس کے بعد کی نسل کو مِلا لیں تواور بھی زیادہ، اب آپ خود بتائیں کہ کیا اس خاندان کے نئے لوگوں کو بھی اُردو سے وہی دلچسپی ہے جو آپ کو تھی؟ کیا یہ ہمارے سب بھائی بہن اُردوکے اخبار پڑھتے ہیں؟
اس سوال پرچچا جانی خموشی کی چادر اوڑھ کر ہم سے منہ پھیر چکے تھے۔ ہندوستاں میں اسی طرح اُردو سے منہ پھیرا گیا ہے اور کہا یہ گیا کہ جو زبان روزی روٹی سے جُڑی نہ ہو تو اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ اتر پردیش ( یو پی ) میں ہندی والوں کو یقیناً اس کا خدشہ تھا کہ اُردو اگر رہی تو ہندی پنپ نہیں سکے گی (جب کہ یہ تصور ناقص تھا) لہٰذا وہاں اُردو کو دیس نکالا دِیا گیا مگر جس طرح ریاست مہاراشٹر میں اُردو بڑی حد تک نہ سہی اب بھی باقی ہے اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہاں کی مقامی آبادی کے لوگوں میں جنہیں مرہٹہ (مراٹھی) کہا جاتا ہے ان کے ہاں ''آپ لی بھاشا'' (اپنی زبان) اور اپنی سنسکرتی (تہذیب ) کا احساس زندہ و توانا ہے، یہاں صرف ایک مثال کافی ہے کہ اب بھی ان کے بچوں کی شادی کے رقعے اکثر ان کی اپنی زبان میں بہت ہی خوبی اور فخر کیساتھ چھپتے ہیں،ان کے بچے کتنی ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں مگر ان کی نئی نسل اپنی زبان کو حقیر نہیں سمجھتی اور پورے ذوق و شوق کیساتھ مراٹھی بولتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے قائدین کو اپنی نسل پر یقین اور اعتماد تھا اور ہے کہ وہ کسی اور زبان کے سحر میں نہیں آئیں گی، سو مہاراشٹر کے مرکزی شہر صرف ممبئی کی میونسپل کارپوریشن میں دس بیس نہیں بلکہ محلے در محلے اُردو ذریعہ تعلیم کے مدارس (اسکول) قائم تھے جہاں مسلمانوں کے بچے نہ صرف مفت پڑھتے تھے بلکہ خاصی تعداد میں یو پی سے آئے ہوئے اساتذہ ان اسکولوں میں روزگار سے وابستہ تھے، بلکہ اب بھی مسلمانوں کی ایک تعداد درس و تدریس سے متعلق ہے مگر اب یہاں کے مسلمان، اپنے بچوں کو اِن اسکولوں میں نہیں بھیجتے، وجہ یہ ہے کہ یہاں جو کسی حد تک مسلمانوں میں مالی آسودگی آئی ہے اُس نے انھیں اپنی زبان و تہذیب سے دور کردیا اب وہ اپنے بچوں کو خاصی رقم ( ڈونیشن میں ) دے کر انگریزی کے مشن اسکولوں میں بھیج رہے ہیں۔
کسی زمانے میں آغا حشر کاشمیری اُردو والوں میں مشہور ہی نہیں تھے بلکہ اپنے ڈراموں کے سبب تمام اُردو والوں میں مقبول بھی تھے، چونکہ ممبئی ، ساحل سمُندر سے لگے ہونے کے سبب ایک مرکزی شہر رہا ہے سو یہاں روزگار کیلئے ایک دُنیا کے لوگ کھِنچے چلے آتے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، تو عرض ہے کہ اُردو والوں کی ( قدرے) مالی آسودگی نے انھیں اپنی زبان و تہذیب سے جہاں دور کیا وہیں آغا حشر کاشمیری کی ڈراموں کی روایت بھی بڑی حد تک جاتی رہی مگر یہاں کی مقامی آبادی یعنی مراٹھی حضرات اب بھی اپنے فن و ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں آج بھی ڈرامہ نہیں'' تماشا '' باقی ہے، ذرا سوچیے کہ انہوں اپنے ڈراموں کیلئے انگریزی کا لفظ مستعار لینا اپنی شانِ غیرت کے خلاف سمجھا اور ان کے علا قوں میں اچھے خاصے ڈرامہ تھیٹر باقی ہیں جہاں اب بھی ان کی مادری زبان میں' تماشے' ہوتے ہیں۔
یہاں کے عوام کی سیاسی جماعت (شیو سینا) جو اپنے شدید نظریات اور سخت عملی اقدام کے سبب بدنام مگر اپنے عوام میں خاصی نیک نام بھی ہے، اس کا ایک روزنامہ شائع ہوتا ہے جس کا نام ''سامنا'' بھی توجہ طلب ہے جب یہ اخبار شیوسینا کے چیف بالا صاحب ٹھاکرے نے آج سے کوئی تین دہے قبل 1988 میں جاری کیا تو اس کے نام کیلئے انہوں نے مراٹھی کا کوئی لفظ نہیں چنا بلکہ خالص اُردو کا لفظ ''سامنا '' کو اپنے اخبار کا نام بنایا اور دوسرے یہ کہ اس کے سر نامے کیساتھ اُردو کے ممتاز شاعر اکبر الہٰ بادی کے مشہور زمانہ شعر۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
نمایاں طور پر درج کیا۔ عجب نہیں کہ اکبر الہ آبادی کے مذکورہ شعر کے لفظ ''مقابل '' کے مترادف کے طور پر انہوں نے ''سامنا '' جیسا لفظ منتخب کیا ہو۔ یہ اخبار اب بھی یہاں اپنی شان کیساتھ شائع ہو رہا ہے، اس کے بر خلاف اُردو کی حالت یہ ہے کہ شہر ممبئی ہی میں ہماری آنکھوں نے مسلم علاقوں میں اُردو کتابوں کی لگا تار باقاعدہ درجنوں دُکانیں ہی نہیں سڑک کنارے نجانے کتنے اخباروکتب کے اسٹال بھی دیکھے ہیں، سب سے بڑی یعنی کوئی تیس پینتیس فٹ چوڑی شاندار'' تاج آفس'' کی دُکان ہوتی تھی جہاں دینی ادبی اور دیگر موضوعات کی اُردو کتب فروخت ہوتی تھیں۔
اب اس35 فٹ چوڑ ی دُکان میں کپڑوں اور جوتوں کی کوئی پندرہ دُکانیں کھل گئی ہیں کہ یعنی ہم اپنی تہذیب سے برہنہ ہو چکے ہیں اور ہمیں اب ''جوتوں'' ہی کی شدید ضرورت ہے سو یہ سب ہو رہا ہے اس کیساتھ بُری خبر یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (یونیورسٹی) سے متعلق سالہا سال قدیم اُردو کا ' مکتبہ جامعہ' (جس کی دہلی کیساتھ ممبئی میں بھی کوئی پچاس سالہ شاخ ہے۔) بند تو نہیں ہوا مگر اس کی صورت حال یہ ہے کہ دہلی یعنی مرکزی مکتبہ کے ساتھ ممبئی شاخ کے ملازمین کو لگ بھگ اٹھارہ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ ہند میں اُردو کی حالت جاننے کیلئے اتنا کافی ہے۔ ''تنخواہ نہیں توکچھ بھی نہیں''
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مرزا داغ دہلوی کا یہ شعری تفاخر بجا ہے بیشک وہ زمانہ گزرے ابھی بہت وقت نہیں بیتا جب واقعتاً ہماری زبان کی دھوم ہندوستاں میں' تھی'... اب کیا ہے، جوابا ایک مثال پر توجہ کیجیے کہ ممبئی میں ہمارے والد سمیت پانچ بھائیوں میں سے بحمد للہ دو باحیات ہیں۔ ایک دن ہمارے عمِ مکرم نے درد بھرے لہجے میں ہم سے پوچھا '' کیا اُردو واقعتاً ختم ہوجائے گی؟''
ہم نے اُن سے کہا ''چچا! ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا کہ آپ پانچ بھائیوں میں سے چار بھائی باقاعدہ اُردو کے اخبار و رسائل پڑھتے تھے اورآپ لوگوں کو اُردو کے اشعار پر سَر دھنتے ہوئے بھی دیکھا ہے، اب اسی خاندان میں پانچ سے بارہ پندرہ فرد ہو چکے ہیں اور اس کے بعد کی نسل کو مِلا لیں تواور بھی زیادہ، اب آپ خود بتائیں کہ کیا اس خاندان کے نئے لوگوں کو بھی اُردو سے وہی دلچسپی ہے جو آپ کو تھی؟ کیا یہ ہمارے سب بھائی بہن اُردوکے اخبار پڑھتے ہیں؟
اس سوال پرچچا جانی خموشی کی چادر اوڑھ کر ہم سے منہ پھیر چکے تھے۔ ہندوستاں میں اسی طرح اُردو سے منہ پھیرا گیا ہے اور کہا یہ گیا کہ جو زبان روزی روٹی سے جُڑی نہ ہو تو اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ اتر پردیش ( یو پی ) میں ہندی والوں کو یقیناً اس کا خدشہ تھا کہ اُردو اگر رہی تو ہندی پنپ نہیں سکے گی (جب کہ یہ تصور ناقص تھا) لہٰذا وہاں اُردو کو دیس نکالا دِیا گیا مگر جس طرح ریاست مہاراشٹر میں اُردو بڑی حد تک نہ سہی اب بھی باقی ہے اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہاں کی مقامی آبادی کے لوگوں میں جنہیں مرہٹہ (مراٹھی) کہا جاتا ہے ان کے ہاں ''آپ لی بھاشا'' (اپنی زبان) اور اپنی سنسکرتی (تہذیب ) کا احساس زندہ و توانا ہے، یہاں صرف ایک مثال کافی ہے کہ اب بھی ان کے بچوں کی شادی کے رقعے اکثر ان کی اپنی زبان میں بہت ہی خوبی اور فخر کیساتھ چھپتے ہیں،ان کے بچے کتنی ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں مگر ان کی نئی نسل اپنی زبان کو حقیر نہیں سمجھتی اور پورے ذوق و شوق کیساتھ مراٹھی بولتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے قائدین کو اپنی نسل پر یقین اور اعتماد تھا اور ہے کہ وہ کسی اور زبان کے سحر میں نہیں آئیں گی، سو مہاراشٹر کے مرکزی شہر صرف ممبئی کی میونسپل کارپوریشن میں دس بیس نہیں بلکہ محلے در محلے اُردو ذریعہ تعلیم کے مدارس (اسکول) قائم تھے جہاں مسلمانوں کے بچے نہ صرف مفت پڑھتے تھے بلکہ خاصی تعداد میں یو پی سے آئے ہوئے اساتذہ ان اسکولوں میں روزگار سے وابستہ تھے، بلکہ اب بھی مسلمانوں کی ایک تعداد درس و تدریس سے متعلق ہے مگر اب یہاں کے مسلمان، اپنے بچوں کو اِن اسکولوں میں نہیں بھیجتے، وجہ یہ ہے کہ یہاں جو کسی حد تک مسلمانوں میں مالی آسودگی آئی ہے اُس نے انھیں اپنی زبان و تہذیب سے دور کردیا اب وہ اپنے بچوں کو خاصی رقم ( ڈونیشن میں ) دے کر انگریزی کے مشن اسکولوں میں بھیج رہے ہیں۔
کسی زمانے میں آغا حشر کاشمیری اُردو والوں میں مشہور ہی نہیں تھے بلکہ اپنے ڈراموں کے سبب تمام اُردو والوں میں مقبول بھی تھے، چونکہ ممبئی ، ساحل سمُندر سے لگے ہونے کے سبب ایک مرکزی شہر رہا ہے سو یہاں روزگار کیلئے ایک دُنیا کے لوگ کھِنچے چلے آتے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، تو عرض ہے کہ اُردو والوں کی ( قدرے) مالی آسودگی نے انھیں اپنی زبان و تہذیب سے جہاں دور کیا وہیں آغا حشر کاشمیری کی ڈراموں کی روایت بھی بڑی حد تک جاتی رہی مگر یہاں کی مقامی آبادی یعنی مراٹھی حضرات اب بھی اپنے فن و ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں آج بھی ڈرامہ نہیں'' تماشا '' باقی ہے، ذرا سوچیے کہ انہوں اپنے ڈراموں کیلئے انگریزی کا لفظ مستعار لینا اپنی شانِ غیرت کے خلاف سمجھا اور ان کے علا قوں میں اچھے خاصے ڈرامہ تھیٹر باقی ہیں جہاں اب بھی ان کی مادری زبان میں' تماشے' ہوتے ہیں۔
یہاں کے عوام کی سیاسی جماعت (شیو سینا) جو اپنے شدید نظریات اور سخت عملی اقدام کے سبب بدنام مگر اپنے عوام میں خاصی نیک نام بھی ہے، اس کا ایک روزنامہ شائع ہوتا ہے جس کا نام ''سامنا'' بھی توجہ طلب ہے جب یہ اخبار شیوسینا کے چیف بالا صاحب ٹھاکرے نے آج سے کوئی تین دہے قبل 1988 میں جاری کیا تو اس کے نام کیلئے انہوں نے مراٹھی کا کوئی لفظ نہیں چنا بلکہ خالص اُردو کا لفظ ''سامنا '' کو اپنے اخبار کا نام بنایا اور دوسرے یہ کہ اس کے سر نامے کیساتھ اُردو کے ممتاز شاعر اکبر الہٰ بادی کے مشہور زمانہ شعر۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
نمایاں طور پر درج کیا۔ عجب نہیں کہ اکبر الہ آبادی کے مذکورہ شعر کے لفظ ''مقابل '' کے مترادف کے طور پر انہوں نے ''سامنا '' جیسا لفظ منتخب کیا ہو۔ یہ اخبار اب بھی یہاں اپنی شان کیساتھ شائع ہو رہا ہے، اس کے بر خلاف اُردو کی حالت یہ ہے کہ شہر ممبئی ہی میں ہماری آنکھوں نے مسلم علاقوں میں اُردو کتابوں کی لگا تار باقاعدہ درجنوں دُکانیں ہی نہیں سڑک کنارے نجانے کتنے اخباروکتب کے اسٹال بھی دیکھے ہیں، سب سے بڑی یعنی کوئی تیس پینتیس فٹ چوڑی شاندار'' تاج آفس'' کی دُکان ہوتی تھی جہاں دینی ادبی اور دیگر موضوعات کی اُردو کتب فروخت ہوتی تھیں۔
اب اس35 فٹ چوڑ ی دُکان میں کپڑوں اور جوتوں کی کوئی پندرہ دُکانیں کھل گئی ہیں کہ یعنی ہم اپنی تہذیب سے برہنہ ہو چکے ہیں اور ہمیں اب ''جوتوں'' ہی کی شدید ضرورت ہے سو یہ سب ہو رہا ہے اس کیساتھ بُری خبر یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (یونیورسٹی) سے متعلق سالہا سال قدیم اُردو کا ' مکتبہ جامعہ' (جس کی دہلی کیساتھ ممبئی میں بھی کوئی پچاس سالہ شاخ ہے۔) بند تو نہیں ہوا مگر اس کی صورت حال یہ ہے کہ دہلی یعنی مرکزی مکتبہ کے ساتھ ممبئی شاخ کے ملازمین کو لگ بھگ اٹھارہ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ ہند میں اُردو کی حالت جاننے کیلئے اتنا کافی ہے۔ ''تنخواہ نہیں توکچھ بھی نہیں''