لکھو قصیدے…

سندھ میں ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ کے مصداق ، سفارشی افسران جو چاہیں وہ کریں کوئی پوچھنے والا ہی کوئی نہیں

ایک سال قبل سوچا کہ معاشرے کی برائیوں، کرپشن اور عام آدمی پرکی جانے والی زیادتیوں پر کچھ لکھنا شروع کروں، ایک صحافی دوست نے حوصلہ افزائی کی اور اپنے اخبار میں لکھنے کا موقع فراہم کیا، لہذا میں نے اپنا پہلا کالم کراچی کے ایک مقامی روزنامے میں لکھا۔

کچھ عرصہ بعد ایک بہت ہی سینئر خاتون صحافی نے مجھے روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی (مرحوم) سے متعارف کروایا جنہوں نے میرے کالم روزنامہ ایکسپریس میں چھپوانا شروع کیے۔ اسی کے ساتھ ساتھ میں نے خود کو کچھ واٹس ایپ نیوزگروپ میں بھی شامل کروایا جہاں زیادہ تر سینئر صحافی حضرات اپنی خبروں اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کرپٹ ''سسٹم'' کے خلاف لکھوں اور میری تحریر سے کسی شخص کی دل آزاری نہ ہو اور یہ میں نے کچھ اچھے اور حقیقی سینئر صحافیوں کی تحریریں پڑھ کر سیکھا۔

کچھ ہی دن میں ، میں نے محسوس کیا کہ ان واٹس ایپ گروپس میں سے زیادہ تر حضرات کی کوشش صرف ''قصیدہ خوانی'' ہی ہوتی ہے یعنی صرف اس ڈر سے کہ کسی سرکاری افسر سے ان کے تعلقات خراب نہ ہوں وہ اس کے خلاف سچ لکھنے سے بھی احتراز کرتے ہیں۔

اول تو کسی اعلیٰ سرکاری افسر کے خلاف شاذ و نادر ہی کوئی خبر چلائی جاتی ہے لیکن اگر کسی افسر کے خلاف کوئی خبر چل بھی جائے تو چند لمحوں بعد ہی اس افسر کے حق میں کوئی دوسرے صاحب میدان میں اتر آتے ہیں اور اسے ''صوفی سنتھ'' ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اس کے خلاف خبر چلانے والے کو ''وارننگ'' دے دی جاتی ہے کہ باز آ جائیں ورنہ گروپ سے نکال دیا جائے گا۔

پرانے وقتوں میں تو ''قصیدہ خوانوں'' کو بادشاہ سلامت خلعت اور ہیرے جواہرات عطا کیا کرتے تھے تو موجودہ وقت میں یہ ''عطا'' کس شکل میں ہوتی ہوگی اس کا یہاں بیان کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ سب ہی جان چکے ہیں۔

میں جن گروپس میں اپنے خیالات شیئر کرتا تھا مجھے لگا کہ ان میں سے کچھ گروپس کے ایڈمن میری اتنی زیادہ ''لفظی آزادی'' سے خائف نظر آئے کیونکہ میری تحریر سے ان کے ''تعلقات '' خراب ہونے کا اندیشہ تھا، کیونکہ اس آپا دھاپی کے دور میں ہر شخص کا ہی کوئی نہ کوئی مفاد ہوتا ہے اب وہ مالی ہو یا مادی۔

الیکٹرانک میڈیا اور اس کے بعد ''سوشل میڈیا'' کے متعارف ہونے کے بعد کچھ سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ چند صحافی حضرات نے بھی بہت تیزی سے ''ترقی کی منازل'' طے کیں اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ماضی میں جو اس میدان میں ''پیدل'' آئے تھے وہ نہ صرف اچھی گاڑیوں پر آگئے بلکہ اندرون ملک اور بیرون ملک تفریحی دورے بھی کرنے لگے اور یہ کیسے ہوتا ہے اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔


چند ماہ قبل مجھے ایک سینیئر صحافیوں کے گروپ میں بلاک کر دیا گیا وجہ وہی تھی میرے بے لاگ تبصرے کچھ ''سرکاری افسران'' کو پسند نہیں آئے اور انہوں نے میری ''شکایت'' کردی اور پھر ابھی ایک ہفتہ قبل بھی ایک اور واٹس ایپ گروپ ایڈمن نے مجھے بلاک کر دیا۔ بہرحال اس کے گروپ ایک اور ایڈمن کی اچھائی ہے کہ جس نے مجھ سے معذرت کی آپ کو بلاک کیا ہے کیونکہ آپ کے کچھ ''افسران'' نے آپ کی کسی تحریر کی شکایت کی تھی۔ میں نے بھی ان سے دوبارہ ان گروپس میں خود کو واپس لینے کی درخواست نہیں کی کیونکہ میں کسی کی فرمائش پر لکھوں یہ میری فطر ت میں نہیں ہے ۔

کچھ عرصہ قبل ایک پرانے صحافی دوست نے جو کرائم رپورٹنگ سے منسلک ہے اور میری ہی طرح بولنے اور لکھنے کا عادی ہے، مجھے بتایا کہ وہ ایک دن جب وہ ایک اعلیٰ سرکاری پولیس افسر کے دفتر گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے کچھ صحافی دوست کچھ پولیس والوں کے لیے بہت سفارش کرتے ہیں کہ اسے ہیڈ محرر لگنے کا ایک موقع دے دیں اور بعض اوقات اتنا مجبور کرتے ہیں کہ مجھے انہیں لگانا پڑتا ہے۔

اب یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایس ایچ او یا ہیڈ محرر لگوانے والا اسے ''فی سبیل اللہ'' تو نہیں لگوائے گا اور پھر جس افسر نے ان کی سفارش پر ایس ایچ او یا ہیڈ محرر لگایا اس کے خلاف کوئی بات اگر سچ بھی ہوگی تو ایسا صحافی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں لکھ سکے گا، کیونکہ اردو کی ایک ضرب المثل ہے ''منہ کھاتا ہے تو آنکھ شرماتی ہے۔''

قصیدہ گوئی کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پولیس کے محکمے میں ہمیشہ انسپکٹر اور اس سے نیچے کے رینک کے افسران کی کرپشن کی ہی خبریں گردش کرتی کیوں نظر آتی ہیں، گو کہ تمام صحافی جانتے ہیں کہ اگر ایک انسپکٹر، ایس ایچ او اپنے علاقے میں کسی آرگنائزڈ کرائم کی سرپرستی کر رہا ہے تو وہاں سے آنے والا ''نذرانہ'' اس سے اوپر کس کس افسر تک جا رہا ہے لیکن اگر خبر دی جائے تو اس اعلیٰ افسر کا نام کہیں نہیں لیا جاتا۔

ایسا بھی نہیں کہ کسی بھی محکمے میں ایماندار افسران نہیں ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ پھر پولیس اور دیگر سرکاری محکموں کے افسران اور ملازمین کی ''کرپشن بے نقاب'' کرنے والے یہ بھی بتا دیں کہ خود ان کے اندرون اور بیرون ملک دوروں کے اخراجات کہاں سے پورے کیے جاتے ہیں، کیونکہ موجودہ معاشی بحران کی کیفیت میں تنخواہ دار شخص تو یہ عیاشیاں کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ میرا واسطہ ایک ایسے سینئر مگر صوفی منش صحافی سے بھی رہا جن کے گھر میں 90 کی دہائی میں بھی بجلی کا کنکشن نہیں تھا اور وہ اصفہانی روڈ پر اخبارات کا اسٹال لگا کر اپنا گذارا کرتے تھے، لیکن ایسے لوگ اب یقیناً ہر شعبے میں ناپید ہو چکے ہیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی کئی دن کچھ لکھنے کو دل نہیں کرتا کیونکہ سوچتا ہوں کہ میرے لکھنے سے اس کرپٹ سسٹم یا اس سے جڑے افراد کی صحت پر فرق ہی کیا پڑتا ہے۔ یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر کہیں زیادہ ہی سچ لکھ دیا تو میری فیملی میری ''جبر ی گمشدگی'' کی رپورٹ لکھوانے کے لیے دھکے نہ کھاتی پھرے کیونکہ اس ملک میں سچ لکھنا گناہ کبیرہ ہے ۔ پھر یہ سوچ کر کہ کم از کم اپنے حصے کا کام تو کر ہی جائیں لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔

حال ہی میں سندھ میں ڈی ایس پی سے ایس پی کے عہدے پر ترقیوں میں بدعنوانی اور بے ضابطگی کے بارے میں لکھا جس میں ایک ایسے ڈی ایس پی کو جو سندھ پولیس کا ملازم ہی نہیں ہے، ایس پی کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ ایسی بدعنوانی اور بے ضابطگی کی اس سے پہلے سندھ پولیس میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن کسی کے کان پر کوئی جوں تک نہیں رینگی۔

سندھ میں ''جس کی لاٹھی، اس کی بھینس'' کے مصداق ، سفارشی افسران جو چاہیں وہ کریں کوئی پوچھنے والا ہی کوئی نہیں۔میں کسی بھی ایسے شخص کی شان میں قصیدہ خوانی نہیں کرسکتا جو اس کا حق دار نہیں ہے۔ آپ بھی، یہ سوچے بغیر کہ کوئی اثر ہوگا یا نہیں کوشش کریں کہ اپنے حصے کا کام کرتے جائیں تاکہ کم از کم آپ کا ضمیر مطمئن رہے۔
Load Next Story