جوہری ہتھیاروں کا جنون
ہمیں اپنی معیشتوں اور سیاسی نظام کو جدید بنانا چاہیے تاکہ جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے
روس نے بیلا روس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار نصب کرنے کے منصوبے پر امریکی صدر جوبائیڈن کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کئی دہائیوں تک ایسے ہی جوہری ہتھیار یورپ میں نصب کرتا رہا ہے۔
درحقیقت جوہری ہتھیاروں کی موجودہ دوڑ زمین پر موجود تمام لوگوں کی مشترکہ سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، سچ تو یہ ہے کہ جوہری ہتھیارکسی کے بھی تحفظ کی ضمانت نہیں دیتے۔ جھوٹی اور پروپیگنڈے پر مبنی کہانیاں عالمی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ہمیں جوہری ہتھیاروں کو جدید نہیں بنانا چاہیے، اس کے بجائے ہمیں اپنی معیشتوں اور سیاسی نظام کو جدید بنانا چاہیے تاکہ جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
تمام فوجوں اور عسکری سرحدوں، دیواروں اور خاردار تاروں اور بین الاقوامی نفرت کا پروپیگنڈہ جو ہمیں تقسیم کرتا ہے، گوکہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ درست سمت میں ایک قدم ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک اس پابندی کو بین الاقوامی قانون کے نئے معیار کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ذرا ، ان کی وضاحتوں پر غور کریں۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی انسانی ہمدردی سے زیادہ اہم ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں حکام کا کہنا ہے کہ جوہری پابندی انکل سام کو جمہوریت کے عالمی اتحاد کی قیادت کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ شاید انھیں دو بار سوچنا چاہیے کہ دنیا کے لوگ کئی پرائیویٹ ظالموں، اسلحے کی صنعت کی کارپوریشنوں کے سیلزمینوں کی قیادت میں، سفید گھوڑے کے بجائے ایٹم بم پر چڑھ کر، شان و شوکت کے عالم میں، کھائی میں گرنے میں کتنا سکون محسوس کرتے ہیں۔
دراصل ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنزکو میدان جنگ میں زبردست روایتی قوتوں جیسے پیادہ فوج اور جنگی ساز وسامان کی بڑی تشکیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یہ اسٹرٹیجک جوہری ہتھیار جیسے بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں پر لے جانے والے وار ہیڈز سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی پیداوار میں ایک کلوٹن سے لے کر تقریباً 50 کلوٹن تک فرق ہوتا ہے، جب کہ اسٹرٹیجک جوہری ہتھیارکی پیداوار تقریباً 100 کلوٹن سے لے کر ایک میگاٹن تک ہوتی ہے۔ حوالہ کے لیے ہیروشیما پرگرایا گیا ایٹم بم 15 کلوٹن تھا، اس لیے کچھ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب امریکا اورچین کے بگڑتے تعلقات عالمی معیشت کے لیے بد تر ہوسکتے ہیں۔ دونوں ممالک دنیا میں اپنے اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
امریکی صدر، جوبائیڈن، اپنے ہم خیال ممالک جن میں زیادہ تر مغربی ممالک شامل ہیں پر دباؤ ڈال کر انھیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چین پر مشترکہ طور پر تجارت، ٹیکنالوجی، مالیات اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں پابندیاں لگا دیں، پابندیوں کے ساتھ ،کچھ مارکیٹوں اور کمپنیوں کو مجبورکردیاجائے کہ وہ ان دونوںممالک میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
اگرچہ ٹیکنالوجی کے میدان میں واضح خطرہ اس کا ہے کہ یہ حکمت عملی صنعتی شعبوں کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ معیشت دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی ایک چین کی حمایت اور دوسری امریکا کی حمایت کرنے والی۔ اس عالمی اقتصادی تقسیم کی صورت میں کمپنیاں مختلف تکنیکی معیارات کے ساتھ دہری سپلائی چین چلانے پر مجبور ہوجائیں گی۔
کچھ ممالک میں ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک فائیو جی کے نفاذ کو ملتوی کیا جا سکتا ہے، اور چین کی طرف سے پابندیاں عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے گرد غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیں گی۔ اجناس کی بلند قیمتوںسے پیدا افراط زر کے دباؤ نے پہلے ہی برازیل، میکسیکو، روس، سری لنکا اور یوکرین جیسی کچھ ابھرتی ہوئی منڈیوں کو مانیٹری پالیسی کی شرحوں میں اضافے پر مجبورکیا ہے۔
شرح سود کو معمول پر لانے سے حکومتوں کے لیے قرض پر اٹھنے والے اخراجات زیادہ ہوں گے۔ خطرات ان ممالک میں زیادہ ہوںگے جوغیرملکی کرنسی میں مقروض ہیں، جیسا کہ ارجنٹائن اور ترکی، جہاں بانڈ کی فروخت سے کرنسی یا قرض کا بحران متحرک ہوسکتا ہے۔ سپلائی چین میں رکاوٹوں اور توانائی کی طلب میں اضافے نے قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ مرکزی بینکرز کہتے ہیں کہ یہ عارضی ہے، لیکن ہرکوئی ان پر یقین نہیں کرتا ہے۔
بریگزٹ کے بعد مزدوروں کی قلت اور مہنگی قدرتی گیس پر انحصار کی وجہ سے برطانیہ کو جمود کا خاص خطرہ ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا جوہری جنگ کو روکنے اور تاریخ ساز جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کو مضبوط کرنے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
دنیا میں نام نہاد '' دفاع'' کو سفارت کاری سے 12 گنا زیادہ پیسہ کیوں ملتا ہے، امریکی سفیر اور اعزازی افسر چارلس رے نے لکھا ہے کہ '' فوجی کارروائیاں ہمیشہ سفارتی سرگرمیوں سے زیادہ مہنگی ہوں گی، یہ صرف درندے کی فطرت ہے۔ ''
سرد جنگ کے خاتمے سے لے کر آج تک دنیا کے کل سالانہ فوجی اخراجات تقریباً دو گنا بڑھ چکے ہیں، ایک ٹریلین سے دو ٹریلین ڈالر۔ اور چونکہ ہم نے جنگ میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں وہی ملتا ہے جو ہم نے ادا کیا، ہمیں سب کے خلاف سب کی جنگ، دنیا بھر میں دسیوں موجودہ جنگیں ملتی ہیں۔
یہ موجودہ عالمی سیاست کا تفریق پر مبنی رویہ ہے کہ جہاں بڑی طاقتیں اپنے اپنے ایٹمی اور اسٹرٹیجک اسلحے اور صلاحیتوں کو توسیع دینے میں مصروف ہیں، امریکا کی اصل پریشانی یہ ہے کہ دنیا کی سپر پاور ہونے کی حیثیت کا اس نے نصف صدی تک فائدہ اٹھایا۔
اس دور میں یورپی ممالک نے اشراکیت کے خوف سے امریکا کا دم چھلہ بننا پسند کیا اور اب اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ روس سے حالات بگاڑنے میں امریکا کی اپنی پالیسی تھی اس میں یورپی ممالک کو زیادہ مصلحت پسندی سے کام لینا چاہیے، حالانکہ یہ یورپی ممالک ہی ہیں جنھوں نے دوسو برس سے زائد عرصہ تک دنیا کے زیادہ تر ممالک کو کنگال کرکے اپنے خزانے بھرے،صرف ہندوستان سے برطانیہ نے اپنے راج میں 43 ٹریلین ڈالر لوٹ لیے۔ اب یورپی ممالک کو وقت پڑا ہے۔ معیشت نڈھال ہے۔
برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو کر پچھتا رہا ہے۔ ایٹمی ماہرین بار بار خبردار کرتے رہے ہیں کہ چھوٹے کم جوہری قوت والے بموں کا استعمال کیاگیا تو اس میں بھی آناً فاناً لاکھوں افراد اور دیگرحیاتیات لقمہ اجل بن جائیں گے۔ حدتِ زمین اور حرارت سے لاکھوں ہیکٹر زمین سیاہ ہو جائے، جس پر انسان صدیوں کاشت نہیں کر پائے گا۔
فرض کریں کہ روس جاری جنگی صورتحال میں چھوٹے کم جوہری طاقت کے بم یوکرین کے خلاف استعمال کرتا ہے تو یوکرین کے اطراف کے خطوں پر بھی وہی تباہی اور مہیب اثرات نمایاں ہوں گے جو یوکرین پر ہوں گے۔ روس کی گیس پابندیوں کی وجہ سے یورپ کو نہیں مل رہی۔ روسی صدر پیوتن کی ایٹمی جنگ کی دھمکی کو امریکی صدر جوبائیڈن کہتے ہیں اس دھمکی کو ہلکا نہ لیا جائے اس میں روسی صدر پیوتن کی انا بھی شامل ہے۔
وہ روس کو عالمی اسٹیج پر نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ واپس روس کو ستر اور اسی کی دہائیوں کا سابق سوویت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں روسی صدر پیوتن کی خواہش اور انا کا جس حد تک بھی دخل ہو درحقیقت بالٹک سمندر جو شمالی اوقیانوس سے گھرا ہوا ہے برفانی علاقہ ہے،وہاں تیل، قدرتی کوئلہ، گیس، سونا، تانبا، لوہا اور دیگر قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ اناج کی پیداوار میں بھی روس خود کفیل ہے۔ ایسے میں یورپی ممالک شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ روس پر امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں کا روس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔
روس کی گیس، تیل اورگندم کی فروخت زیادہ ہوگئی ہے، مگر یورپی ممالک کا حال بہت برا ہے، اوپر سے موسم سرما اور برفباری شروع ہو چکی ہے۔ پہلی بار یورپی ممالک میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کا سب سے بڑا فروخت کنندہ روس ہے اس پر پابندیاں عائد ہیں، ایسے میں نان یورپی ممالک مثلاً ہندوستان، ترکی، لاطینی امریکی ممالک روس سے تیل اورگیس کے بڑے سودے کر رہے ہیں۔
روس بہت فائدہ میں البتہ یورپی یونین پریشان ہے۔ بیشتر ممالک میں یوکرین سے گندم نہیں پہنچ رہی ہے،چونکہ یوکرین کی بندرگاہ پر روس کا محاصرہ ہے، دنیا میں گندم کی قلت بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف امریکا میں پہلی بار ڈیزل کی کمی ہو رہی ہے۔ امریکا نے کنٹرول شروع کردیا ہے۔ دراصل روسی صدر پیوتن نے امریکی صدر جوبائیڈن کوکہا کہ، امریکا نے یوکرین کو جدید ہتھیاروں کی کھیپ روانہ کی تو پھر روس ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے کئی آپشن پر غور کرے گا۔ اگر جوہری بم پھٹ گیا تو سورج کی رہی سہی شعاعیں بھی زمین تک پہنچ نہ سکے گی۔
آسمان دبیز سیاہ دھوئیں سے ڈھک چکا ہوگا۔ ایسے میں پورا یورپ سب سے بڑا برف خانہ بن کر ٹھٹھر کر رہ جائے گا۔ ان حالات میں امریکا کچھ نہیں کر پائے گا اس کے لیے نئی آفتیں کھڑی ہو جائیں گی۔ خطے میں اور اطراف وبائی امراض ڈیرے ڈال دیں گے، گویا قیامت سے پہلے قیامت ہوگی جو احمق چھوٹے جوہری بموں کی اپنے حریفوں کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، وہ ہوش کے ناخن لیں۔
دنیا میں اسلحے کی دوڑ عالمی امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، کاش طاقتور ممالک اوران کے حکمران انسانوں اور انسانیت کی بھلائی کے بارے میں بھی سوچیں، یہی رقم دنیا سے غربت، افلاس دورکرنے اور تعلیم وصحت پر خرچ کی جائے تو دنیا سے پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔
درحقیقت جوہری ہتھیاروں کی موجودہ دوڑ زمین پر موجود تمام لوگوں کی مشترکہ سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، سچ تو یہ ہے کہ جوہری ہتھیارکسی کے بھی تحفظ کی ضمانت نہیں دیتے۔ جھوٹی اور پروپیگنڈے پر مبنی کہانیاں عالمی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ہمیں جوہری ہتھیاروں کو جدید نہیں بنانا چاہیے، اس کے بجائے ہمیں اپنی معیشتوں اور سیاسی نظام کو جدید بنانا چاہیے تاکہ جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
تمام فوجوں اور عسکری سرحدوں، دیواروں اور خاردار تاروں اور بین الاقوامی نفرت کا پروپیگنڈہ جو ہمیں تقسیم کرتا ہے، گوکہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ درست سمت میں ایک قدم ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک اس پابندی کو بین الاقوامی قانون کے نئے معیار کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ذرا ، ان کی وضاحتوں پر غور کریں۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی انسانی ہمدردی سے زیادہ اہم ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں حکام کا کہنا ہے کہ جوہری پابندی انکل سام کو جمہوریت کے عالمی اتحاد کی قیادت کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ شاید انھیں دو بار سوچنا چاہیے کہ دنیا کے لوگ کئی پرائیویٹ ظالموں، اسلحے کی صنعت کی کارپوریشنوں کے سیلزمینوں کی قیادت میں، سفید گھوڑے کے بجائے ایٹم بم پر چڑھ کر، شان و شوکت کے عالم میں، کھائی میں گرنے میں کتنا سکون محسوس کرتے ہیں۔
دراصل ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنزکو میدان جنگ میں زبردست روایتی قوتوں جیسے پیادہ فوج اور جنگی ساز وسامان کی بڑی تشکیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یہ اسٹرٹیجک جوہری ہتھیار جیسے بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں پر لے جانے والے وار ہیڈز سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی پیداوار میں ایک کلوٹن سے لے کر تقریباً 50 کلوٹن تک فرق ہوتا ہے، جب کہ اسٹرٹیجک جوہری ہتھیارکی پیداوار تقریباً 100 کلوٹن سے لے کر ایک میگاٹن تک ہوتی ہے۔ حوالہ کے لیے ہیروشیما پرگرایا گیا ایٹم بم 15 کلوٹن تھا، اس لیے کچھ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب امریکا اورچین کے بگڑتے تعلقات عالمی معیشت کے لیے بد تر ہوسکتے ہیں۔ دونوں ممالک دنیا میں اپنے اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
امریکی صدر، جوبائیڈن، اپنے ہم خیال ممالک جن میں زیادہ تر مغربی ممالک شامل ہیں پر دباؤ ڈال کر انھیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چین پر مشترکہ طور پر تجارت، ٹیکنالوجی، مالیات اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں پابندیاں لگا دیں، پابندیوں کے ساتھ ،کچھ مارکیٹوں اور کمپنیوں کو مجبورکردیاجائے کہ وہ ان دونوںممالک میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
اگرچہ ٹیکنالوجی کے میدان میں واضح خطرہ اس کا ہے کہ یہ حکمت عملی صنعتی شعبوں کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ معیشت دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی ایک چین کی حمایت اور دوسری امریکا کی حمایت کرنے والی۔ اس عالمی اقتصادی تقسیم کی صورت میں کمپنیاں مختلف تکنیکی معیارات کے ساتھ دہری سپلائی چین چلانے پر مجبور ہوجائیں گی۔
کچھ ممالک میں ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک فائیو جی کے نفاذ کو ملتوی کیا جا سکتا ہے، اور چین کی طرف سے پابندیاں عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے گرد غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیں گی۔ اجناس کی بلند قیمتوںسے پیدا افراط زر کے دباؤ نے پہلے ہی برازیل، میکسیکو، روس، سری لنکا اور یوکرین جیسی کچھ ابھرتی ہوئی منڈیوں کو مانیٹری پالیسی کی شرحوں میں اضافے پر مجبورکیا ہے۔
شرح سود کو معمول پر لانے سے حکومتوں کے لیے قرض پر اٹھنے والے اخراجات زیادہ ہوں گے۔ خطرات ان ممالک میں زیادہ ہوںگے جوغیرملکی کرنسی میں مقروض ہیں، جیسا کہ ارجنٹائن اور ترکی، جہاں بانڈ کی فروخت سے کرنسی یا قرض کا بحران متحرک ہوسکتا ہے۔ سپلائی چین میں رکاوٹوں اور توانائی کی طلب میں اضافے نے قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ مرکزی بینکرز کہتے ہیں کہ یہ عارضی ہے، لیکن ہرکوئی ان پر یقین نہیں کرتا ہے۔
بریگزٹ کے بعد مزدوروں کی قلت اور مہنگی قدرتی گیس پر انحصار کی وجہ سے برطانیہ کو جمود کا خاص خطرہ ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا جوہری جنگ کو روکنے اور تاریخ ساز جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کو مضبوط کرنے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
دنیا میں نام نہاد '' دفاع'' کو سفارت کاری سے 12 گنا زیادہ پیسہ کیوں ملتا ہے، امریکی سفیر اور اعزازی افسر چارلس رے نے لکھا ہے کہ '' فوجی کارروائیاں ہمیشہ سفارتی سرگرمیوں سے زیادہ مہنگی ہوں گی، یہ صرف درندے کی فطرت ہے۔ ''
سرد جنگ کے خاتمے سے لے کر آج تک دنیا کے کل سالانہ فوجی اخراجات تقریباً دو گنا بڑھ چکے ہیں، ایک ٹریلین سے دو ٹریلین ڈالر۔ اور چونکہ ہم نے جنگ میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں وہی ملتا ہے جو ہم نے ادا کیا، ہمیں سب کے خلاف سب کی جنگ، دنیا بھر میں دسیوں موجودہ جنگیں ملتی ہیں۔
یہ موجودہ عالمی سیاست کا تفریق پر مبنی رویہ ہے کہ جہاں بڑی طاقتیں اپنے اپنے ایٹمی اور اسٹرٹیجک اسلحے اور صلاحیتوں کو توسیع دینے میں مصروف ہیں، امریکا کی اصل پریشانی یہ ہے کہ دنیا کی سپر پاور ہونے کی حیثیت کا اس نے نصف صدی تک فائدہ اٹھایا۔
اس دور میں یورپی ممالک نے اشراکیت کے خوف سے امریکا کا دم چھلہ بننا پسند کیا اور اب اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ روس سے حالات بگاڑنے میں امریکا کی اپنی پالیسی تھی اس میں یورپی ممالک کو زیادہ مصلحت پسندی سے کام لینا چاہیے، حالانکہ یہ یورپی ممالک ہی ہیں جنھوں نے دوسو برس سے زائد عرصہ تک دنیا کے زیادہ تر ممالک کو کنگال کرکے اپنے خزانے بھرے،صرف ہندوستان سے برطانیہ نے اپنے راج میں 43 ٹریلین ڈالر لوٹ لیے۔ اب یورپی ممالک کو وقت پڑا ہے۔ معیشت نڈھال ہے۔
برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو کر پچھتا رہا ہے۔ ایٹمی ماہرین بار بار خبردار کرتے رہے ہیں کہ چھوٹے کم جوہری قوت والے بموں کا استعمال کیاگیا تو اس میں بھی آناً فاناً لاکھوں افراد اور دیگرحیاتیات لقمہ اجل بن جائیں گے۔ حدتِ زمین اور حرارت سے لاکھوں ہیکٹر زمین سیاہ ہو جائے، جس پر انسان صدیوں کاشت نہیں کر پائے گا۔
فرض کریں کہ روس جاری جنگی صورتحال میں چھوٹے کم جوہری طاقت کے بم یوکرین کے خلاف استعمال کرتا ہے تو یوکرین کے اطراف کے خطوں پر بھی وہی تباہی اور مہیب اثرات نمایاں ہوں گے جو یوکرین پر ہوں گے۔ روس کی گیس پابندیوں کی وجہ سے یورپ کو نہیں مل رہی۔ روسی صدر پیوتن کی ایٹمی جنگ کی دھمکی کو امریکی صدر جوبائیڈن کہتے ہیں اس دھمکی کو ہلکا نہ لیا جائے اس میں روسی صدر پیوتن کی انا بھی شامل ہے۔
وہ روس کو عالمی اسٹیج پر نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ واپس روس کو ستر اور اسی کی دہائیوں کا سابق سوویت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں روسی صدر پیوتن کی خواہش اور انا کا جس حد تک بھی دخل ہو درحقیقت بالٹک سمندر جو شمالی اوقیانوس سے گھرا ہوا ہے برفانی علاقہ ہے،وہاں تیل، قدرتی کوئلہ، گیس، سونا، تانبا، لوہا اور دیگر قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ اناج کی پیداوار میں بھی روس خود کفیل ہے۔ ایسے میں یورپی ممالک شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ روس پر امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں کا روس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔
روس کی گیس، تیل اورگندم کی فروخت زیادہ ہوگئی ہے، مگر یورپی ممالک کا حال بہت برا ہے، اوپر سے موسم سرما اور برفباری شروع ہو چکی ہے۔ پہلی بار یورپی ممالک میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کا سب سے بڑا فروخت کنندہ روس ہے اس پر پابندیاں عائد ہیں، ایسے میں نان یورپی ممالک مثلاً ہندوستان، ترکی، لاطینی امریکی ممالک روس سے تیل اورگیس کے بڑے سودے کر رہے ہیں۔
روس بہت فائدہ میں البتہ یورپی یونین پریشان ہے۔ بیشتر ممالک میں یوکرین سے گندم نہیں پہنچ رہی ہے،چونکہ یوکرین کی بندرگاہ پر روس کا محاصرہ ہے، دنیا میں گندم کی قلت بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف امریکا میں پہلی بار ڈیزل کی کمی ہو رہی ہے۔ امریکا نے کنٹرول شروع کردیا ہے۔ دراصل روسی صدر پیوتن نے امریکی صدر جوبائیڈن کوکہا کہ، امریکا نے یوکرین کو جدید ہتھیاروں کی کھیپ روانہ کی تو پھر روس ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے کئی آپشن پر غور کرے گا۔ اگر جوہری بم پھٹ گیا تو سورج کی رہی سہی شعاعیں بھی زمین تک پہنچ نہ سکے گی۔
آسمان دبیز سیاہ دھوئیں سے ڈھک چکا ہوگا۔ ایسے میں پورا یورپ سب سے بڑا برف خانہ بن کر ٹھٹھر کر رہ جائے گا۔ ان حالات میں امریکا کچھ نہیں کر پائے گا اس کے لیے نئی آفتیں کھڑی ہو جائیں گی۔ خطے میں اور اطراف وبائی امراض ڈیرے ڈال دیں گے، گویا قیامت سے پہلے قیامت ہوگی جو احمق چھوٹے جوہری بموں کی اپنے حریفوں کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، وہ ہوش کے ناخن لیں۔
دنیا میں اسلحے کی دوڑ عالمی امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، کاش طاقتور ممالک اوران کے حکمران انسانوں اور انسانیت کی بھلائی کے بارے میں بھی سوچیں، یہی رقم دنیا سے غربت، افلاس دورکرنے اور تعلیم وصحت پر خرچ کی جائے تو دنیا سے پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔