کہاں سیاسی کارکن اور کہاں یہ مجنوں
یہ پہلی بار ہے کہ پچیس تیس درجے کی گرمی عمران خان کے انقلابی برداشت نہ کر پائے
محترمہ ملیکہ بخاری نے کیا عجب بات کہی۔ فرمایا کہ گرمی کے اس موسم میں ایک دن بھی اڈیالہ جیل میں گزار کر دیکھیں تو معلوم ہو کہ جیل کیا ہے اور مشکلات کیا ہوتی ہیں۔
یہ کہانی فقط ملیکہ صاحبہ کی تو نہیں۔ دو تین چار، زیادہ سے زیادہ ہفتہ دس دن جیلیں گزار کر نکلنے والے تقریباً سارے ہی سورماؤں کے منھ سے کچھ ایسے ہی پھول جھڑے ہیں۔ ان میں سے کسی نے وہ رشتہ توڑ دیا پہلے جس کی خاطر وہ ریاست پر حملہ آور ہو چکے تھے۔
دو چار دنوں کی جیل اور گرفتاری پر یہ دکھ بھری داستانیں سن کر بہت کچھ یاد آ گیا۔ وقت آ گیا ہے کہ ان میں سے کچھ یادیں جو ابھی تک دلوں میں دفن تھیں، سامنے لائی جائیں لیکن اس سے پہلے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی ایک یاد۔ ابھی برادر محترم سلمان غنی صاحب سے بات ہو رہی تھی۔
انھوں نے جنرل مشرف کے زمانے کا ایک واقعہ سنایا۔ محترمہ کلثوم نواز خواجہ سعد رفیق کے کسی عزیز کی دعوت ولیمہ میں شریک تھیں۔ دوران گفتگو اپنے بیٹے کو یاد کیا جسے جنرل مشرف کی بغاوت کی شب وزیر اعظم ہاؤس سے گرفتار کیا گیا تھا۔
انھوں نے دوران گفتگو حسن نواز کو یاد کیا اور کہا کہ نہیں معلوم میرا بچہ کس حال میں ہو گا؟ دکھ کی کیفیت میں انھوں نے یہ جملہ کہا ضرور لیکن شادی کی تقریب میں شرکت بتاتی تھی کہ یہ خاتون ایک ڈکٹیٹر کی کال کوٹھری میں اپنے شوہر اور بیٹے کے بند ہو جانے کے باوجود نہ صرف حوصلے میں ہیں بلکہ سماجی سرگرمیوں میں شریک بھی ہیں۔
عمران خان کے دور کی کہانیاں بھی کچھ کم تاریخی نہیں۔ شہباز شریف کو جیل میں بند کیا تو کرسی روک لی تاکہ کمر کی تکلیف مزید بڑھائے۔ رانا ثنا اللہ کو دی جانے والی اذیتیں تو تاریخ میں لکھی جائیں گی۔
میاں صاحب کے سامنے مریم نواز کی گرفتاری اور بیگم صاحبہ کی زندگی کے آخری لمحات میں نواز شریف صاحب کو ٹیلی فون کرنے کی اجازت دینے سے انکار۔ کون کون سی اذیت اس دور کی تاریخ بھول پائے گی؟
دور عمرانی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اس سے مختلف سلوک نہیں کیا گیا۔ چاند رات کو آصف علی زرداری صاحب کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو اسپتال سے پکڑ کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ آصف علی زرداری صاحب کو پکڑا گیا۔
خورشید شاہ صاحب سمیت بہت سے دیگر لوگوں کو جیل میں اذیتیں دی گئیں۔ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور بہت سے دیگر سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک نے کئی کہانیوں کو جنم دیا۔
مخالفین کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والوں میں کم از کم اتنا حوصلہ تو ہوتا کہ وہ چند روز عزت سے نظر بندی میں گزار لیتے۔ مرحوم و مغفور مشاہد اللہ خان کی کہی ہوئی درجنوں باتیں سیاسی پیشین گوئی بن چکیں لیکن فواد چودہری کے بارے میں کہا گیا جملہ تو سیاسی تاریخ میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ مجھے تمھاری آنکھوں میں ابھی سے آنسو دکھائی دیتے ہیں جنھیں کوئی پونچھنے والا بھی نہیں ہو گا۔
حیرت ہوتی ہے کہ ماضی میں شاہی قلعے اور مشرف دور میں مار کھانے والے مشاہد اللہ خان نے یہ سب کچھ پہلے ہی کیسے دیکھ لیاتھا۔ مشاہد اللہ خان کی گرفتاری کا آنکھوں دیکھا واقعہ بھی سن لیں۔ چودہ اکتوبر کی سہ پہر جب کہ سارا پاکستان مشرف کے جبر تلے کراہ رہا تھا، یہ شخص جئے جمہوریت ، جئے نواز شریف کے نعرے لگاتا ہوا کراچی کے ریگل چوک پر نکلا اور اسے فوراً ہی دبوچ لیا گیا۔
رہائی کے بعد برادر محترم خواجہ طارق نذیر کے گھر ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ گرفتاری کا ڈر تو مجھے کبھی بھی نہ تھا لیکن بدبختوں نے مارا بہت۔ چند ماہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے تو تھوڑے ہی دنوں کے بعد دوبارہ پکڑ لیا گیا۔ پہلے کئی ہفتوں تک اذیت دی جاتی رہی پھر چکنی چپڑی باتوں کا دور شروع ہوا۔ لالچ دیے گئے اور خوفزدہ کیا گیا کہ بیٹیاں کتنی ہیں اور کہاں کہاں پڑھتی ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ وفاداری خریدنے کے جتن بھی ہوئے۔
ایک بار کہا گیا کہ جنرل مشرف آپ کے بڑے مداح ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ سیاست میں بہت آگے جا سکتے ہیں لیکن رکاوٹ ایک ہی ہے۔ وہ آپ کی دوستی؟ اب خان صاحب نے سوال کیا کہ کون سی دوستی تو بتایا کہ وہی آپ کے سعودی عرب والے دوست۔ میاں صاحبان کو اس وقت تک سعودی عرب جلا وطن کیا جا چکا تھا۔
مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اگر اس دوستی پر اعتراض ہے تو پھر یہ دوستی تو نہیں بدل سکتی۔ بس، یہی جرم تھا جس کی پاداش میں اس شخص کو مشرف دور میں بار بار گرفتار کیا گیا ، اذیتیں دی گئی لیکن اس کے پائے استقامت میں ذراسی لغزش بھی نہیں آئی۔
جنرل مشرف ہی کے زمانے میں وقت کے وزیر اعظم یعنی نواز شریف کے ہاتھ دوران پرواز سیٹ کے ساتھ آہنی زنجیر کے ساتھ باندھنا اور کال کوٹھڑیوں میں بند کرنا 'یہ سب ہوتا رہا۔ ملیکہ بخاری کو اڈیالہ جیل کی گرمی نے پریشان کیا جہاں درجہ حرارت پچیس تیس سے بڑھ کر نہیں دیتا۔
اس کا سکھر جیل کی پچاس درجے کی گرمی سے کیا مقابلہ جہاں بے نظیر بھٹو کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔خیر یہ تو نمایاں لوگوں کی قید اور ان پر کیے جانے والے تشدد کی کہانیاں ہیں۔ ستر کی دہائی میں ممتاز صحافی عظیم چودہری کو پکڑا گیا' وہ لاہور کے ایک کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری تھے۔
پولیس پکڑ کر انھیں تھانے میں لائی اور حوالات میں بند کرتے ہوئے ان سے کہا گیا کہ جوتے اتار دیجیے۔ جوتے اترے تو فرمائش ہوئی کہ موزے بھی اتار دیں۔
عظیم چودہری موزے اتار کر حوالات میں داخل ہوئے تو فرش پر ٹھنڈا پانی موجود پایا۔ تجسس ہوا کہ یہ کہاں سے آ گیا؟ معلوم ہوا کہ حوصلہ توڑنے کے لیے حوالات میں برف کا پورا بلاک رکھا گیا ہے جس نے دسمبر کے ٹھنڈے موسم کی یہ رات اس شخص نے اسی عالم میں گزاری اور وفا داری بدلے بغیر یہ شخص سرخرو ہوا۔
حال ہی میں برادر محترم ناصر بیگ چغتائی نے شہرت بخاری کی کتاب ' یہ بازی عشق کی بازی ہے'کا ذکر کیا ہے جس میں فرخندہ بخاری پر تشدد کے واقعات کا ذکر ہے جیل میں ان کا جسم سیگریٹوں سے داغا گیا تاکہ وہ پیپلز پارٹی سے اپنا تعلق توڑ لیں۔
وہ کہا کرتی تھی کہ تم چاہو تو میرا چہرہ بھی داغ ڈالو، وفا داری نہیں بدلی جا سکتی۔ ایوب دور میں لاہور کے قلعے میں حسن ناصر کو اذیتیں دے کر شہید کیا گیا اور ان کی لاش تک غائب کر دی گئی ۔
یہ ہوتا ہے تشدد اور ایسی ہوتی ہے قید اور اسے برداشت کرنے کا حوصلہ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی کارکن نے جیل اور تشدد کا ہمیشہ مردانہ وار سامنا کیا ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ پچیس تیس درجے کی گرمی عمران خان کے انقلابی برداشت نہ کر پائے اور وہ اشک ندامت بہاتے ہوئے نہ صرف اپنے اگلے پچھلے گناہوں سے تائب ہو گئے بلکہ اپنے لیڈر کو بھی تنہا چھوڑ دیا۔ قومی سیاسی تاریخ میں ایسا شرم ناک واقعہ رونما کیوں ہوا؟ ناصر الدین محمود کا جملہ یاد آتا ہے۔
وہ کہا کرتے ہیں کہ یہ کوئی سیاسی جماعت تو ہے نہیں، دودھ پینے والے مجنوؤں کا ہجوم ہے، ذرا سی تپش بردار نہیں کر پائیں گے۔ ایسے ہجوم کسی بڑے مقصد یا سیاسی نظریے کے بجائے وقتی ہیجان کے زیر اثر جنم لیتے ہیں اور تباہی مچا کر ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جاتے ہیں۔ دودھ پینے والے مجنوؤں کا مقصد کے لیے جان تک قربان کر دینے والے سیاسی کارکنوں سے کیا مقابلہ؟