آندھیاں چراغوں سے اُن کا تعارف نہیں پوچھا کرتی ہیں
قوم کے ذہنوں میں صرف عمران خان کی شخصیت کے ایسے نقوش ثبت ہوجائیں کہ کسی اورکی تصویر وہاں اثر پیدا ہی نہ کرسکے
مئی 9 کو رونما ہونے والے افسوسناک واقعات کے بعد ملک کے سیاسی ماحول میں جو حیران کن تبدیلی ہوئی ہے وہ PTI کے اپنے اندر بڑی تعداد میں پارٹی سے انحراف والوں کی ہے، اتنی بڑی تعداد میں اور اتنے مختصر عرصے میں کبھی بھی کسی اور سیاسی پارٹی کے لوگوں نے وفاداریاں نہیں بدلی ہیں۔ ایسا کیوں ہوا، یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے۔
خان صاحب اور اُن کے باقی ماندہ کچھ ساتھیوں کی طرف سے ابھی تک یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ وہی قوتیں کروا رہی ہیں جو پہلے بھی یہی کام پس پردہ رہ کر کرتی رہی ہیں، مگر جتنے لوگوں نے بھی ابھی تک پارٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
اُن میں بہت سے تو ابھی تک گرفتار بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ اُن پر کسی نادیدہ دباؤ کے شواہد دکھائی دے رہے ہیں اور جو گرفتار بھی ہوئے ہیں انھوں نے بھی اپنے اوپر کسی جسمانی تشدد یا کسی خفیہ دباؤ کے بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتایا۔ ماضی میں اگر اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کے لوگ اپنی قیادت کے فیصلوں یا خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے کبھی علیحدہ ہوئے تو اس کے پیچھے غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ کی کہانی سنائی جاتی تھی۔
2002میں جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کو توڑ کر پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین بنائی گئی اور مسلم لیگ نون سے لوگ توڑ کر مسلم لیگ (ق) بنائی گئی تو سب کو پتا تھا کہ کون یہ کارنامہ سر انجام دے رہا ہے، مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہے، پارٹی چھوڑنے والے9 مئی کے واقعات کی مذمت تو کر رہے ہیں اور اسے جواز بنا کر پارٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان بھی کر رہے ہیں لیکن کوئی یہ بتانے کو قطعاً تیار نہیں ہے کہ اس کے پیچھے اُن پرکسی قسم کا زبردست دباؤ بھی ہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اُن لوگوں کو بس وہ تمام شواہد دکھائے گئے ہیں جن میں حساس تنصیبات کو نذر آتش کرنے اور ایک ادارے کو نشانہ بنانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ سب کچھ اسی پلاننگ کے تحت کیا گیا ۔ یہ منصوبہ بندی 9 مئی سے پہلے ہی تیار کر لی گئی تھی اور بس طے کردیا گیا تھا کہ جس دن خان کو کبھی گرفتار کیا جائے پارٹی کے کچھ ذمے داران ورکروں کو فوری طور پر ورغلا کر اور اکسا کر کے حساس تنصیبات پر حملے کے لیے نکل پڑیں گے۔ یہ کام فوری طور پر بھرپور منظم طریقے سے کیا گیا۔ دو گھنٹوں میں لوگ جناح ہاؤس اور جی ایچ کیو بھی پہنچ چکے تھے۔
کسی سیاسی لیڈرکی گرفتاری پر ایسا سخت رد عمل پہلی بار دیکھا گیا ہے۔ ماضی میں ہمارے یہاں بہت سے اہم سیاسی رہنما گرفتار بھی ہوئے اور جیل بھی گئے،کبھی کسی جرم اور الزام کے تحت اور کبھی بلا کسی جرم اور ناکردہ گناہ کی پاداش میں مگر ایسا ردعمل کبھی ظاہر نہیں کیا گیا۔PTI والے اپنے اس بھیانک رد عمل کی صفائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ردعمل کا ذکر کرتے ہیں لیکن ہم سب کو معلوم ہے کہ وہ ردعمل اُن کی گرفتاری پر نہیں تھا بلکہ ناگہانی شہادت پر تھا۔
پیپلز پارٹی والے چاہتے تو اس دن وہ بھی حساس مقامات پر پہنچ جاتے حالانکہ اس وقت حکومت بھی ایک غیر جمہوری جنرل کی تھی، مگر کسی نے ایسا کرنے کو سوچا بھی نہیں تھا۔ بلکہ محترم آصف علی زرداری نے تو اپنے کارکنوں کو اپنے مثبت بیانوں سے ٹھنڈا کیا اور پاکستان نہ کھپے کے نعرے کے جواب میں پاکستان کھپے کا نعرہ دیا۔
پاکستان تحریک انصاف والے میاں نواز محمد شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانوں کو بھی اپنی صفائی کے طور پر استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ درست ہے انھوں نے ایسے بیانات ضرور دیے لیکن کسی نے اپنے کارکنوں کو حساس تنصیبات پر چڑھائی کے لیے استعمال نہیں کیا۔ خان صاحب کا جرم تو اس سے کہیں زیادہ بڑا اور بھیانک ہے۔ انھوں نے وہ کام کیا ہے جو ہم اپنے دشمن ملک بھارت سے توقع کرتے ہیں۔
ملکی سلامتی کے مراکز پر حملے دشمن ممالک کی فوجیں کیا کرتی ہیں ، اپنے ہی ملک کے باشندے نہیں کیا کرتے ہیں۔ نومبر 2022 سے پہلے تک خان صاحب اپنے ان ارادوں پر عمل درآمد میں کچھ تامل سے کام لے رہے تھے لگتا ہے انھیں کچھ اُمید تھی کہ شاید ان کے حامی لوگ اعلیٰ عہدوں پر آ جائیں گے، وہ اس غرض سے بہت کوششیں بھی کرتے رہے اور آخر دم تک روڑے بھی اٹکاتے رہے ، مگر اس میں ناکامی کے بعد وہ کھل کر ملک اور اداروں کے خلاف بر سرپیکار ہوگئے۔
وہ ایک طرف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے اپنے گھناؤنے منصوبے پر عمل کرتے رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی ملک میں استحکام پیدا کرنے نہیں دیا۔ انھیں پتا تھا کہ اس طرح وہ ملک میں معاشی عدم استحکام کے تسلسل کو بھی برقرار رکھ سکیں گے۔ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا، پھر سڑکوں کی سیاست کرنا ، جلوس اور لانگ مارچ کا سوانگ رچانا اور ضمنی انتخابات میں تمام نشستوں سے صرف اپنے آپ ہی کو اُمیدوار بنانا دراصل سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے اپنے ناپاک عزائم پر عمل پیرا ہونے کی ایک کوشش تھی۔
پنجاب اورKPK کی اسمبلیاں بھی اسی مقصد سے توڑی گئیں۔ ملک میں افراتفری کا ماحول برقرار رکھنے اورکسی کو بھی چین سے نہ بیٹھنے دینے کی ایسی نا مناسب سیاست اس قوم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
حکومت اگر دوصوبوں میں نئے الیکشن کروا بھی دیتی تو یہ اس الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکارکر کے فساد اور انتشار کی سیاست کو طول دیتے رہتے۔ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک وزیراعظم کی سیٹ پر دوبارہ براجمان نہیں ہوجاتے۔ وہ جب سے اس ملک کی سیاست میں سرگرم ہوئے ہیں قوم کو اپنے اردگرد ہی گھما کے رکھ دیا ہے۔ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میڈیا ہر وقت انھی کے ترانے گاتا رہے، وہ جو کہیں اُسے سچ اور حقیقت مان کرواہ واہ کرتا رہے۔
قوم کے ذہنوں میں صرف عمران خان کی شخصیت کے ایسے نقوش ثبت ہوجائیں کہ کسی اورکی تصویر وہاں اثر پیدا ہی نہ کرسکے۔ انھیں دوتہائی اکثریت دلاکے انھیں دس بیس سالوں کے لیے ایک مکمل ڈکٹیٹر اور مطلق العنان حکمراں بنا دے، وہ نہیںتو پھر کوئی نہیں۔ اس منصوبے پر وہ ابھی بھی عمل پیرا ہیں۔
فی الحال وہ کچھ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن ارادے ابھی بھی خطرناک ہیں، وہ اس ملک کو نفرت اور انتشار کی آگ میں جلا کر بھسم کردینا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ نفرت کی آندھیاں جب چلا کرتی ہیں ، تو چراغوں سے اُن کا تعارف نہیں پوچھا کرتی ہیں۔
خان صاحب اور اُن کے باقی ماندہ کچھ ساتھیوں کی طرف سے ابھی تک یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ وہی قوتیں کروا رہی ہیں جو پہلے بھی یہی کام پس پردہ رہ کر کرتی رہی ہیں، مگر جتنے لوگوں نے بھی ابھی تک پارٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
اُن میں بہت سے تو ابھی تک گرفتار بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ اُن پر کسی نادیدہ دباؤ کے شواہد دکھائی دے رہے ہیں اور جو گرفتار بھی ہوئے ہیں انھوں نے بھی اپنے اوپر کسی جسمانی تشدد یا کسی خفیہ دباؤ کے بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتایا۔ ماضی میں اگر اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کے لوگ اپنی قیادت کے فیصلوں یا خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے کبھی علیحدہ ہوئے تو اس کے پیچھے غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ کی کہانی سنائی جاتی تھی۔
2002میں جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کو توڑ کر پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین بنائی گئی اور مسلم لیگ نون سے لوگ توڑ کر مسلم لیگ (ق) بنائی گئی تو سب کو پتا تھا کہ کون یہ کارنامہ سر انجام دے رہا ہے، مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہے، پارٹی چھوڑنے والے9 مئی کے واقعات کی مذمت تو کر رہے ہیں اور اسے جواز بنا کر پارٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان بھی کر رہے ہیں لیکن کوئی یہ بتانے کو قطعاً تیار نہیں ہے کہ اس کے پیچھے اُن پرکسی قسم کا زبردست دباؤ بھی ہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اُن لوگوں کو بس وہ تمام شواہد دکھائے گئے ہیں جن میں حساس تنصیبات کو نذر آتش کرنے اور ایک ادارے کو نشانہ بنانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ سب کچھ اسی پلاننگ کے تحت کیا گیا ۔ یہ منصوبہ بندی 9 مئی سے پہلے ہی تیار کر لی گئی تھی اور بس طے کردیا گیا تھا کہ جس دن خان کو کبھی گرفتار کیا جائے پارٹی کے کچھ ذمے داران ورکروں کو فوری طور پر ورغلا کر اور اکسا کر کے حساس تنصیبات پر حملے کے لیے نکل پڑیں گے۔ یہ کام فوری طور پر بھرپور منظم طریقے سے کیا گیا۔ دو گھنٹوں میں لوگ جناح ہاؤس اور جی ایچ کیو بھی پہنچ چکے تھے۔
کسی سیاسی لیڈرکی گرفتاری پر ایسا سخت رد عمل پہلی بار دیکھا گیا ہے۔ ماضی میں ہمارے یہاں بہت سے اہم سیاسی رہنما گرفتار بھی ہوئے اور جیل بھی گئے،کبھی کسی جرم اور الزام کے تحت اور کبھی بلا کسی جرم اور ناکردہ گناہ کی پاداش میں مگر ایسا ردعمل کبھی ظاہر نہیں کیا گیا۔PTI والے اپنے اس بھیانک رد عمل کی صفائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ردعمل کا ذکر کرتے ہیں لیکن ہم سب کو معلوم ہے کہ وہ ردعمل اُن کی گرفتاری پر نہیں تھا بلکہ ناگہانی شہادت پر تھا۔
پیپلز پارٹی والے چاہتے تو اس دن وہ بھی حساس مقامات پر پہنچ جاتے حالانکہ اس وقت حکومت بھی ایک غیر جمہوری جنرل کی تھی، مگر کسی نے ایسا کرنے کو سوچا بھی نہیں تھا۔ بلکہ محترم آصف علی زرداری نے تو اپنے کارکنوں کو اپنے مثبت بیانوں سے ٹھنڈا کیا اور پاکستان نہ کھپے کے نعرے کے جواب میں پاکستان کھپے کا نعرہ دیا۔
پاکستان تحریک انصاف والے میاں نواز محمد شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانوں کو بھی اپنی صفائی کے طور پر استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ درست ہے انھوں نے ایسے بیانات ضرور دیے لیکن کسی نے اپنے کارکنوں کو حساس تنصیبات پر چڑھائی کے لیے استعمال نہیں کیا۔ خان صاحب کا جرم تو اس سے کہیں زیادہ بڑا اور بھیانک ہے۔ انھوں نے وہ کام کیا ہے جو ہم اپنے دشمن ملک بھارت سے توقع کرتے ہیں۔
ملکی سلامتی کے مراکز پر حملے دشمن ممالک کی فوجیں کیا کرتی ہیں ، اپنے ہی ملک کے باشندے نہیں کیا کرتے ہیں۔ نومبر 2022 سے پہلے تک خان صاحب اپنے ان ارادوں پر عمل درآمد میں کچھ تامل سے کام لے رہے تھے لگتا ہے انھیں کچھ اُمید تھی کہ شاید ان کے حامی لوگ اعلیٰ عہدوں پر آ جائیں گے، وہ اس غرض سے بہت کوششیں بھی کرتے رہے اور آخر دم تک روڑے بھی اٹکاتے رہے ، مگر اس میں ناکامی کے بعد وہ کھل کر ملک اور اداروں کے خلاف بر سرپیکار ہوگئے۔
وہ ایک طرف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے اپنے گھناؤنے منصوبے پر عمل کرتے رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی ملک میں استحکام پیدا کرنے نہیں دیا۔ انھیں پتا تھا کہ اس طرح وہ ملک میں معاشی عدم استحکام کے تسلسل کو بھی برقرار رکھ سکیں گے۔ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا، پھر سڑکوں کی سیاست کرنا ، جلوس اور لانگ مارچ کا سوانگ رچانا اور ضمنی انتخابات میں تمام نشستوں سے صرف اپنے آپ ہی کو اُمیدوار بنانا دراصل سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے اپنے ناپاک عزائم پر عمل پیرا ہونے کی ایک کوشش تھی۔
پنجاب اورKPK کی اسمبلیاں بھی اسی مقصد سے توڑی گئیں۔ ملک میں افراتفری کا ماحول برقرار رکھنے اورکسی کو بھی چین سے نہ بیٹھنے دینے کی ایسی نا مناسب سیاست اس قوم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
حکومت اگر دوصوبوں میں نئے الیکشن کروا بھی دیتی تو یہ اس الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکارکر کے فساد اور انتشار کی سیاست کو طول دیتے رہتے۔ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک وزیراعظم کی سیٹ پر دوبارہ براجمان نہیں ہوجاتے۔ وہ جب سے اس ملک کی سیاست میں سرگرم ہوئے ہیں قوم کو اپنے اردگرد ہی گھما کے رکھ دیا ہے۔ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میڈیا ہر وقت انھی کے ترانے گاتا رہے، وہ جو کہیں اُسے سچ اور حقیقت مان کرواہ واہ کرتا رہے۔
قوم کے ذہنوں میں صرف عمران خان کی شخصیت کے ایسے نقوش ثبت ہوجائیں کہ کسی اورکی تصویر وہاں اثر پیدا ہی نہ کرسکے۔ انھیں دوتہائی اکثریت دلاکے انھیں دس بیس سالوں کے لیے ایک مکمل ڈکٹیٹر اور مطلق العنان حکمراں بنا دے، وہ نہیںتو پھر کوئی نہیں۔ اس منصوبے پر وہ ابھی بھی عمل پیرا ہیں۔
فی الحال وہ کچھ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن ارادے ابھی بھی خطرناک ہیں، وہ اس ملک کو نفرت اور انتشار کی آگ میں جلا کر بھسم کردینا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ نفرت کی آندھیاں جب چلا کرتی ہیں ، تو چراغوں سے اُن کا تعارف نہیں پوچھا کرتی ہیں۔