معاشی بحالی کیلیے طویل المدتی پالیسی بنانا ناگزیر
ایکسپورٹ، ترسیلات زر اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ میں اضافے کے اقدامات ناگزیر قرار
ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ٹیکس سسٹم میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے.
حکومت کو اپنی آمدنی کیلیے صرف تین مدات انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی پر فوکس کرنا چاہیے اور اس کو اگلے پانچ سے دس سال تک کیلیے فکس کردینا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق بجٹ کو بیلنس کرنے کیلیے حکومت کو اپنے اخراجات لازمی کم کرنا ہوں گے، تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلیے ایکسپورٹ، ترسیلات زر اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ میں اضافہ ناگزیر ہے، حکومتی سائز میں کمی کرنا ہوگی اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کیلیے زیادہ آزادی فراہم کرنا ہوگی، امپورٹس پر ٹیکسز کم کرنے ہوں گے، سرکاری اداروں اور غیر استعمال شدہ زمینوں کی نجکاری کرنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت کو بلند مہنگائی اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے دباؤ کا سامنا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
رپورٹ میں ریفارم اینڈ ریسورس موبیلائیزیشن کمیشن کی پیش کردہ تجاویز پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت اپنے قلیل المدتی فائدے کے علاوہ کچھ نہیں سوچ رہی، کمیشن کی دی گئی چھہ میں سے تین تجاویز میں ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی سفارش کی گئی ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس کاروباری افراد پر مزید بوجھ لادتے ہیں، اور ٹیکسس سسٹم کو کمپلیکس کردیتے ہیں، ٹیکسوں کی پیچیدگی پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ود ہولڈنگ ٹیکس ورکینگ کیپیٹل کو ختم کردیتے ہیں اور کاروباری اداروں کی ترقی کی صلاحیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، کمپنیز کے لانگ ٹرم ریزرو پر ایڈوانس ٹیکس بھی ایک پریشان کن خیال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیشنلائزیشن کی سوچ معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس ریونیو میں کمی معیشت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی بدانتظامی کا مسئلہ ہے، اس طرح کی تجاویز زیادہ سے زیادہ ایک سال تک کام کریں گے، کیوں کہ اس کے بعد زیادہ تر کاروباری ادارے اپنے ٹیکس بوجھ کو کم کرنے کیلیے گرے مارکیٹ اور بلیک مارکیٹ کا سہارا لے چکے ہوں گے، اس طرح صرف ٹیکس گزاروں کا حکومت پر اعتماد کم ہوگا۔
حکومت کو اپنی آمدنی کیلیے صرف تین مدات انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی پر فوکس کرنا چاہیے اور اس کو اگلے پانچ سے دس سال تک کیلیے فکس کردینا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق بجٹ کو بیلنس کرنے کیلیے حکومت کو اپنے اخراجات لازمی کم کرنا ہوں گے، تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلیے ایکسپورٹ، ترسیلات زر اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ میں اضافہ ناگزیر ہے، حکومتی سائز میں کمی کرنا ہوگی اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کیلیے زیادہ آزادی فراہم کرنا ہوگی، امپورٹس پر ٹیکسز کم کرنے ہوں گے، سرکاری اداروں اور غیر استعمال شدہ زمینوں کی نجکاری کرنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت کو بلند مہنگائی اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے دباؤ کا سامنا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
رپورٹ میں ریفارم اینڈ ریسورس موبیلائیزیشن کمیشن کی پیش کردہ تجاویز پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت اپنے قلیل المدتی فائدے کے علاوہ کچھ نہیں سوچ رہی، کمیشن کی دی گئی چھہ میں سے تین تجاویز میں ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی سفارش کی گئی ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس کاروباری افراد پر مزید بوجھ لادتے ہیں، اور ٹیکسس سسٹم کو کمپلیکس کردیتے ہیں، ٹیکسوں کی پیچیدگی پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ود ہولڈنگ ٹیکس ورکینگ کیپیٹل کو ختم کردیتے ہیں اور کاروباری اداروں کی ترقی کی صلاحیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، کمپنیز کے لانگ ٹرم ریزرو پر ایڈوانس ٹیکس بھی ایک پریشان کن خیال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیشنلائزیشن کی سوچ معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس ریونیو میں کمی معیشت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی بدانتظامی کا مسئلہ ہے، اس طرح کی تجاویز زیادہ سے زیادہ ایک سال تک کام کریں گے، کیوں کہ اس کے بعد زیادہ تر کاروباری ادارے اپنے ٹیکس بوجھ کو کم کرنے کیلیے گرے مارکیٹ اور بلیک مارکیٹ کا سہارا لے چکے ہوں گے، اس طرح صرف ٹیکس گزاروں کا حکومت پر اعتماد کم ہوگا۔