سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون بن گیا

ایکٹ کے تحت 184(3) کے فیصلے کے خلاف 60 روز کے اندر اپیل دائر کی جاسکے گی

(فوٹو فائل)

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹس آرڈر ایکٹ 2023ء پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون (ایکٹ) بن گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ اٹارنی جنرل پاکستان نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ 2023ء کی کاپی اور نوٹی فکیشن سپریم کورٹ جمع کروا دیا۔ یہ قانون جمعہ سے نافذ ہوگا۔

آرٹیکل 184 کے تحت مقدمات کی نظرثانی درخواستوں میں سپریم کورٹ اپیل کی طرز سماعت کرے گی۔

اس نئے قانون کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین 60 دن کے اندر اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرسکیں گے۔ ایکٹ کے تحت 184(3) کے فیصلے کے خلاف 60 روز کے اندر اپیل دائر کی جاسکے گی۔

ایکٹ کا دائر کارہ اس قانون کے بننے سے پہلے کے فیصلوں پر بھی ہوگا، ایکٹ کا دائر کار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے اور رولز پر بھی ہوگا۔ ایکٹ نافذ ہونے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی ایکٹ سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔

ایکٹ کے تحت نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، لارجر بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز سے زیادہ ہوگی۔ فیصلہ دینے والے جج نظر ثانی بنچ کا حصہ نہیں ہوں گے۔




سپریم کورٹ (ریویو آف جج منٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023ء بل، 14 اپریل کو قومی اسمبلی اور 5 مئی کو سینیٹ سے منظور ہوا۔ سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی اور احکامات ایکٹ 2023ء رکن اسمبلی شزا فاطمہ نے بطور نجی بل پیش کیا تھا جس پر آج صدر مملکت نے آج حیران کن طور پر دستخط کیے۔

اس نئے ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس فیصلوں پر بھی اپیل دائر کی جا سکے گی، نظر ثانی اپیل میں فریق کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔


سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی اور احکامات ایکٹ 2023ء ماضی میں 184/3 کے فیصلوں پر بھی ہوگا۔



دریں اثنا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی و احکامات ایکٹ 2023ء کا گزٹڈ نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ نظرثانی اور احکامات ایکٹ کا گزٹڈ نوٹی فکیشن سیکریٹری قومی اسمبلی محمد قاسم سمد خان نے جاری کیا۔


دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکا کہناہےکہ سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کے نئے قانون کا نواز شریف کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا،نواز شریف کے کیس سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ قانون کسی ایک شخص کے لیے نہیں ہے،نواز شریف کے کیس سے اس کا تعلق نہیں،ان کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فائدہ نواز شریف کو ہو گا البتہ اس پر سپریم کورٹ نے حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔


واضح رہے کہ سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 بل 14اپریل کو قومی اسمبلی جبکہ 5مئی کو سینٹ سے منظور ہوا۔ سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی اور احکامات ایکٹ 2023 رکن اسمبلی شزا فاطمہ نے بطور نجی بل پیش کیا تھا۔ صدر مملکت نے حیران کن طور پر بل پر دستخط کیے،ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس فیصلوں پر اپیل دائر کی جا سکے گی نظر ثانی اپیل میں فریق کو میں اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔


فیصلے کیخلاف اپیل بل منظوری کے 60 دن کے اندر کی جا سکے گی۔ نظرثانی بینچ میں ججز کی تعداد فیصلہ دینے والے بینچ میں موجود ججز سے زیادہ ہوگی۔فیصلے کیخلاف اپیل کیلئے قائم نظرثانی بنچ فیصلہ دینے والے بنچ سے بڑا ہوگا۔فیصلہ دینے والے جج نظرثانی بنچ کاحصہ نہیں ہونگے۔


سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی اور احکامات ایکٹ 2023 ماضی میں 184/3کے فیصلوں پر بھی ہوگا۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی و احکامات ایکٹ 2023 کا گزٹڈ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔سپریم کورٹ نظرثانی اور احکامات ایکٹ کا گزٹڈ نوٹیفکیشن سیکرٹری قومی اسمبلی محمد قاسم سمد خان نے جاری کیا۔
Load Next Story