تحریک انصاف قومی کی تیاری …
اب ایک اور ق لیگ تیار ہو رہی ہے، جہانگیر ترین اور اس کا جہاز اب ایک بار پھر محو پرواز ہے
گزشتہ دنوں پشاور سے پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی حاجی شوکت علی کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کے اعلان کے وقت مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی بلکہ سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی پر رونا آیا۔ شوکت علی پہلی بار 2001 میں جنرل مشرف کے متعارف کردہ بلدایاتی نظام کی بدولت منظر عام پر آئے۔
پشاور کے ایک کاروباری خاندان سے ان کا تعلق تھا، عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہو کر شہید ہارون بلور کی انگلی پکڑ کر ٹاؤن ون جو پشاور کا شہری علاقہ ہے کے نائب ناظم بنے۔ ہارون بلور ان کے ناظم تھے۔ جب یہ مدت پوری ہوئی تو انھوں نے نہ صرف اے این پی سے چھلانگ لگا کر پیپلز پارٹی کی مچان پر بسیرا کر لیا بلکہ موجودہ گورنر حاجی غلام علی کے ساتھ مل کر اپنے پرانے باس ہارون بلور کی شکست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
غلام علی ضلعی نظامت کے امیدوار تھے اور ہارون بلور ان کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے اگرچہ عددی برتری ہارون بلور اور ان کے اتحادیوں کو حاصل تھی لیکن غلام علی نے نتیجہ بدل کر دکھایا اور ناظم بنے جس میں شوکت علی کا ایک اہم کردار تھا۔ جب 2013 میں تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں حکومت قائم ہوئی تو موصوف بھی اسی کو پیارے ہو گئے۔
پرویز خٹک کے ساتھ تعلق کی وجہ سے پارٹی میں نووارد حاجی شوکت علی کو نئے قائم کیے جانے والے ادارے ڈبلیو ایس ایس پی جو شہری سہولیات فراہم کرنے کا ادارہ تھا کا سربراہ بنا دیا۔ جس میں حاجی شوکت نے خوب لوگوں کو بھرتی کیا۔
ڈبلیو ایس ایس پی کی سربراہی نے ہی حاجی شوکت کے 2018 کے انتخابات میں پشاور سے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار کی اور تھوک کے حساب سے بھرتیاں کیں۔ حاجی غلام احمد بلور کو شکست دے کر قومی اسمبلی تک پہنچے لیکن ڈبلیو ایس ایس پی کی سربراہی نہیں چھوڑی۔ پھر انھیں پارلیمانی سیکریٹری داخلہ لگا دیا گیا۔
پولیس بھی حاجی شوکت کے کنٹرول میں آ گئی حالانکہ ارباب خاندان کے کئی چشم و چراغ بھی اسمبلی میں موجود تھے لیکن انھیں آگے آنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ خصوصی مہربانی شوکت کے نصیب میں آئی۔ لیکن جب پارٹی پر برا وقت آیا تو حاجی شوکت ہی پشاور سے پارٹی چھوڑنے والے فرد بن گئے اسی لیے سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی پر رونا آیا۔ شوکت 10 سال پی ٹی آئی کی حکومت سے جڑے رہے اور مزے اٹھاتے رہے لیکن اچانک اب ان کی حب الوطنی جاگ اٹھی ہے۔ یہی سب جماعتوں کا دستور ہے۔
کارکن جان مارتے جاتے ہیں اور نظرانداز بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اب دیکھیئے اتنی بڑی پارٹی اور اس کی اتنی بڑی بڑی بڑھکیں مارتے لیڈر صرف اور صرف 24 گھنٹے کی حوالات میں ہی ڈھیر ہو گئے اور کارکنوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ڈٹے رہیں گے۔ کتنا عجیب ہے کہ 24 گھنٹے قبل ایک لیڈر اپنے قائد کے لیے سر کٹانے کی بات کرتا ہے اور 24 گھنٹے بعد وہی لیڈر برا بھلا کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کے بعد اعلان دستبرداری کر لیتا ہے۔
عمران خان نے اسے جبری علیحدگی قرار دیا لیکن جبری علیحدگی میں بھی عدت کا خیال رکھا جاتا ہے یہاں پر عدت بھی پوری کرنے نہیں دی جا رہی۔ جب اے ٹی ایمز ایک رشتہ دار اور دوسری پارٹی حکومتی عہدیدار ہوں گے تو اسی طرح جبری علیحدگی ہو گی کیونکہ اگر یہ لوگ دل سے پارٹی کے ساتھ ہوتے اور کسی نیک مقصد کے لیے تو پھر جبری علیحدگی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاسی کارکنوں، رہنماوں اور قائدین پر کی جانے والی سختیوں سے بھری پڑے ہے چاہے وہ باچا خان ہو، بھٹو ہو، ولی خان ہو، بے نظیر ہو، صدر زرداری اور میاں نواز شریف اس کی بہترین مثال ہے۔
بغاوت کے مقدمے بھی نئے نہیں خود یہی لوگ جن کو آج ان کے اعمال کی وجہ سے غداری کے القابات کا سامنا ہے۔ اپنے کئی سیاسی مخالفین کو غدار قرار دے کر ان کا جینا حرام کر چکے ہیں۔ ریاست سے وفاداری شرط اولین ہے اور اگر یہی مشکوک ہو جائے تو ریاست کی جانب سے حاصل حقوق بھی اس کے ساتھ سلب ہو جاتے ہیں۔ جس طرح پی ٹی آئی سے جانے والوں کا ایک سلسلہ شروع ہے اس سے تو لگتا ہے کہ یہ پارٹی سے زیادہ کلب تھا صرف ایک غلطی کی وجہ سے پی ٹی آئی اب اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے بھی مظاہرہ نہیں کر سکتی۔
پروپیگنڈے، گالم گلوچ کا سلسلہ سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ کم ہو چکا ہے۔ اب پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی احساس ہو گیا ہو گا کہ جن یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور خود ساختہ انفلوئینسرز کے بل بوتے پر انھوں نے اتنی متشددانہ پالیسی تیار کی اب وہی ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کچھ اور بیچ رہے ہیں کیونکہ مارکیٹ کی طلب بدل گئی ہے اب ٹک ٹاکرز پی ٹی آئی پی ٹی آئی اور ان کے قائدین کے اوپر ٹک ٹاک بنا کر پیسے کما رہے ہیں۔
جس سوشل میڈیائی فوج کی دھمکی دی جا رہی تھی وہ صرف اور صرف ایک کاروباری پارٹنر نکلا جس نے اپنی کمائی کے لیے پی ٹی آئی کا میدان استعمال کیا اور اب وہ مشہور بھی ہیں اور معروف بھی۔ اسی لیے کبھی پولیس سائرن والی ٹک ٹاک مشہور ہوتی اور کبھی دھمکیاں دینے کے بعد گیٹ بند ہونے والی۔ غرض جو سماں 9 مئی سے پہلے تھا اب بالکل بدل گیا ہے۔
2013 کے انتخابات میں جس طرح پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں کامیابی دلوائی گئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی دہشت گردوں کے نشانہ پر تھے اور پی ٹی آئی آزادنہ انتخابی ماحول کا فائدہ اٹھا رہی تھی۔ غلام احمد بلور اپنے شہر میں بڑا جلسہ کرنے سے گھبراتے تھے لیکن اس کے مقابل امیدوار عمران خان شہر کی گلیوں میں گھوم رہے تھے اس وقت سیکیورٹی اداروں کے گن گائے جاتے تھے۔ لیکن جیسے ہی اقتدار ختم ہوا تو یارانہ دشمنی میں بدل گیا۔
پروپیگنڈے، الزامات، جعلی خبروں کا جو سلسلہ شروع کیا گیا اس طرح تو اقتدار سے محروم ہونے والی جماعتوں نے ماضی میں نہیں کیا۔ اب ایک اور ق لیگ تیار ہو رہی ہے۔ جہانگیر ترین اور اس کا جہاز اب ایک بار پھر محو پرواز ہے۔ شاید کچھ دنوں میں تحریک انصاف (قومی) کا ظہور بھی ہو جائے۔