مسلمانوں کے زوال کا سفر

مسلمان جیسے جیسے علم و ہنر سے دور ہوتے گئے ’زوال‘ ان کے اندر سماتا گیا

مسلمانوں نے علم سے دوری اختیار کرنا شروع کی تو ’زوال‘ کی ابتدا شروع ہوگئی۔ (فوٹو: فائل)

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو جن ریاستوں نے طاقت کی بنیاد پر کامیابیاں سمیٹیں وہ جز وقتی تھیں، اس کے برعکس جن قوموں نے 'علم و ہنر' کی بنیاد پر ترقیاں کیں، انھوں نے ایک طویل عرصے دنیا میں حکمرانی کی۔


معلوم تاریخ کے مطابق 'تاتاریوں' نے اگرچہ طاقت کے بل بوتے پر کامیابیاں سمیٹیں، لیکن بہت جلد سمندر میں جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک چلنے کے بعد جو علمی کامیابیاں یورپ نے سمیٹیں اس کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ مسلمانوں نے اپنے دور میں جو کامیابیاں سمیٹیں وہ بھی ایک مثال تھی۔


'بغداد' علم و ہنر کا گہوارا تھا۔ یہاں دوسرے ملکوں سے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ ماہر اساتذہ کے ساتھ عظیم الشان 'کتب خانے' موجود تھے۔ ان کتب خانوں میں دنیا بھر کی تہذیبوں کی تاریخ، علوم و فنون کا ایک سمندر موجود تھا۔ ساتھ ہی ان علوم کے ماہرین بھی موجود تھے۔ آپ ذرا سوچیے کہ وہ دور کتنا حسین ہوگا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عہدِ عباسیہ میں ہر علاقے میں ایک 'کتب خانہ' موجود ہوتا تھا۔ ان کتب خانوں میں ایک عظیم کتب خانہ 'بیت الحکمت بغداد' بھی تھا۔ مؤرخین کے مطابق اس کتب خانے کی بنیاد خلیفہ ہارون الرشید نے ڈالی تھی۔ یہ کتب خانہ دو حصوں میں منقسم تھا، ایک کتب خانہ کےلیے خاص تھا جب کہ دوسرا غیر عربی زبانوں کے ترجمے کےلیے۔


علامہ شبلی نعمانی رسائلِ شبلی میں لکھتے ہیں: ''اس عظیم الشان کتب خانہ میں عربی زبان کے علاوہ ہندی، فارسی، یونانی، قبطی اور کالڈی زبانوں کی بے شمار کتابیں مہیا کی گئی تھیں۔''


ترقی و کامرانی کا راز (قرآنِ مجید):


ان تمام تر ترقی و کامرانی، جس میں 'کتب خانے'، مختلف علوم و فنون میں دسترس اور آگے بڑھنے کا ایک ہی راز تھا، وہ تھا قرآنِ مجید کی اصل تعلیمات پر عمل کرنا۔ مسلمان حاملینِ قرآن تھے، انھوں نے اس کا حق ادا کیا۔ قرآن کی تعلیمات میں جو گوہرِ نایاب تھے، وہ سب مسلمانوں نے نکالے، کائنات کو مسخر کیا۔ یعنی قرآن ان کی عملی زندگی میں شامل تھا۔ قرآن ہی نے 'علم' کو فوقیت دی اور ان ہی کے درجات کو بلند کیا جو 'علم ' رکھتے تھے (المجادلہ: ۱۱)۔ اس علم کی وجہ سے ہی 'مدارس'، 'کتب خانے' اور 'تحقیقی شعبہ جات' سب وجود میں آئے۔


زوال کا سفر:


پھر یہ ہوا کہ مسلمانوں نے 'قرآن' سے دوری اور علم سے دوری اختیار کرنا شروع کی تو 'زوال' کی ابتدا شروع ہوگئی۔ مسلمان جیسے جیسے علم و ہنر سے دور ہوتے گئے 'زوال' ان کے اندر سماتا گیا، یہاں تک کہ آج کی مسلم دنیا علم و ہنر کے معاملے میں یورپ سے کم ازکم ' سو سال' پیچھے ہوگئی ہے۔ زوال کا یہ سفر ابھی مزید جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ زوال آیا کیوں؟ آئیے چند وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔


قرآن مجید کی عملی حیثیت کا خاتمہ:


حیرت ہوتی ہے جو قوم 'حاملینِ قرآن' ہو، وہ کیسے دنیا میں پیچھے رہ سکتی ہے۔ پتہ یہ چلا کہ اس قوم نے حقیقی طور پر قرآنِ مجید کو چھوڑ دیا۔ یعنی قرآن سے جو گوہرِ نایاب نکالے جاتے تھے، اب صرف قرآن کو 'سمجھے بغیر' پڑھ کر صرف ثواب سمجھا جاتا ہے۔
یعنی قرآن نے یہ کہا کہ 'غورو فکر کرو' (البقرۃ: ۲۱۹) لیکن ہم نے صرفِ نظر کیا۔ قرآن نے 'اس کائنات کو مسخر کرنے کا کہا' (النحل: ۱۲) لیکن ہم نے صرفِ نظر کیا۔ قرآن نے 'عقل استعمال کرنے کا کہا' (یوسف: ۲) لیکن ہم نے صرفِ نظر کیا۔ قرآن نے زمین و آسمان کی گردش، دن اور رات کا آنا جانا بتاکر کہا کہ یہ نشانیاں 'اہلِ عقل' کےلیے ہیں' (آلِ عمران: ۱۹۰) لیکن ہم نے صرفِ نظر کیا۔ جب ایک ایک ہدایت کو صرفِ نظر کرتے گئے تو پھر کس بات کی امید لگائی جائے۔ یعنی ہم نے قرآن کو صرف اس لیے محفوظ کیا تھا اور کیا ہوا ہے کہ 'اتنی مرتبہ پڑھنے سے اتنا ثواب ملتا ہے، مردے کی بخشش کےلیے قرآن پڑھا جائے' وغیرہ وغیرہ۔ مسلمان قرآن کی اصل روح سے بہت دور ہوتے چلے گئے۔


تاتاریوں کی یلغار:


جتنی محنت اور جانفشانی سے 'عہدِ عباسیہ میں علم و ہنر کےلیے کارہائے سرانجام دیے گئے، جس طرح سے لوگوں میں کتب بینی کا شوق پیدا ہوا، جس طرح سے لوگوں نے علوم و فنون میں کمال حاصل کیا، جس طرح حاکمِ وقت (مامون) نے 'علم دوستی' کا عَلَم اٹھایا، بعد میں یہ سب تتر بتر ہوگیا۔ بادشاہوں کی تبدیلی کے ساتھ جو لڑائیاں ہوئیں، قوم سنبھل نہیں پائی۔ مؤرخ شاہ معین الدین احمد ندوی نے لکھا ہے کہ خلیفہ مستعصم کے وزیر نے تاتاریوں سے گٹھ جوڑ رکھا ہوا تھا، اس نے علوی حکومت قائم کرنے کےلیے بغداد پر حملے کےلیے تاتاریوں کو دعوت دی اس حملے کے بعد عورتوں اور بچوں نے نکلنا چاہا لیکن تاتاریوں نے ان کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔ آبادی ختم کرکے چالیس دن تک نہایت بے دردری سے بغداد لوٹتے رہے۔ کتب خانوں کو جلادیا گیا، دجلہ و فرات سیاہی سے کالے ہوگئے۔ علم سمٹنا شروع ہوگیا۔ لائبریریاں جو علم کی بنیاد ہیں، آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوگئیں، یہاں تک کہ 'بیت الحکمت' جیسا ایک بھی ایسا کتب خانہ نہیں تھا جہاں بیک وقت تراجم، تحقیقات، تصنیفات و تالیفات ہوں۔


اقتدار کا حصول:



اقتدار کا نشہ تمام چیزوں سے اوپر ہوتا ہے، مسلمانوں نے اسی اقتدار کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ امویوں کو عباسیوں نے، عباسیوں کو 'ترکوں' نے، ترکوں کو ان کے اپنے کرتوتوں نے زیر کیا۔ ہندوستان میں مغلوں کی آپس میں 'اقتدار' کےلیے لڑائیوں نے مغل دور کا خاتمہ کردیا۔ غیروں (گوروں) نے یہاں ٹھاٹھ سے حکومت کی۔ ان تمام حالات میں بھی مسلمانوں نے سبق نہیں سیکھا، یعنی 'تعلیم' کے میدان میں سب سے پیچھے رہے۔ اگرچہ چند مصلحین جن میں سرسید احمد خان سرِفہرست ہیں، انھوں نے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں اپنا مقام واپس دلوانے کےلیے ہر ممکن کوشش کی، لیکن ہمارے مسلمانوں نے ہی اس کو مذہبی رنگ دے دیا کہ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم دلوائی جارہی ہے، انھیں انگریزوں کا غلام بنایا جارہا ہے یا انھیں عیسائی بنایا جارہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
عصرِ حاضر میں بھی مسلمانوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ جو سلسلہ 'بغداد' کی تباہی سے شروع ہوا، ابھی تک تھما نہیں۔ آج بھی 'علم و ہنر' میں مسلمان غیروں سے پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے ہیں۔ تحقیق کے شعبے صرف اس حد تک ہیں کہ 'فلاں شخصیت نے کیا کارنامہ انجام دیا'، 'فلاں مسلم سائنس دان نے کیا چیز ایجاد کی'، 'کس کتاب کی کتنی شروحات لکھی گئی ہیں'۔ جامعات میں اگر مقالہ جات دیکھے جائیں تو ان میں کوئی ایسا خاص کام نظر نہیں آئے گا سوائے چند ایک کے۔ بحیثیتِ مجموعی تحقیق کے شعبے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔


کتب خانے یہ واضح کرتے ہیں کہ اس شہر، علاقے کے لوگ 'علم' کے کتنے قریب ہیں۔ اگرچہ یہ عہد 'اسمارٹ عہد' ہے، اب کتابیں ایک کلک پر موبائل میں میسر ہوجاتی ہیں، لیکن ابھی بھی تاریخی طور پر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 'کتب خانے' اپنی اُسی پرانی اہمیت کے ساتھ موجود ہیں۔ مسلم دنیا میں اس وقت کوئی 'بیت الحکمت' جیسا کتب خانہ موجود نہیں، جس میں بیک وقت تحقیق، تصنیف، تالیف، تراجم اور رصد گاہیں موجود ہوں۔


ماضی سے کیا سبق سیکھا؟


ہم ابھی تک ماضی سے سبق نہیں سیکھ رہے۔ آج بھی ہم انھی لڑائیوں میں مصروف ہیں جو گزشتہ کئی صدیوں سے جاری ہیں، جیسے مسلکی لڑائیاں، مذہبی لڑائیاں اور اقتدار کا حصول وغیرہ۔ آج بھی ہم اہلِ مغرب کی 'علمی کامیابی' کو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ 'اصل کامیابی تو آخرت کی ہے'۔ ہم غیر مسلموں کو 'جہنمی' کا سرٹیفکیٹ بھی دیتے ہیں، ان کی بنائی ہوئی ایجادات کو اپنے استعمال میں لانے کےلیے 'حیلے' بھی تراش رہے ہیں، لیکن خود کچھ نہیں کر رہے۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔


کیا آج بھی 'بیت الحکمت' جیسا یا اس سے بہتر کوئی 'تعلیم گاہ' تعمیر کرکے زوال سے عروج تک آسکتے ہیں؟ امید اور حوصلہ انسان کو آگے بڑھانے کا موقع دیتی ہے، غلطیاں ہورہی ہیں، لیکن آج بھی ہم پھر دوبارہ اسی مقام پر کھڑے ہوسکتے ہیں، جس کےلیے چند گزارشات عرض ہیں؛


• حاملینِ قرآن بن جائیے، یعنی قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کردیا جائے۔
• تعلیم کو اپنی تمام ترجیحات سے اوپر رکھیے۔
• علمی اختلافات رکھیے، لیکن دشمنی سے بچیے۔
• اقتدار کے حصول کے بجائے قوموں کی اصلاح پر توجہ دیجیے۔
• اپنے اخلاق کو سب سے بلند کیجیے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story