انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر ایسی دونمبری کبھی نہیں دیکھی خواجہ آصف
اس ملک کی تاریخ میں ایسے ایسے چیف جسٹس گزرے ہیں کہ شاید ان کی نسلیں اپنی ولدیت بتاتے ہوئے شرماتی ہوں، قومی اسمبلی خطاب
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کہتے ہیں حکومت یا پارلیمنٹ عدلیہ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، آئین نے پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لیا عدلیہ بھی ہمیں ڈکٹیٹ نہ کرے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ نے آڈیو لیکس پر ایک کمیشن بنایا جس میں سینئر ترین ججز رکھے مگر چیف جسٹس نے اسے کام کرنے سے روک دیا، ہم نے چیف جسٹس کو اس لیے اس میں شامل نہ کیا کیوں کہ آڈیوز میں خود چیف جسٹس کی خوش دامن شامل تھیں، امید تھی کہ چیف جسٹس اس کمیشن سے دور رہیں گے تاکہ انصاف ہوسکے۔ چیف جسٹس کو آڈیو لیکس کمیشن پر قائم بینچ سے علیحدہ ہونا چاہیے۔
آڈیوز حاصل کرنے کیلیے فون ٹیپ کرنے کی ضرورت نہیں
انہوں ںے کہا کہ تاثر ہے کہ فون ٹیپ کرکے یہ آڈیوز حاصل کی گئیں لیکن ایسا نہیں ہے، اب برطانیہ میں بیٹھ کر بھی کسی کا فون ہیک کیا جاسکتا ہے اس کے لیے کسی کا فون ٹیپ کرنے کی ضرورت نہیں۔
جو خود آڈیو لیکس میں ملوث ہے وہ کمیشن کیخلاف درخواست دے رہا ہے
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار کا بیٹا الیکشن کا ٹکٹ دیتے ہوئے کروڑوں کا سودا کرتے ہوئے بے نقاب ہوا اور وہ الیکشن جو ہوئے ہی نہیں پتا نہیں پیسے واپس دیے کہ نہیں، جو خود اس کیس میں ملوث ہے وہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف عدالت کو درخواست دے رہا ہے۔
سپریم کورٹ بل لاکر ون مین شو کا تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم ون مین شو کا تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں سپریم کورٹ پروسیجر بل کو منظور ہونے سے قبل ہی روک دیا گیا، ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ کے ساتھ تصادم نہ ہو اور یہ ایوان عدلیہ کی عزت کرے مگر چیف جسٹس کہتے ہیں کہ حکومت یا پارلیمنٹ عدلیہ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی۔
عدلیہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی
خواجہ آصف نے کہا کہ آئین کے تحت کوئی بھی ادارہ دوسرے ادارے کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا اور وہ عدلیہ پر بھی لاگو ہوتا ہے، عدلیہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ بالادست ہے اس کی کوکھ سے آئین نے جنم لیا ہے، ہمیں کہا گیا کہ ڈکٹیٹ نہ کریں تو عدلیہ بھی دوسرے ادارے کو ڈکٹیٹ نہ کرے۔
انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھ کر ایسی دونمبری کبھی نہیں دیکھی
انہوں ںے کہا کہ آڈیو لیکس کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس کے بعد سب سے سینئر جج کو بنایا لیکن وہ چیف جسٹس کو ناگوار گزار، ماضی میں ہم سیاست دانوں نے بڑی بڑی غلطیاں کیں اپنے معاملات کے لیے اپنی مرضی کا بندہ کہیں بٹھادیں اس قسم کی دو نمبریاں تو کرسکتے ہیں مگر ایسی دو نمبری نہیں دیکھی کہ آپ انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے ہیں اور جس کیس میں آپ ملوث ہیں آپ اسے کیسے سن سکتے ہیں؟ یہ روایات قابل فخر نہیں اس کے لیے بھی ان روایات کا آرکٹیٹ ہوگا اس کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی قابل شرم ہوں گی۔
یہ پڑھیں : عمران خان کی گرفتاری میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، وزیر دفاع
انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک کی تاریخ میں ایسے ایسے چیف جسٹس گزرے ہیں کہ شاید ان کی نسلیں اپنی ولدیت بتاتے ہوئے شرماتی ہیں۔