ڈالر کے اوپن ریٹ 312 روپے کی نئی تاریخی سطح پر پہنچ گئے
انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کا فرق 26.65روپے تک بڑھ گیا ہے
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان جاری ہے اور ہر روز نیا ریکارڈ قائم ہورہا ہے، آج بھی یہ رجحان برقرار رہا اور امریکی کرنسی کی قدر اوپن مارکیٹ میں بڑھ کر 312روپے کی نئی بلند ترین سطح پر آگئی۔
وزیراعظم کے آئی ایم ایف سے رابطے اور 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات میں ڈیڈلاک ختم کرنے کی کوششوں سے منگل کو انٹربینک میں محدود اتارچڑھاؤ کے بعد ڈالر کی پیش قدمی رک گئی مگر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان جاری رہی جس سے ڈالر کے اوپن ریٹ مزید بڑھ کر 312روپے کی نئی بلند ترین سطح پر آگئے۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران آئی ایم ایف کی قرض پروگرام کی بحالی کو فارن کرنسی پالیسی پر تحفظات دور کرنے اور نئے بجٹ اقدامات شئیر کرنے سے مشروط کرنے جیسے عوامل اثر انداز رہے یہی وجہ ہے کہ کاروباری دورانیے میں ڈالر کی قدر میں محدود اتارچڑھاؤ دیکھا گیا۔
کاروبار کے آغاز پر ڈالر 16پیسے گھٹ کر 285.25روپے پر آگیا تھا جس کے بعد ایک موقع پر 39 پیسے کے اضافے سے 285.80روپے کی سطح پر بھی آیا تاہم کاروبار کے اختتام پرانٹربینک ریٹ 6پیسے کی کمی سے 285.35روپے کی سطح پر بند ہوئے۔
اس کے برعکس اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر مزید ایک روپے کے اضافے سے 312روپے کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوا۔ اس طرح سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کا فرق 26.65روپے تک بڑھ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کی قیمت میں اس نمایاں فرق کی وجہ سے بلیک مارکیٹ میں ڈالر کے طلب گاروں کی خریداری سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ بلیک مارکیٹ میں فی ڈالر کی قیمت ریگولر اوپن مارکیٹ ریٹ کی نسبت تقریبا 10روپے زائد ہے جہاں طلب گار اور فروخت کنندگان بغیر کسی دستاویز کے ڈالر کا مبینہ لین دین کررہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جون میں 3.7ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے علاوہ نئے مالی سال میں بھی پاکستان کو مختلف نوعیت کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ اشیائے خورونوش سمیت دیگر لازمی اشیاء کی درآمدات کے لیے بھی 3.5ارب ڈالر درکار ہیں۔ ان زمینی حقائق کے تناظر میں آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کا معاہدہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مالیاتی تعاون کے عندیے دیئے گئے ہیں لیکن تاحال دوست ممالک سے اس ضمن میں کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی وہاں سے رقوم موصول ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ملکی معیشت میں ڈالر کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور روپے کی تسلسل سے تنزلی کا سبب بن گئی ہے۔
وزیراعظم کے آئی ایم ایف سے رابطے اور 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات میں ڈیڈلاک ختم کرنے کی کوششوں سے منگل کو انٹربینک میں محدود اتارچڑھاؤ کے بعد ڈالر کی پیش قدمی رک گئی مگر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان جاری رہی جس سے ڈالر کے اوپن ریٹ مزید بڑھ کر 312روپے کی نئی بلند ترین سطح پر آگئے۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران آئی ایم ایف کی قرض پروگرام کی بحالی کو فارن کرنسی پالیسی پر تحفظات دور کرنے اور نئے بجٹ اقدامات شئیر کرنے سے مشروط کرنے جیسے عوامل اثر انداز رہے یہی وجہ ہے کہ کاروباری دورانیے میں ڈالر کی قدر میں محدود اتارچڑھاؤ دیکھا گیا۔
کاروبار کے آغاز پر ڈالر 16پیسے گھٹ کر 285.25روپے پر آگیا تھا جس کے بعد ایک موقع پر 39 پیسے کے اضافے سے 285.80روپے کی سطح پر بھی آیا تاہم کاروبار کے اختتام پرانٹربینک ریٹ 6پیسے کی کمی سے 285.35روپے کی سطح پر بند ہوئے۔
اس کے برعکس اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر مزید ایک روپے کے اضافے سے 312روپے کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوا۔ اس طرح سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کا فرق 26.65روپے تک بڑھ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کی قیمت میں اس نمایاں فرق کی وجہ سے بلیک مارکیٹ میں ڈالر کے طلب گاروں کی خریداری سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ بلیک مارکیٹ میں فی ڈالر کی قیمت ریگولر اوپن مارکیٹ ریٹ کی نسبت تقریبا 10روپے زائد ہے جہاں طلب گار اور فروخت کنندگان بغیر کسی دستاویز کے ڈالر کا مبینہ لین دین کررہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جون میں 3.7ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے علاوہ نئے مالی سال میں بھی پاکستان کو مختلف نوعیت کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ اشیائے خورونوش سمیت دیگر لازمی اشیاء کی درآمدات کے لیے بھی 3.5ارب ڈالر درکار ہیں۔ ان زمینی حقائق کے تناظر میں آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کا معاہدہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مالیاتی تعاون کے عندیے دیئے گئے ہیں لیکن تاحال دوست ممالک سے اس ضمن میں کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی وہاں سے رقوم موصول ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ملکی معیشت میں ڈالر کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور روپے کی تسلسل سے تنزلی کا سبب بن گئی ہے۔