ناراض اولمپئنز مان گئے
روٹھے ہاکی شائقین کو کون منائے گا؟
ISLAMABAD:
قومی ہاکی کی حالت دیکھی نہیں جاتی، اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ ماضی کی سپر پاور گرین شرٹس ٹیم ورلڈکپ ہی نہیں کھیل پائے گی۔
اتنا بڑا سانحہ ہو جانے کے بعد بھی ابھی تک بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، تنقید کی گرد بٹھانے اور عوام کی ڈھارس بندھانے کے لیے مینجمنٹ میں کچھ تبدیلیاں ضرور کی گئیں، ناراض اولمپئنز کے ساتھ صلح اور عہدوں کا ہیر پھیر فیڈریشن سے جڑے رہنے کی ضمانت تو فراہم کرسکتا ہے، بہتر مستقبل کے لیے ٹھوس پلان کا چیلنج بدستور سر پر کھڑا ہے، ملک میں جس کی حکومت اس کا تمام اداروں سمیت فیڈریشنز پر قبضہ ایک روایت بن چکا، اقتدار میں آنے والے اپنے من پسند افراد کو نوازنا نہیں بھولتے، سیاسی مداخلت اور عہدوں کی بندر بانٹ نے دیگر ملکی اداروں کی طرح ہاکی کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کر دیا ہے۔
قوم کے خون میں رچے بسے کھیل کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے میں جہاں پر دوسروں نے ستم ڈھائے وہاں پر اس کے ذریعے راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے سابق اولمپئنز کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے، ہرسابق کھلاڑی نے اپنی نظر صرف کرسی پر مرکوز کرلی ہے جس کو عہد ہ مل جائے وہ اپنے آپ کو افلاطون سمجھ لیتا ہے جو باقی رہ جاتے ہیں ان کا سارا زور جلسے جلوسوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے فیڈریشن کے خلاف تنقیدی نشتر چلانے میں صرف ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی پوسٹ مل جائے تو چپ کا تالا لگ جاتا ہے۔ کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ جس کھیل نے ماضی میں انہیں روزی، روٹی اور عزت دی، اس کے لیے عملی طور پر کچھ کیا جائے۔ صرف پی ایچ ایف میں رہ کر ہی سب کچھ نہیں کیا جاسکتا، یہ معزز ہیروز اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کیوں نہیں کرتے؟
ماضی میں ہاکی کی نرسری کے طور پر مشہور گوجرہ نے کتنے ہی اولمپئن پیدا کئے، ایک زمانہ تھا جب آدھی سے زیادہ قومی ٹیم اس شہر کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی تھی لیکن آج دیکھ لیں وہاں کا شاید کوئی ایک آدھ پلیئر ہی سکواڈ کا حصہ ہو، یکایک ایسا کیا ہوا کہ ہاکی کے پلیئرز کے لیے زرخیز زمین نے تھور اُگلنا شروع کیوں کردیا، اس کی ایک بڑی وجہ سابق کھلاڑیوں کی کھیل سے لاتعلقی تھی، اس شہر کے درجنوں اولمپئن ایک ایک کھلاڑی کو ٹریننگ دینے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتے تو آج گرین شرٹس کا سکواڈ صرف گوجرہ کے پلیئرز پر ہی مشتمل ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا، فیڈریشن میں موقع ملا تو ہم یہ کردیں گے، وہ کردیں گے، کا راگ الاپنے والوں کو جب کوئی سیٹ مل جاتی ہے تو لمبی تان کر سو جاتے ہیں.
ٹیم کی کارکردگی پہلے سے بھی بری ہوتی ہے لیکن یہ سب اسے بدقسمتی قرار دے کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں، کوئی کیوں نہیں سمجھتا کہ ہاکی میں زوال کی بنیادی وجہ گراس روٹ سطح پر کھیل کا ختم ہوجانا ہے، وہ بھی وقت تھا جب سکولوں اور کالجوں کے طالبعلم کندھوں پر ہاکیاں رکھنے میں فخر محسوس کرتے تھے، جس نوجوان کے پاس سٹک ہوتی لوگ بھی اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے، تعلیمی اداروں میں ہرسال دیگر کھیلوں کی طرح ہاکی کے ٹورنامنٹ ہوتے، تحصیل لیول کی فاتح ٹیم ضلعی سطح پر صلاحیتوں کے جوہر دکھاتی لیکن آج کل ہاکی صرف چند شہروں کے چند کلبز تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، سکولوں میں کھیل کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے، ہمارے نوجوان کا شوق بھی کافی بدل گیا، اس کو اب ہاکی ہاتھ میں رکھنے کے بجائے مہنگا موبائل رکھنے پر فخر محسوس ہوتا ہے ۔
ایسا کیوں ہوا یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لیکن اتنا بھی پیچیدہ نہیں کہ ہم سمجھ ہی نہ سکیں کہ آخر آسمان کی بلندیوں سے زمین پر آنے کی وجہ کیا ہے اور اس کو جڑسے کیسے ختم کرنا ہے۔ اس کاایک ہی حل ہے، گراس روٹ لیول پر کھیل کو پروان چڑھایا جائے، ہر سکول کو لازمی طور پر ٹیم بنانے کا پابند کیا جائے، ہر سال تعلیمی بورڈز کے ٹورنامنٹس ہوں، ان ایونٹس میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے والے پلیئرز کو منتخب کرتے ہوئے تحصیل سطح پر نمائندگی کا موقع فراہم کیا جائے، ہرسکول کو کوالیفائیڈ کوچ مہیا کرنا تو شاید مشکل ہے لیکن تحصیل لیول پر منتخب لڑکوں کو تو ایسی خدمات فراہم کی جاسکتی ہیں، اگلے مرحلے میں ضلعی سطح کی کامیاب ٹیم کو ڈویژن اور بعد میں صوبائی سطح پر پرفارم کرنے کا موقع ملے، صرف 5 سال یہ پریکٹس کی جائے تو سیکڑوں ہونہار کھلاڑی سامنے آسکتے ہیں، ان کو 5 سے 10 سال تک بہترین ٹریننگ کے بعد ملکی نمائندگی کا موقع فراہم ہو تو شاید ہم آنے والے وقت میں اپنے قومی کھیل کو پاؤں پر کھڑا کرسکیں۔
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا خدارا ہوش کے ناخن لیں، جو ہوا سو ہوا، اب ہی بہتری کے لیے کچھ ٹھوس پلان بنایا جائے، مانا کہ سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن ہم سب کا فرض بھی تو بنتا ہے کہ اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالیں، سابق سٹارز توقیر ڈار اور وسیم احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نوجوان کھلاڑیوں کی ٹریننگ کا آغاز کریں، جب آپ کی تربیت سے مستفید ہونے والے گولڈ میڈل پہن کر کھڑے ہوں گے تو قوم کی نظروں میں آپ کا قد اور بھی بڑھ جائے گا، پیسہ ہی سب کچھ نہیں ، ہاکی ہوگی تو دولت پیچھے بھاگے گی، حالت یہی رہی تو نئی نسل ہاکی کے ستاروں کو بھی نہیں پہچانے گی۔
قومی ہاکی کی حالت دیکھی نہیں جاتی، اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ ماضی کی سپر پاور گرین شرٹس ٹیم ورلڈکپ ہی نہیں کھیل پائے گی۔
اتنا بڑا سانحہ ہو جانے کے بعد بھی ابھی تک بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، تنقید کی گرد بٹھانے اور عوام کی ڈھارس بندھانے کے لیے مینجمنٹ میں کچھ تبدیلیاں ضرور کی گئیں، ناراض اولمپئنز کے ساتھ صلح اور عہدوں کا ہیر پھیر فیڈریشن سے جڑے رہنے کی ضمانت تو فراہم کرسکتا ہے، بہتر مستقبل کے لیے ٹھوس پلان کا چیلنج بدستور سر پر کھڑا ہے، ملک میں جس کی حکومت اس کا تمام اداروں سمیت فیڈریشنز پر قبضہ ایک روایت بن چکا، اقتدار میں آنے والے اپنے من پسند افراد کو نوازنا نہیں بھولتے، سیاسی مداخلت اور عہدوں کی بندر بانٹ نے دیگر ملکی اداروں کی طرح ہاکی کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کر دیا ہے۔
قوم کے خون میں رچے بسے کھیل کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے میں جہاں پر دوسروں نے ستم ڈھائے وہاں پر اس کے ذریعے راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے سابق اولمپئنز کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے، ہرسابق کھلاڑی نے اپنی نظر صرف کرسی پر مرکوز کرلی ہے جس کو عہد ہ مل جائے وہ اپنے آپ کو افلاطون سمجھ لیتا ہے جو باقی رہ جاتے ہیں ان کا سارا زور جلسے جلوسوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے فیڈریشن کے خلاف تنقیدی نشتر چلانے میں صرف ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی پوسٹ مل جائے تو چپ کا تالا لگ جاتا ہے۔ کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ جس کھیل نے ماضی میں انہیں روزی، روٹی اور عزت دی، اس کے لیے عملی طور پر کچھ کیا جائے۔ صرف پی ایچ ایف میں رہ کر ہی سب کچھ نہیں کیا جاسکتا، یہ معزز ہیروز اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کیوں نہیں کرتے؟
ماضی میں ہاکی کی نرسری کے طور پر مشہور گوجرہ نے کتنے ہی اولمپئن پیدا کئے، ایک زمانہ تھا جب آدھی سے زیادہ قومی ٹیم اس شہر کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی تھی لیکن آج دیکھ لیں وہاں کا شاید کوئی ایک آدھ پلیئر ہی سکواڈ کا حصہ ہو، یکایک ایسا کیا ہوا کہ ہاکی کے پلیئرز کے لیے زرخیز زمین نے تھور اُگلنا شروع کیوں کردیا، اس کی ایک بڑی وجہ سابق کھلاڑیوں کی کھیل سے لاتعلقی تھی، اس شہر کے درجنوں اولمپئن ایک ایک کھلاڑی کو ٹریننگ دینے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتے تو آج گرین شرٹس کا سکواڈ صرف گوجرہ کے پلیئرز پر ہی مشتمل ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا، فیڈریشن میں موقع ملا تو ہم یہ کردیں گے، وہ کردیں گے، کا راگ الاپنے والوں کو جب کوئی سیٹ مل جاتی ہے تو لمبی تان کر سو جاتے ہیں.
ٹیم کی کارکردگی پہلے سے بھی بری ہوتی ہے لیکن یہ سب اسے بدقسمتی قرار دے کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں، کوئی کیوں نہیں سمجھتا کہ ہاکی میں زوال کی بنیادی وجہ گراس روٹ سطح پر کھیل کا ختم ہوجانا ہے، وہ بھی وقت تھا جب سکولوں اور کالجوں کے طالبعلم کندھوں پر ہاکیاں رکھنے میں فخر محسوس کرتے تھے، جس نوجوان کے پاس سٹک ہوتی لوگ بھی اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے، تعلیمی اداروں میں ہرسال دیگر کھیلوں کی طرح ہاکی کے ٹورنامنٹ ہوتے، تحصیل لیول کی فاتح ٹیم ضلعی سطح پر صلاحیتوں کے جوہر دکھاتی لیکن آج کل ہاکی صرف چند شہروں کے چند کلبز تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، سکولوں میں کھیل کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے، ہمارے نوجوان کا شوق بھی کافی بدل گیا، اس کو اب ہاکی ہاتھ میں رکھنے کے بجائے مہنگا موبائل رکھنے پر فخر محسوس ہوتا ہے ۔
ایسا کیوں ہوا یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لیکن اتنا بھی پیچیدہ نہیں کہ ہم سمجھ ہی نہ سکیں کہ آخر آسمان کی بلندیوں سے زمین پر آنے کی وجہ کیا ہے اور اس کو جڑسے کیسے ختم کرنا ہے۔ اس کاایک ہی حل ہے، گراس روٹ لیول پر کھیل کو پروان چڑھایا جائے، ہر سکول کو لازمی طور پر ٹیم بنانے کا پابند کیا جائے، ہر سال تعلیمی بورڈز کے ٹورنامنٹس ہوں، ان ایونٹس میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے والے پلیئرز کو منتخب کرتے ہوئے تحصیل سطح پر نمائندگی کا موقع فراہم کیا جائے، ہرسکول کو کوالیفائیڈ کوچ مہیا کرنا تو شاید مشکل ہے لیکن تحصیل لیول پر منتخب لڑکوں کو تو ایسی خدمات فراہم کی جاسکتی ہیں، اگلے مرحلے میں ضلعی سطح کی کامیاب ٹیم کو ڈویژن اور بعد میں صوبائی سطح پر پرفارم کرنے کا موقع ملے، صرف 5 سال یہ پریکٹس کی جائے تو سیکڑوں ہونہار کھلاڑی سامنے آسکتے ہیں، ان کو 5 سے 10 سال تک بہترین ٹریننگ کے بعد ملکی نمائندگی کا موقع فراہم ہو تو شاید ہم آنے والے وقت میں اپنے قومی کھیل کو پاؤں پر کھڑا کرسکیں۔
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا خدارا ہوش کے ناخن لیں، جو ہوا سو ہوا، اب ہی بہتری کے لیے کچھ ٹھوس پلان بنایا جائے، مانا کہ سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن ہم سب کا فرض بھی تو بنتا ہے کہ اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالیں، سابق سٹارز توقیر ڈار اور وسیم احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نوجوان کھلاڑیوں کی ٹریننگ کا آغاز کریں، جب آپ کی تربیت سے مستفید ہونے والے گولڈ میڈل پہن کر کھڑے ہوں گے تو قوم کی نظروں میں آپ کا قد اور بھی بڑھ جائے گا، پیسہ ہی سب کچھ نہیں ، ہاکی ہوگی تو دولت پیچھے بھاگے گی، حالت یہی رہی تو نئی نسل ہاکی کے ستاروں کو بھی نہیں پہچانے گی۔