جن کا بچپن چھن گیا

وہ ہاتھ جنہیں قلم پکڑنا تھا لوگوں کےسامنے دست سوال ہیں، یہ المیہ ہے ان بچوں کا جو کسی سائباں کے بغیرجیون بِتا رہے ہیں

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12 اپریل کو ’’بے گھر بچوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے، ۔ فوٹو: فائل

چہروں سے ٹپکتی وحشت ان کے من کی ویرانی کا پتا دیتی ہے۔۔۔ حالات کی بے رحمی نے ان سے ان کا بچپن چھین لیا ہے۔۔۔ سُتے ہوئے چہرے، ویران آنکھیں، تن پر میلے کپڑے جو نہ جانے کب سے نہیں دھلے ۔۔۔ پاؤں میں گھسی ہوئی ٹوٹی چپل۔۔۔ بال دھول اور مٹی میں اٹے ہوئے۔۔۔ جو دن کھلونوں سے کھیلنے کے تھے، سیٹھ کی جھاڑ سنتے گزرتے ہیں۔

وہ ہاتھ جنہیں کاغذ قلم پکڑنا تھا، اب وہ لوگوں کے سامنے دست سوال ہوتے ہیں۔۔۔ یہ المیہ ہے ان بچوں کا جو کسی سائباں کے بغیر اپنا جیون بِتا رہے ہیں۔سڑک پر صبح سے شام اور شام سے صبح کرنے والا رمضو بھی عروس البلاد کراچی کا ایک ایسا بچہ ہے۔ اصل نام تو جانے کیا رہا ہوگا، لیکن اب سڑکوں پر رہنے والے اس کے دیگر ساتھی اسے رمضو کہہ کر پکارتے ہیں۔ رمضو غربت سے تنگ آکر گھر سے بھاگا تھا۔ گھر میں اچھا کھانا نہیں پکتا تھا۔۔۔ ایک دن اس نے اپنے دوست کی دیکھا دیکھی ایک فلاحی ادارے کے دسترخوان پر کھانا کھایا اور یہ کھانا ایسا منہ کو لگا کہ وہ روز یہیں کھانے لگا، آہستہ آہستہ جو رات کو سونے گھر پر جاتا تھا، وہ بھی کم ہوگیا اور پھر ایک دن اس نے مکمل طور پر گھر کو خیرباد کہ دیا کیوں کہ رات دیر سے گھر آنے پر باپ مارپیٹ کرتا تھا۔ اب یہ بھیک مانگ کر گزارہ کرتا ہے اور رات میں سڑک پر ہی سو جاتا ہے۔

ایک اور لڑکا شیرو بھی والدین کے جھگڑوں سے تنگ آکر سڑکوں کا باسی بنا۔۔۔ نشے میں دھت باپ، جب اس کی ماں کو مارتا، تو یہ سہم کر ایک کونے میں دبک جاتا اور بھیگتی پلکوں سے اپنی ماں کو پٹتے دیکھتا، لیکن وہ اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو اس نے گھر سے باہر پناہ لی، کیوں کہ وہ اس خوف اور دہشت کے ماحول سے تنگ آچکا تھا۔ اب یہ کراچی کی سڑکوں پر پھول بیچتا ہے اور یہی سڑک اب اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اگرچہ یہ بچھونا اس پھول سے بچے کے لیے کانٹوں بھرا ہے پر اس کے سوا اس کے پاس کوئی حل نہیں۔ہمارے معاشرے میں ہمیں ایسے بے شمار پھول نظر آئیں گے جو وقت کی تند وتیز ہوا میں گویا کچلے گئے ہیں اور اس میں غربت اور ناخواندگی کے ساتھ ساتھ کافی بڑا ہاتھ ان کے ماں باپ کا بھی ہوتا ہے، جو شیرو اور رمضو جیسے بچوں کو اپنی بدسلوکی اور تشدد کے باعث گھروں سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور پھر سڑکوں کی دھول اور زمانے بھر کی تلخیاں ہی ان کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12 اپریل کو ''بے گھر بچوں کا عالمی دن'' منایا جاتا ہے، اس کا آغاز پہلی بار 2011ء میں کنسورشیم فار اسٹریٹ چلڈرن نامی تنظیم نے لندن میں کیا اور اب یہ تنظیم اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت منایا جانے لگے، تاکہ اقوام متحدہ اپنے تمام ممبر ممالک کو یہ دن منانے اور اسٹریٹ چلڈرن کے تحفظ اور بحالی کے لیے دباؤ ڈال سکے اور اس طرح دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بے گھر بچوں کے حقوق کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا ہو سکے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 100 ملین سے زاید بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1.5 ملین بے گھر بچے موجود ہیں، جب کہ کراچی شہر میں ان بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2012

ء میں پاکستان نے بے گھر بچوں کی تعداد کو کم کرنے میں کوئی کام یابی حاصل نہیں کی اور نہ ہی ان کے تحفظ کے لیے کوئی پالیسی متعارف کرائی۔ سی سی او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد لاکھوں بچے بے گھر اور یتیم ہوچکے ہیں۔ ماں باپ کی جانب سے برتی جانے والی بے پرواہی، غربت، والدین اور اساتذہ کی جانب سے بے جا مارپیٹ، ناخواندگی یہ وہ تمام وجوہات ہیں جو ان معصوموں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کردیتی ہے۔ جہاں انہیں وہ سب کچھ سہنا پڑتا ہے جس کا سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے، اس دنیا میں آنے کے ابتدائی چند سالوں میں ہی وہ بھیانک اور تلخ تجربوں سے گزرجاتے ہیں جو انہیں سماج کے خلاف جانے پر مجبور کردیتے ہیں۔

وہ اس آگ میں اس حد تک جھلس چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بے بسی اور بے کسی کا انتقام لینے کے لیے دوسروں کو بھی اس آگ میں جلا کر بھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو سونے کانوالہ کھلانے والے ، ان کے لیے مخملی کمبل اور نرم بستر جیسی آسائشوں کے مزے اڑانے والے کیسے ان بے گھر بچوں کی دلی کیفیت کا اندازہ کرسکتے ہیں جہاں انہیں ایک روٹی اور تھوڑے سے سالن کے لیے کئی کئی گھنٹوں تک ہوٹلوں کے سامنے لائن میں لگنا پڑتا ہے، جہاں انہیں انسان نما بھیڑیوں کی ہوس کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ کیا ان کا یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ وہ ایسے گھر میں پیدا ہوئے، جہاں بھوک افلاس کا ڈیرا تھا، جہاں غربت کنڈلی مارے بیٹھی تھی۔ کچھ قصور اس میں ان کے اپنے ماں باپ کا بھی ہے جہاں معاشی بدحالی ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اور انہیں دو وقت کی روٹی سے آگے کچھ سوجھتا ہی نہیں اور وہ اس دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے اپنے معصوم بچوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتے ہیں، بچپن ہی سے ان کی خودداری اور عزت نفس کو کچل کر انہیں ہاتھ پھیلانا سکھا دیا جاتا ہے۔

بے گھر بچوں کی ایک بڑی تعداد تقریباً دس ہزار کے لگ بھگ کراچی شہر میں موجود ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے مطابق 90% بے گھر بچے سڑک پر گزارنے والی پہلی ہی رات جنسی زیادتی کانشانہ بن جاتے ہیں، جس میں 60% پولیس والے ملوث ہوتے ہیں۔ 2010 میں 2,252 بچوں کو ملک بھر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 67% کیسز دیہی علاقوں میں جب کہ 33% شہری علاقوں میں رپورٹ ہوئے۔

درجہ بندی کے لحاظ سے اسٹریٹ چلڈرن بھی دو حصوں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں، ایک وہ جو سڑکوں پر کام کرتے ہیں اور شام ہوتے ہی اپنے خاندانوں کے پاس لوٹ جاتے ہیں، جب کہ دوسری قسم ان بچوں کی ہے جو کہ سڑکوں پر ہی کمانے اور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹ آف دی چائلڈ (sparc) کے مطابق تقریباً 1.2 ملین بچے پاکستان کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر رہ رہے ہیں۔ اس میں وہ تمام بچے شامل ہیں جو سڑکوں پر رہتے ہیں یا جو دن میں سڑکوں پر کام کرکے دن کے اختتام پر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔


یو این آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم کے سروے کے مطابق 72% کام کرنے والے بچے اپنے خاندانوں سے رابطے میں نہیں ہوتے ، جب کہ 10% کو اپنے خاندانوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ اسپارک کے سروے کے مطابق سڑکوں پر رہنے والے 70% بچوں کی عمریں 9-16 کے درمیان ہیں، جب کہ زیادہ تر 11-16 کے ایج گروپ میں آتے ہیں۔ اسلام آباد، حیدرآباد اور پشاور میں ایسے بچے 11-12 کے درمیان ہیں۔ تاہم ملتان، پشاور اور کوئٹہ میں 5-6 سال کی عمر کے بچے بھی سڑکوں پر کام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ملتان اور پشاور میں 6 سال کی عمر کے بچوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر رہ رہی ہے۔



کراچی میں بے گھر بچوں سے متعلق قائم غیرسرکاری تنظیم انیشیٹر ہیومن ڈولپمینٹ فاؤنڈیشن کے صدر رانا آصف کا کہنا ہے کہ بے گھر بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بے گھر بچوں کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کی کارکردگی دیگر صوبوں کی بہ نسبت بہتر نظر آتی ہے۔ پنجاب حکومت نے 2004 ء میں Destitue and negld children act 2004 بنایا، اس کے علاوہ پنجاب کے شالیمار باغ میں ایشیا کا سب سے بڑا شیلٹر ہوم بھی موجود ہے، جہاں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے حوالے سے ہمارے پاس sindh children act 1955 اور employment of children act 1991 بھی موجود ہے۔ 1989ء میں حکومت پاکستان نے ایک عالمی معاہدہ برائے حقوق اطفال پر دستخط کیے، جس کے تحت تمام ایکٹس میں موجود بچوں کی عمر یک ساں کرنی ہے یعنی 18 سال۔ اب تک حکومت اس میں ناکام رہی ہے، کیوں کہ قوانین میں ''بچے'' کی عمر کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔ early marriage act میں 16 سال ہے، جب کہ employment of children act میں 14 سال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 80 لاکھ بچے بھٹوں میں کام کرتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ کے قریب بچے پاکستان میں اسکول نہیں جاتے۔ 30سے 40 لاکھ بچے ایسے ہیں جو بھیک بھی مانگتے ہیں اور ساتھ ہی کوئی چھوٹا موٹا کام مثلاً پراندے، پھول اور پانی بیچتے اورکچرا چنتے ہیں۔ بعض اوقات والدین بھی اپنے بچوں کے استحصال میں ملوث ہوتے ہیں، وہ بچوں سے زبردستی بھیک منگواتے ہیں۔ سندھ چلڈرن ایکٹ 1955ء میں واضح لکھا ہے کہ جو بھی بچوں سے بھیک منگوائے، اس کو فوراً گرفتار کیا جا سکتا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سائبان (شیلٹر) کا قانون موجود ہے، جب کہ اس کے برعکس بلوچستان اور سندھ کی حکومتیں سائبان اور بچوں کی کسٹڈی کا قانون بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ لہٰذا اگر یہاں کوئی ادارہ کسی بے گھر بچے کو تحفظ فراہم کرتا ہے، تو اس بچے کے والدین یا رشتہ دار اس ادارے کے خلاف حبس بے جا کا مقدمہ دائر کر سکتے ہیں، ایسی صورت میں شیلٹر ہوم کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے قانون سازی تک یہاں بے گھر بچوں کے رہنے کا انتظام ممکن نہیں۔

IHDF کے مطابق کراچی میں سڑکوں پر رہنے والے 28 فی صد بچے برمی اور بنگالی ہیں۔ جون، جولائی میں جب ماہی گیری کا کام نہیں ہوتا تو یہی بچے گداگری میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان بے گھر بچوں میں سے 45 فی صد گداگری کرتے ہیں۔ مافیا ان کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیتی ہے، تاکہ لوگ ترس کھا کر انہیں زیادہ بھیک دیں۔ دو فی صد بچے مختلف ہوٹلوں میں دیہاڑی پر ہیں، آٹھ فی صد بچے کچرا چنتے ہیں (یہ اعداد وشمار صرف بے گھر بچوں کے ہیں، اس میں افغانی بچے شامل نہیں)، 10 فی صد بچے منشیات فروشی میں ملوث ہیں، پانچ فی صد گاڑیوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں، 30 فی صد بچے جیب کتری اور دکانوں سے چوری میں ملوث ہیں، 30 فی صد بچے جنسی استحصال کا شکار ہیں، 74 فی صد صمد بونڈ کا نشہ کرتے ہیں، 10 فی صد ہیروئن کی طرف مائل ہیں۔

60 فی صد چرس کا استعمال بھی کرتے ہیں، 20 فی صد بچے الکحل لیتے ہیں،81 فی صد نیند کی گولیاں استعمال کرتے ہیں، جنسی بے راہ روی میں 57 فی صد بچے اپنی رضامندی سے ملوث، جب کہ جنسی تشدد میں 34 فی صد بچے شامل ہیں، جس کے باعث بے گھر بچوں میں ایڈز کا خطرہ بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ کراچی میں 150 سے 1200 ایسے بھٹیار خانے (ہوٹلز) موجود ہیں جہاں پر مخیر حضرات کی کرم نوازی سے ان بے گھر بچوں کو لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر پیٹ بھرنے کو کھانا تو مل جاتا ہے، لیکن وہ کھانا اور اس پر مستزاد آلودہ ماحول حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے وہ بچے ایک صحت مند زندگی گزارنے س قاصر ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کنونشن میں بچوں کے حقوق سے متعلق ایک آرٹیکل 20میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ جن بچوں کے گھر نہیں ہوتے وہ ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں، لیکن یہاں ہر ایک اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے جان چھڑاتا اور توضیح پیش کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان بیت المال میں اگر ان بے گھر بچوں کی سرپرستی کی بات کی جائے تو جواب آتا ہے کہ ہم یتیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ والدین کے انتقال ہو جانے کی صورت میں ہمارے پاس کوئی ایسا سیکیوریٹی پلان بھی نہیں، جو ان بچوں کو تحفظ دے سکے اور اگر ہے بھی تو غیر رسمی جو انتہائی کم تناسب میں ہے۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کے ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرے گی۔ کیا بے گھر بچے اس آئین سے مستثنیٰ ہیں؟ اگر نہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پرائیویٹ اسکول تو دور کی بات اگر سرکاری اسکول تک بے گھر ہونے کی پاداش میں انہیں داخلہ دینے سے انکاری ہوں تو کیا کیا جائے؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ بے گھر بچے اس ریاست کا حصہ نہیں؟ اگر سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ محض اپنے اسکولوں کا ماحول خراب ہونے کے ڈر سے ان بے گھر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں اسی طرح ہچکچاہٹ کا شکار رہی تو پھر ان معصوم بچوں کو بدمعاش اور جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بچوں پر مشتمل ہے جن میں بے گھر بچے بھی شامل ہیں اگر آپ کو اپنا کل سنوارنا ہے، تو اپنا آج درست کرنا ہوگا اور اس افرادی قوت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ملک میں بے گھر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے اور ان کے تحفظ اور بحالی کے لیے موثر قانون سازی کرے۔ نیز اٹھارویں ترمیم کے تحت چوںکہ تمام اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ضروری وسائل اور سہولیات سے آراستہ کرکے provincial commision of child welfare and development کے شعبے کو فعال کیا جائے۔
Load Next Story