امداد نہیں تجارت

پاکستان اپنے سابقہ تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے گزشتہ چند برس سے امداد کی بجائے تجارت کا نعرہ لگا رہا ہے


نئی معاشی گریٹ گیم میں پاکستان، ترکی، چین اور روس خطے کا ’’چین‘‘ لوٹنے کیلئے پُر تول رہے ہیں فوٹو: فائل

اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف ممالک غیرملکی امداد کا استعمال خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کے لئے کرتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں دوطرفہ امدادی نظام (یورپی ممالک میں) کے لئے مارشل پلان جیسا منصوبہ تیار کیا گیا وہیں دوطرفہ تجارت کے لئے (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی مدد سے) بریٹون ووڈس کی شروعات ہوئی۔ اس طرح کا نظام امدادی ممالک کو بغیر کسی تیسرے ملک کی مداخلت کے، امداد یافتہ ممالک سے پورا فائدہ اٹھانے اور بین الاقوامی آڈٹ ایجنسیوں کو چکمہ دینے کی اجازت دیتا ہے۔

دوطرفہ تجارت اور کثیر جہتی تجارت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ گلوبل اکنامک پراسپکٹس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بیشتر ممالک دو طرفہ تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بالخصوص اس لئے کیوں کہ دو طرفہ تجارتی نظام ان ممالک کو (سمجھوتے کے تحت) سرمایہ کاری کے نئے طور طریقوں کا پورا فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے جب کہ کثیر جہتی تجارت میں سبھی ملکوں کی رضامندی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان بھی اپنے سابقہ تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے گزشتہ چند برس سے امداد کی بجائے تجارت کا نعرہ لگا رہا ہے جس کی کسی حد تک تکمیل میں موجودہ حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال پاکستان کی ترکی، چین اور روس سے بڑھتی ہوئی قربتیں ہیں۔ نئی معاشی گریٹ گیم میں پاکستان، ترکی، چین اور روس خطے کا ''چین'' لوٹنے کیلئے پُر تول رہے ہیں۔ ایشیا میں تیزی سے بدلتی ہوئی خطے کی صورتحال میں پاکستان کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے، دوست ملک جن میں ترکی اور چین نے اسلام آباد کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ پاکستان میں بھرپور سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تاہم یہ ممالک پاکستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

چین آئندہ پانچ سال کیلئے توانائی کے شعبے میں لگ بھگ32 ارب ڈالر سمیت ملک بھر میں جاری متعدد منصوبوں پر 82ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے اور متعدد کمپنیاں کام شروع بھی کر چکی ہیں، ملک بھر میں بڑے، چھوٹے ڈیم، موٹروے طرز کی سڑکیں، فائبر لنک، گارمنٹس سٹی، معدنی ذخائر، کول سمیت توانائی سیکٹر میں سرمایہ کاری، سرنگوں کی تعمیر، اقتصادی راہداری، ریلوے، گوادر پورٹ کو آپریشنل کرنا، آئل ریفائنریز اور زراعت سمیت متعدد منصوبوںمیں سرمایہ کاری کی جا رہی ہیں، دوسری طرف بیجنگ کی اسلام آباد سے بڑھتی ہوئی دوستی دنیا کیلئے حیران کن ہے، سرکاری حکام کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان جاری مذکورہ منصوبے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔

گوادر تا کاشغر راہداری سے خطے میں انقلاب آ سکتا ہے جس کی تعمیر سے 3 ارب افراد کو فائدہ ہوگا، ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی، دونوں ملکوں کی قیادت منصوبے کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے سنجیدہ ہے، چینی حکام نے اقتصادی راہداری منصوبوں میں صرف بجلی کے شعبہ پر 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا واضح منصوبہ بنایا ہوا ہے بعد ازاں چین نے کہا ہے کہ گوادر کے آپریشنل ہونے کے بعد 32ارب ڈالرز کی نئی سرمایہ کاری بھی تیار ہے۔ مذکورہ منصوبے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو کراچی سے گوادر تک ریلوے ٹریک کی تعمیر میں مدد دے رہا ہے، ذرائع کے مطابق پاکستان نے چین کو خضدار، جیکب آباد اور ڈیرہ غازی خان میں مائن لائن کی تعمیر کی پیشکش بھی کی ہے، مذکورہ منصوبے کو دسمبر 2015ء تک حتمی شکل دے دی جائے گی۔



ملک بھر میں جاری منصوبوں کے ساتھ بیجنگ نے گلگت، آزاد کشمیر میں مزید انفراسٹرکچر بہتر بنانے کیلئے حکومت سے وقت مانگ لیا ہے ۔ پاکستانی سرکاری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ آنے والے چند ماہ یا ایک سال کے دوران چین کے تعاون سے گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کیلئے جلد تیزی سے کام شروع ہوجائے گا جس میں چاروں صوبوں کو شامل کیا جائے گا، اقتصادی راہداری میں ہر200 میل کے فاصلے پر خصوصی اکنامک زون قائم کیے جائیں گے جہاں سرمایہ کاری پر 10 سال کیلئے ٹیکسوں کی چھوٹ دی جائے گی، دوسری طرف چین کے تعاون سے ریلوے نے اسلام آباد سے مری اور مری سے مظفرآباد تک ٹرین چلانے کے منصوبہ کی فیزیبلٹی رپورٹ کی تیاری کیلئے پلاننگ کمیشن سے فنڈز مانگ لئے ہیں۔ فنڈز ملتے ہی ریلوے ٹریک بچھانے کا سروے شروع کر دیا جائے گا۔ ریلوے کے شعبہ انجینرنگ اور چین کے ماہرین ٹریک کی فیزیبلٹی رپورٹ جلد تیار کریں گے۔

وزیراعظم نے اسلام آبادسے مظفرآباد تک ریلوے ٹریک بچھانے کیلئے 3 پلان بنانے کی ہدایت کی تھی جس میں ایک اسلام آباد سے مری اور مری سے مظفر آباد، دوسرا حویلیاں سے گڑھی حبیب اللہ اور گڑھی حبیب اللہ سے مظفرآباد ریلوے ٹریک، تیسرا ہری پور سے تربیلا ڈیم کے ساتھ گڑھی حبیب اللہ اورگڑھی حبیب اللہ سے مظفرآباد تک ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ شامل ہے۔ تینوں منصوبوں میں سے بہتر اور سود مند ٹریک اسلام آباد سے مری اور مری سے مظفر آباد ہے۔ اس منصوبہ کی تکمیل سے سالانہ 50 لاکھ سے زائد مسافر ٹرین کے ذریعے سفر کر سکیں گے۔107 کلومیٹر راستے میں آنیوالی جھیلوں پر 50 خوبصورت پل اور پہاڑوں کو کاٹ کر سرنگیں بھی بنائی جائیں گی۔

وزارت ترقیاتی و منصوبہ بندی کی رپورٹ کے مطابق کراچی لاہور موٹر وے کی تعمیر کا منصوبہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ یہ 1,160 کلو میٹر طویل شاہراہ ہو گی جس میں دادو، سکھر، روہڑی، پنوں عاقل، گھوٹکی، گدو ابارو، رحیم یار خان، صادق آباد، ظاہر پیر، جلالپور پیروالہ، ملتان، عبدالحکیم صاحب شامل ہیں۔ اسی طرح امریکی میڈیا بھی پاک چین بڑھتے تعلقات پر مسلسل خبریں دے رہا ہے، وال سٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان کا چین سے13 ارب ڈالر کے مزید 3 بڑے جوہری پاور پلانٹس کے حصول کی بات چیت کا عمل جاری ہے۔ 3 جوہری پاور پلانٹس کا یہ معاہدہ گزشتہ برس کراچی میں 2 چینی ری ایکٹرزکی تعمیر کے معاہدے کے علاوہ ہے۔ نئے جوہری پلانٹس پنجاب میں لگائے جائیں گے، 2030ء تک پاکستان جوہری پاور پلانٹس سے8800 میگاواٹ بجلی حاصل کرے گا۔

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق مذکورہ معاہدہ طے پا گیا تو پاکستان میں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا۔ چینی جوہری صنعت حکام کا کہنا ہے کہ ہمارے علاوہ دنیا کے کسی ملک سے بھی پاکستان کو جوہری پلانٹس کیلئے وسیع پیمانے پر حمایت ملنا مشکل ہے۔ ایک اور جریدے کی رپورٹ کے مطابق چینی کمپنی سینوٹیک خیبرپختونخوا میں 5 سو میگاواٹ صلاحیت کے حامل 25 ہائیڈرو پاور سٹیشن تعمیر کرے گی۔ کمپنی نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت کمپنی 4 سال میں دریائے سوات سے ملحقہ علاقوں میں پلانٹس نصب کرے گی۔ چین پاکستان کے ساتھ معیشت کو بہتر کرنے میں مشاورت بھی کر رہا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ممالک اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کریں، اس سلسلے میں مزید ملکوں کو بھی شامل کیا جائے، جن میں ترکی، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، افغانستان، ایران سمیت ایشیاء کے دیگر ممالک شامل ہیں۔

ادھر چین نے22.24کلو میٹر طویل سرنگ کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔ جنوبی ریجن ژن جیانگ میں سرنگ کی تعمیرکے بعد ترپان اور کورلا شہروں کے درمیان سفر انتہائی کم ہو جائے گا، یہ سرنگ پاکستان کے ساتھ ریلوے لائن ملانے کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگی۔



اسلام آباد سے تہران اور استنبول (ترکی) کے لئے دوبارہ سے مال بردار ٹرین سروس شروع کرنے کے لئے تینوں ممالک کے حکام بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ تینوں ممالک کے درمیاں فریٹ ٹرین چلانے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے۔ چھ ماہ تک بارہ فریٹ ٹرینیں تینوں ممالک کے درمیان چلانے کی تمام ذمہ داری ترکی کی حکومت پر ہوگی۔ ایک مہینے میں دو بار فریٹ ٹرین چلائی جائے گی۔ پاکستان ریلویز کے پاس ای سی او کے زیر اہتمام فریٹ ٹرین چلانے کے لئے لوکو موٹو اور کنٹینرز موجود ہیں۔ پاکستان کی حدود میں فریٹ ٹرین کو مکمل طور پر سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ پاکستان ایران باڈر پر سامان کی کراسنگ میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ پاکستان عالمی تنظیم otif کا ممبر نہیں تھا اس لئے سامان کو ایک بار پھر سے اوٹیف تنظیم کے زیر نگرانی دوبارہ سیل کیاجاتا تھا تاہم اب پاکستان اوٹیف کا ممبر بن چکا ہے اور پاک ایران باڈر پر سامان کی کراسنگ میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

دوسری طرف ترکی کی سرمایہ کاری نے بھی دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی نئی راہیں کھول دی ہیں، میٹرو منصوبے جن کی واضح مثال ہیں، ترکی اسلام آباد سے استنبول تک ٹرین جلد چلانے کی خواہش بھی کر چکا ہے اور یہ ممالک تمام سرمایہ کاری مقامی کرنسی میں کرنے کے خواہاں ہیں جبکہ مزید ممالک کو شامل کرنے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے۔

ادھر دنیا کے بڑے تجارتی ملک روس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے نظریں جما لی ہیں۔ 1270ارب ڈالرکی کنزیومرگڈزکی بڑی مارکیٹ روس کے ساتھ پاکستانی حکمران جماعت تجارتی تعلقات میں گرمجوشی لانے کی کوششوں میں مصروف ہے، پاکستان اورروس کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے65 برس گزرگئے ہیں مگر تجارتی حجم ایک حد سے تجاوزنہیںکر سکا ۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو وسعت دینے کے لئے روس کی پیشکش کو شروع میں اتنا سنجیدہ نہیں لیا گیا تھا اور سفارتی جھکائو امریکا کی جانب نظر آیا جس کے پاکستان کو مثبت کم اور منفی پہلووں کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔

اب دوبارہ پاکستان نے روس کے ساتھ ہرسطح پر تعلقات کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے، دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم بڑھانے کیلئے ملک میں تجاویز پر غور جاری ہے، پاکستان اور روس کے مابین تجارتی حجم تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 4 سو ملین ڈالر سے زائد ہے۔ پاکستان کی روس کے کیلئے ایکسپورٹ 332 ملین ڈالر ہے جس میں سبزیاں، پھل، نٹس، چاول، ٹیکسٹائل، کیمیکل فائبر، فلامنٹس، کاٹن، فارماسیوٹیکل، لیدر اور کھیلوں کا سامان شامل ہیں جبکہ روس سے پاکستان کیلئے درآمدات 210 ملین ڈالر کی ہیں جن میں فرٹیلائزر، نیوز پرنٹ، پیپر بورڈ شامل ہیں۔ روس کی متعدد کمپنیوں نے پاکستان میں جاری توانائی بحران کے خاتمے کیلئے پیشکش کی ہے کہ جلد سرمایہ کاروں کا ایک بڑا گروپ پاکستان آئے گا اور کوئلہ کے مزید پراجیکٹ پر کام کر کے پاکستان میں وافر مقدار میں بجلی پیدا کر کے توانائی بحران کے خاتمے میں مدد دے گا۔

حال ہی میں رشین فیڈریشن کے تجارتی سربراہ برائے پاکستان مسٹر یورے کوزلوو نے ملتان میں میٹرو بس سے مطابقت رکھنے والی روسی بس سروس کی پیشکش کی ہے، روسی کمپنیاں ماضی میں پاکستان میں روس کی طرف سے بنائے گئے پاور پلانٹس مظفرگڑھ' جام شورو و دیگر میں بہتری کے لئے دلچسپی رکھتی ہیں، اسی طرح پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کے لئے بھی تیار ہیں۔ جنوبی پنجاب کی صنعتی ترقی اور زراعت کے شعبہ میں مشترکہ منصوبے چاہتے ہیں، روس اس زرعی خطہ کیلئے سیال کھادیں فراہم کر سکتا ہے جس سے پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہو گا۔ پاکستان روس کے مابین سیاسی، معاشی، ثقافتی میدان میں سرگرمیاں جاری ہیں، اس سلسلہ میں دونوں ممالک کے مابین انٹر گورنمنٹ کمیشن برائے ٹریڈ' سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس اگلے ماہ ماسکو میں ہوگا جس میں وزیر خزانہ سمیت، پانی و بجلی، پٹرولیم، صنعت وپیداوار کی وزارتوں کے نمائندگان شریک ہوں گے۔

ماسکو نے پاکستانی رسیلے پھلوں کی درآمد پر عائد پابندی ختم کر نے کے بعد پاکستانی آلو کی درآمدات کیلئے 7 کمپنیوں کو آلو برآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ''ایڈ نہیں ٹریڈ'' کی مثبت پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے دنیا بھر سے تجارتی روابط قائم کرے جس کے براہ راست اثرات عوام تک پہنچیں گے کیونکہ امداد کی صورت میں ملنے والی رقم حکومت کی صوابدید پر ہوتی ہے جبکہ تجارت سے ہونے والے ثمرات سے عوام براہ راست مستفید ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں ملکی وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں