قومی بجٹ اور آئی ایم ایف
آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اپنے معاہدے کا باقاعدہ اعلان کردے توحکومت کے لیے مالی مشکلات پرقابو پانا آسان ہوجائے گا
وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے رابطہ کر کے آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے آیندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کردی گئی ہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف ، نویں جائزہ کے لیے تمام شرائط پوری کردی ہیں جب کہ حکومت نے نویں جائزے پر اسٹاف لیول معاہدے کی خاطر 170 ارب روپے ٹیکس منی بجٹ کے ذریعے لگائے، جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ 9 فروری کو ہونا تھا جو تاحال تاخیر کا شکار ہے، معاملات طے نہ ہونے پر بجٹ سازی کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے قرض بحالی پروگرام میں تاخیر کے باعث پاکستان کی مشکلات پوری طرح ختم نہیں ہوپا رہی ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معطل شدہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے متعدد پالیسی اقدامات نافذ کیے، جن میں ٹیکسوں کی شرح، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور شرح سود بڑھانا شامل ہے۔
پاکستانی روپے نے اس سال اب تک اپنی قدر میں تقریباً 20 فیصد کمی دیکھی ہے، اگر فنڈنگ مکمل نہیں ہوتی تو کرنسی کی قدر میں مزید کمی ہونے کے امکانات ہیں، تاہم واشنگٹن میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان معاہدے پر دستخط کرنے کے 'حقیقتاً قریب' ہے اور اسے آیندہ چند روز میں حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔
حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے لیے پر عزم نظر آرہی ہے۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگیاں اس وقت کر سکے گا جب وہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہو گا۔
بہرحال یہ بات خوش آیند ہے کہ سعودی عرب، یو اے ای اور چین پاکستان کی مالی مشکلات کم کرنے کے لیے تعاون پر تیار ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کوئی بینک نہیں رہا جس کا کام صرف قرضہ دینا ہے بلکہ اب یہ ایک عالمی مالیاتی اصلاحاتی ادارہ بن چکا ہے جو اپنے رکن ممالک کو قرضہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
پاکستان کو 30 جون 2023 تک قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں بھاری رقم درکار ہے ، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق آیندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو 34 سے 35 ارب ڈالرز درکار ہیں۔ پاکستانی معیشت کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں، حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، وزرا اور بیوروکریسی کو گاڑیاں اور پلاٹس نہ دیے جائیں، سبسڈیز کم کی جائیں۔
آئی ایم ایف پاکستان کو جن معاشی اصلاحات کی جانب لے جانا چاہتا ہے وہ ملک کے مفاد میں ہیں اور ہمیں اس طرف ہی بڑھنا چاہیے، ہمیں آئی ایم ایف کا پروگرام چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے، سعودی عرب 2019 سے پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان تاحال یہ سرمایہ کاری لانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
چین نے پاکستان کو حال ہی میں دو ارب ڈالرز کا قرض رول اوور کیا ہے، چین کے کمرشل بینک نے ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز کا قرضہ موخر کر دیا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو دو ارب ڈالرز کے سیف ڈیپازٹ فراہم کرنے کا اشارہ دے دیا ہے، یو اے ای نے پاکستان کا دو ارب ڈالرز کا قرضہ رول اوور کردیا ہے، یہ پاکستان کی کامیابی ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدے کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کو بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف معاہدہ ہو بھی جائے تو پاکستان کی مالی مشکلات حل نہیں ہوں گی۔
عالمی مالیاتی ادارے میں مختلف ممالک کو قرضوں کے اجرا کے حوالے سے اتنی لچک ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ ان کی واپسی یقینی بنانے کے لیے قرض لینے والے ممالک کو ایک فریم ورک مہیا کرتا ہے، جس سے ٹیکسز کا حجم اس حد تک بڑھنا یقینی ہوجاتا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی آسان ہوجائے۔
آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سمیت 94 ممالک پر اس کا کل واجب الادا قرضہ 148ارب 30کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ اس لسٹ میں ارجنٹائن 42ارب ڈالر کے قرض کے ساتھ نمبر ون ہے جب کہ پاکستان 7ارب ڈالر کے قرض کے ساتھ پانچواں نمبر اور ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں ہر آنے والی حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی اپنے دور اقتدار تک محدود چلی آئی ہے چنانچہ ہر بار قرضے لیتے وقت مزید ذرایع آمدن پیدا کیے بغیر ان کی واپسی کا خیال نہیں رکھا گیا یہی وجہ ہے کہ آج آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالر پروگرام کو آگے بڑھانے اور مزید ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے 9 ویں جائزہ اسکیم تاخیر کا شکار ہے، پاکستان زرِ مبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی کمی کا سامنا کررہا ہے، تاہم زر ِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی خوش خبری نے امید پیدا کی ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل رہا ہے۔
ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقعوں و انفرا اسٹریکچرکی ترقی کے بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کی جانب ہے۔ اس لیے وہ ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کے بجائے امداد و قرضوں پر گزارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان1947کی بہ نسبت آگے اور ایک مضبوط ایٹمی ملک ہے، اگر سیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل و محنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔ غیرملکی امداد کی یہ بیساکھیاں معیشت بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی۔
پاکستان کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔
2023 اقتصادی بحالی کا سال ہونا چاہیے جس کے پیش نظر آنے والا بجٹ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی جانب ایک قدم ثابت ہوگا۔ موجودہ حالات میں قومی کفایت شعاری اور ایکسپورٹ لیڈ انڈسٹریل گروتھ پروگرام اہم ہے جو دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔
میثاق معیشت کے لیے تمام سیاسی پارٹیز کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور منصوبہ بندی میں شامل ہونا حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔ کیوں نہ حتمی طور پر طے کر لیا جائے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلیں گے جو ممکن عمل ہے، یہ فیصلہ جو ہمیں کل کرنا ہے تو آج ہی کیوں نہ کرلیا جائے۔
پاکستان وسائل کے لحاظ سے بانجھ نہیں ہے ' حالیہ معاشی بحران ایک مشکل فیز ضرور ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ پاکستان اس مشکل وقت سے نکل نہیں سکتا ۔ آئی ایم ایف حکام کے تحفظات اور شرائط اپنی جگہ رہی لیکن عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین عالمی اقتصادیات اور مالیات کے نظام پر بھی نظر رکھیں۔ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا رکن ملک ہے۔
آئی ایم ایف کے حکام کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے۔ پاکستان معاشی مشکل میں ہے ' آئی ایم ایف کو اس مشکل کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف کا قیام ہی ممبر ممالک کو مشکلات سے نکالنا ہے۔ ماضی کی پاکستانی حکومتوں کی پالیسیاں جو بھی ہوں 'آئی ایم ایف کے حکام کو موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر فوکس کرنا چاہیے۔
آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اپنے معاہدے کا باقاعدہ اعلان کر دے تو پاکستانی حکومت کے لیے مالی مشکلات پر قابو پانا آسان ہو جائے گا ' آئی ایم ایف کی شرائط پوری ہو چکی ہیں ' اس لیے امید یہی کی جاتی ہے کہ پاکستان جلد بحران پر قابو پا لے گا اور آئی ایم ایف کے ساتھ بھی معاہدے کا اعلان ہو جائے گا کیونکہ حکومت کی معاشی حکمت عملی درست سمت کو ظاہر کرتی ہے ' پاکستان کے حکام کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ اب ترقی یافتہ اقوام کے لیے پاکستان کی اسٹرٹیجک ضرورت کم ہو گئی ہے۔
اب پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔ اس لیے پاکستانی حکام کو بھی ماضی کی پالیسیاں ترک کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔
پاکستان نے آئی ایم ایف ، نویں جائزہ کے لیے تمام شرائط پوری کردی ہیں جب کہ حکومت نے نویں جائزے پر اسٹاف لیول معاہدے کی خاطر 170 ارب روپے ٹیکس منی بجٹ کے ذریعے لگائے، جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ 9 فروری کو ہونا تھا جو تاحال تاخیر کا شکار ہے، معاملات طے نہ ہونے پر بجٹ سازی کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے قرض بحالی پروگرام میں تاخیر کے باعث پاکستان کی مشکلات پوری طرح ختم نہیں ہوپا رہی ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معطل شدہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے متعدد پالیسی اقدامات نافذ کیے، جن میں ٹیکسوں کی شرح، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور شرح سود بڑھانا شامل ہے۔
پاکستانی روپے نے اس سال اب تک اپنی قدر میں تقریباً 20 فیصد کمی دیکھی ہے، اگر فنڈنگ مکمل نہیں ہوتی تو کرنسی کی قدر میں مزید کمی ہونے کے امکانات ہیں، تاہم واشنگٹن میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان معاہدے پر دستخط کرنے کے 'حقیقتاً قریب' ہے اور اسے آیندہ چند روز میں حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔
حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے لیے پر عزم نظر آرہی ہے۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگیاں اس وقت کر سکے گا جب وہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہو گا۔
بہرحال یہ بات خوش آیند ہے کہ سعودی عرب، یو اے ای اور چین پاکستان کی مالی مشکلات کم کرنے کے لیے تعاون پر تیار ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کوئی بینک نہیں رہا جس کا کام صرف قرضہ دینا ہے بلکہ اب یہ ایک عالمی مالیاتی اصلاحاتی ادارہ بن چکا ہے جو اپنے رکن ممالک کو قرضہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
پاکستان کو 30 جون 2023 تک قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں بھاری رقم درکار ہے ، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق آیندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو 34 سے 35 ارب ڈالرز درکار ہیں۔ پاکستانی معیشت کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں، حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، وزرا اور بیوروکریسی کو گاڑیاں اور پلاٹس نہ دیے جائیں، سبسڈیز کم کی جائیں۔
آئی ایم ایف پاکستان کو جن معاشی اصلاحات کی جانب لے جانا چاہتا ہے وہ ملک کے مفاد میں ہیں اور ہمیں اس طرف ہی بڑھنا چاہیے، ہمیں آئی ایم ایف کا پروگرام چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے، سعودی عرب 2019 سے پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان تاحال یہ سرمایہ کاری لانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
چین نے پاکستان کو حال ہی میں دو ارب ڈالرز کا قرض رول اوور کیا ہے، چین کے کمرشل بینک نے ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز کا قرضہ موخر کر دیا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو دو ارب ڈالرز کے سیف ڈیپازٹ فراہم کرنے کا اشارہ دے دیا ہے، یو اے ای نے پاکستان کا دو ارب ڈالرز کا قرضہ رول اوور کردیا ہے، یہ پاکستان کی کامیابی ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدے کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کو بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف معاہدہ ہو بھی جائے تو پاکستان کی مالی مشکلات حل نہیں ہوں گی۔
عالمی مالیاتی ادارے میں مختلف ممالک کو قرضوں کے اجرا کے حوالے سے اتنی لچک ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ ان کی واپسی یقینی بنانے کے لیے قرض لینے والے ممالک کو ایک فریم ورک مہیا کرتا ہے، جس سے ٹیکسز کا حجم اس حد تک بڑھنا یقینی ہوجاتا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی آسان ہوجائے۔
آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سمیت 94 ممالک پر اس کا کل واجب الادا قرضہ 148ارب 30کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ اس لسٹ میں ارجنٹائن 42ارب ڈالر کے قرض کے ساتھ نمبر ون ہے جب کہ پاکستان 7ارب ڈالر کے قرض کے ساتھ پانچواں نمبر اور ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں ہر آنے والی حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی اپنے دور اقتدار تک محدود چلی آئی ہے چنانچہ ہر بار قرضے لیتے وقت مزید ذرایع آمدن پیدا کیے بغیر ان کی واپسی کا خیال نہیں رکھا گیا یہی وجہ ہے کہ آج آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالر پروگرام کو آگے بڑھانے اور مزید ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے 9 ویں جائزہ اسکیم تاخیر کا شکار ہے، پاکستان زرِ مبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی کمی کا سامنا کررہا ہے، تاہم زر ِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی خوش خبری نے امید پیدا کی ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل رہا ہے۔
ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقعوں و انفرا اسٹریکچرکی ترقی کے بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کی جانب ہے۔ اس لیے وہ ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کے بجائے امداد و قرضوں پر گزارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان1947کی بہ نسبت آگے اور ایک مضبوط ایٹمی ملک ہے، اگر سیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل و محنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔ غیرملکی امداد کی یہ بیساکھیاں معیشت بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی۔
پاکستان کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔
2023 اقتصادی بحالی کا سال ہونا چاہیے جس کے پیش نظر آنے والا بجٹ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی جانب ایک قدم ثابت ہوگا۔ موجودہ حالات میں قومی کفایت شعاری اور ایکسپورٹ لیڈ انڈسٹریل گروتھ پروگرام اہم ہے جو دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔
میثاق معیشت کے لیے تمام سیاسی پارٹیز کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور منصوبہ بندی میں شامل ہونا حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔ کیوں نہ حتمی طور پر طے کر لیا جائے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلیں گے جو ممکن عمل ہے، یہ فیصلہ جو ہمیں کل کرنا ہے تو آج ہی کیوں نہ کرلیا جائے۔
پاکستان وسائل کے لحاظ سے بانجھ نہیں ہے ' حالیہ معاشی بحران ایک مشکل فیز ضرور ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ پاکستان اس مشکل وقت سے نکل نہیں سکتا ۔ آئی ایم ایف حکام کے تحفظات اور شرائط اپنی جگہ رہی لیکن عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین عالمی اقتصادیات اور مالیات کے نظام پر بھی نظر رکھیں۔ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا رکن ملک ہے۔
آئی ایم ایف کے حکام کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے۔ پاکستان معاشی مشکل میں ہے ' آئی ایم ایف کو اس مشکل کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف کا قیام ہی ممبر ممالک کو مشکلات سے نکالنا ہے۔ ماضی کی پاکستانی حکومتوں کی پالیسیاں جو بھی ہوں 'آئی ایم ایف کے حکام کو موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر فوکس کرنا چاہیے۔
آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اپنے معاہدے کا باقاعدہ اعلان کر دے تو پاکستانی حکومت کے لیے مالی مشکلات پر قابو پانا آسان ہو جائے گا ' آئی ایم ایف کی شرائط پوری ہو چکی ہیں ' اس لیے امید یہی کی جاتی ہے کہ پاکستان جلد بحران پر قابو پا لے گا اور آئی ایم ایف کے ساتھ بھی معاہدے کا اعلان ہو جائے گا کیونکہ حکومت کی معاشی حکمت عملی درست سمت کو ظاہر کرتی ہے ' پاکستان کے حکام کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ اب ترقی یافتہ اقوام کے لیے پاکستان کی اسٹرٹیجک ضرورت کم ہو گئی ہے۔
اب پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔ اس لیے پاکستانی حکام کو بھی ماضی کی پالیسیاں ترک کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔