وہ کچھ جس کا کبھی سوچا نہ گیا تھا

پارلیمنٹ نے اب اپنی بالاتری کا سوچ لیا ہے جو بہت پہلے سوچا جانا چاہیے تھا

m_saeedarain@hotmail.com

پاکستان اپنے قیام کے تقریباً 75 سال نو ماہ مکمل کرچکا ہے اور 1973 میں جو متفقہ آئین منظور ہوا تھا، وہ بھی 50 سال کا ہو چکا جس میں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت میں متعدد ترامیم بھی کی گئی تھیں مگر ترامیم کرنے والی آئینی کمیٹی کے کسی رکن نے سوچا تک نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں ایک نئی پارٹی تحریک انصاف کو عوام کے بجائے ایس آر ٹی ایس کے ذریعے اقتدار دلایا جائے گا اور اس کے وزیر اعظم اپنی مرضی کی جمہوریت سے ملک چلا کر اپوزیشن کو ختم کرکے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی کوشش کریں گے اور تحریک اعتماد کی کامیابی سے ہٹائے جانے والے پہلے وزیر اعظم ہوں گے اور سابق ہو کر اپنے اعلان کے مطابق ملک کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے جن کی گرفتاری پر وہ کچھ ہوگا جس کا کبھی سوچا نہ گیا تھا۔

یوں تو ہر حکومت بنائے جانے میں بالاتروں کا کردار رہا ہے مگر پی ٹی آئی کے سربراہ کو بڑے چاؤ سے اکثریت نہ ہونے کیباوجود اتحادی دے کر وزیر اعظم بنوایا جائے گا ، اسے اعلیٰ عدلیہ کی حمایت حاصل ہوگی اور ریٹائرڈ بالاتروں اور ان کی فیملیز کی بھی حمایت حاصل ہوگی اور انھیں اقتدار میں لانے کے لیے عدالتی فیصلے سے منتخب وزیر اعظم کو تاحیات نااہل کرایا جائے گا اور پھر اپنے پسندیدہ لیڈر کو صادق و امین قرار دے کر اقتدار دیا جائے گا مگر یہ سب کچھ ناکام ثابت ہوگیا۔

1973 کے آئین میں عدلیہ کی حدود کا تعین کردیا گیا تھا مگر یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ سجاد علی شاہ اور افتخار محمد چوہدری منتخب وزیر اعظم کی جمہوری حکومت چلنا ناممکن بنا دیں گے اور حکومت کو اپنے بچاؤ کے لیے سپریم کورٹ میں سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تقرری کا عمل اختیار کرنا ہوگا مگر سینیارٹی کے اصول کا بھرپور فائدہ اٹھا کر حکومت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے کو کسی صورت اس کی مقررہ مدت سے قبل ہٹائے جانے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا اور نہ ترمیم کرنے والوں نے ایک وزیر اعظم کی عدالتی نااہلی کے بعد میں خیال آیا تھا کہ ایک وزیر اعظم کے عدالتی قتل اور دوسرے کی عدالتی نااہلی کے فیصلے کے بعد انھیں اپیل کا حق دلانے کے لیے کوئی آئینی ترمیم کرلی جاتی۔

دنیا بھر میں سینیارٹی کا اصول ہے جس کو آئین میں مکمل تحفظ دیا جاتا ہے مگر اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقریوں کا طریقہ کار جمہوری ادارے کرتے ہیں۔ یہی وجہ کہ جمہوری ملکوں میں سینارٹی کے اصول کو نظرانداز کرکے من پسند جونیئر جج لانا تقریباً ناممکن ہے۔۔


پاک فوج کا سربراہ کور کمانڈرز کانفرنس بلاتا ہے اور ان سے مشاورت کرکے فیصلے کرتا ہے جب کہ وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ارکان کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرتا لیکن اعلیٰ عدلیہ میں ایسا نہیں ہوتا۔۔ پارلیمنٹ نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ صرف نام کی سپریم ہے، اس کے پاس کردہ قوانین ایک حکم امتناعی جاری کرکے بے اثر کردیا جائے گا اور پارلیمنٹ منہ دیکھتی رہ جائے گی۔

ملک میں پارلیمنٹ، حکومت اور آئین بنانے اور آئینی ترامیم کرنے والوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کسی فوجی جنرل کے بجائے جمہوری کہلانے والا سابق وزیر اعظم خود اپنی من مانیوں کے باعث اپنی غیر جمہوری آمریت میں اقتدار گنوا کر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور دس سال حکومت کرنے والے صوبے کے پی میں اپنی من مانی سے وہاں کی اسمبلیاں توڑ کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار سے محروم کرا دے گا۔

ملک میں اب تک قبل ازمدت اسمبلیاں آمروں نے توڑی ہیں مگر سوچا نہ تھا کہ جمہوریت پر یقین رکھنے کے دعوے کرنے والا کوئی ایسا لیڈر بھی آئے گا جو اقتدار سے ہٹائے جاتے ہی اپنی پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی سے استعفے دلا دے گا اور حکومت پر جلد انتخابات اور حصول اقتدار کے لیے وہ کام کرے گا جو کسی فوجی آمر نے بھی کیا تھا۔آئین میں اسمبلیاں ٹوٹنے پر نوے روز میں انتخابات کا حکم تو ہے مگر الیکشن کرانے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

صدر مملکت یا عدلیہ کے پاس نہیں۔ آئین میں یہ بھی درج نہیں کہ دو اسمبلیوں کو محض اس لیے قبل از وقت توڑا جائے تاکہ وفاق کو گھنٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکیں، حالانکہ قانون کسی فعل کے پس پردہ ارادے اور نیت کو دیکھتا ہے ، کیا یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ جب صوبائی اسمبلی کی آئینی مدت باقی ہے ، کوئی بحران بھی نہیں ہے ، تو کس ارادے اور مقصد کے تحت قبل از وقت اسمبلیاں توڑ کر سیاسی اور آئینی بحران پیدا کیا گیا۔جس سے معاشی بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا۔

پارلیمنٹ نے اب اپنی بالاتری کا سوچ لیا ہے جو بہت پہلے سوچا جانا چاہیے تھا۔ اب آئین میں جو کمی بیشی ہے اسے درست کیا جائے ، جو ہورہا ہے، ہو چکا ہے یا مزید ہو سکتا ہے ، پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ اس پر کام کرے اور پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کے لیے جن قوانین کی ضرورت ہے، وہ ضرور کرے تاکہ آیندہ کوئی عمران خان ایسا نہ کرسکے جو ملک کی تین اسمبلیوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔
Load Next Story