خوبصورت مستقبل ہمارے حق میں ہے

خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں 21 سال گزرنے کے باوجود دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا


Dr Tauseef Ahmed Khan May 31, 2023
[email protected]

جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں نے ایک بار پھر طالبات کے دو اسکولوں کو تباہ کیا، جن میں پانچ سو طالبات زیرِ تعلیم ہیں، خوش قسمتی یہ ہوئی کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

خیبر پختون خوا کے سیاحتی مرکز سوات میں ایک جنونی پولیس کانسٹیبل نے لڑکیوں کی وین پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجہ میں ایک طالبہ جاں بحق جب کہ پانچ طالبات زخمی ہوئیں۔

سوات کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ٹی وی چینلز پر فخر سے اعلان کیا تھا کہ اس حملے میں ملوث پولیس کانسٹیبل کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر متعلقہ افسر اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ ایک پرتشدد اور مذہبی جنونی پولیس کانسٹیبل بھرتی کیسے ہوگیا، اور پھر اس کی ڈیوٹی گرلز اسکول پرکیوں لگائی گئی؟

صرف خیبر پختون خوا اور اس میں شامل سابق قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو سرگرم نہیں ہیں بلکہ گلگت اور بلتستان کا علاقہ بھی ان کی منفی سرگرمیوں کی زد میں ہے۔

ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ افغانستان کی سرحد سے متصل پارا چنار میں ہائی اسکول کے آٹھ اساتذہ کو چھری کے وار سے قتل کردیا گیا تھا۔ پاراچنار کی ضلع انتظامیہ نے اس بھیانک سانحہ کو قبائل میں زمین کا تنازع قرار دیا تھا مگر پارا چنار کی تاریخ سے واقف صحافی اس واقعہ کو فرقہ وارانہ دہشت گردی قرار دیتے ہیں۔ اس واقعہ میں قتل ہونے والے ایک استاد کے قریبی ساتھی نے بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ کو بتایا تھا کہ مقتول استاد کو خوف تھا کہ جن بچوںکو وہ تعلیم دے رہے ہیں۔

ان کے رشتہ دار ہی ان کو قتل کرسکتے ہیں۔ خیبرپختون خوا سے منسلک صوبہ گلگت بلتستان کے علاقے دیامر میں 2018 میں گرلز اسکولز مسمار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا، صرف دو دنوںمیں 14 گرلز اسکولوں کو مسمار کیا گیا تھا۔

ملک میں تعلیم سے متعلق تمام سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد اسکول نہیں جاتی اور جو لڑکیاں اسکولوں میں داخلہ لے لیتی ہیں تو ان میں سے ایک بڑی تعداد پانچویں کلاس سے اسکول چھوڑچکی ہوتی ہے۔ خیبر پختون خوا اورگلگت بلتستان میں طالبات کے اسکولوں تباہ کرنے کا بنیادی مقصد طالبات کو زیورِ تعلیم سے محروم کرنا ہے۔ پاکستانی طالبان نے جب سوات پر قبضہ کیا تھا تو وہاں لڑکیوں کے اسکول بند کر دیے گئے تھے۔

سوات چھوڑنے والے خاندان میں استاد ضیاء الدین کا خاندان بھی شامل تھا۔ ضیاء الدین ایک ترقی پسند سوچ کے مالک ہیں۔ انھوں نے سوات میں خواتین کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے بہت کوشش کی تھی۔ ضیاء الدین کی صاحبزادی ملالہ یوسفزئی جب اسکول جانے سے محروم ہوگئی تو اس نے گل مکئی کے نام سے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر سوات کی روداد لکھی جس سے اس کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔

طالبان نے ملالہ پر قاتلانہ حملہ کیا، زخمی ملالہ کو مزید علاج کے لیے برطانیہ منتقل کر دیا گیا، ان کی جان بچ گئی۔ ملالہ کو اس جدوجہد پر نوبل انعام دیا گیا مگر رجعت پسندوں نے ملالہ کے خلاف ایک پراپگنڈا مہم چلائی۔

اس سال کے شروع میں جب طالبان جنگجو اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کرتے تھے تو دائیں بازو کے رجعت پسند صحافی اور بعض دانشور ان حملوں کا یہ جواز فراہم کرتے تھے کہ اسکولوں کی عمارتوں میں فوجی دستوں نے پناہ لی ہوئی ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس جھوٹے پروپیگنڈا کی قلعی کھل گئی۔

افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی اور پاکستانی طالبان نے کے پی کے اور گلگت بلتستان میں طالبات کے اسکولوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مشال خان مردان یونیورسٹی، شعبہ ابلاغ عامہ کا ذہین طالب علم تھا، اسے یونیورسٹی کے احاطہ میں 2017ء کو طلبہ کے ہجوم نے مشال خان پر حملہ کیا۔

حملہ آوروں میں بعض اساتذہ غیر تدریسی عملہ کے ارکان اور یونیورسٹی کے رجعت پسند طلباء کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے افراد بھی شامل تھے۔ مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا لیکن یہ الزام غلط ثابت ہوا۔ خیبر پختونخوا پولیس نے روایتی طور پر کمزور مقدمہ بنایا جس کا فائدہ ملزمان کو ہوا۔

مشال کے والد نے قاتلوں کو سزا دلوانے کی ان تھک کوشش کی۔ عدالت نے ایک ملزم کو سزائے موت اور پانچ کو عمر قید کی سزا دی، حکام کی عدم توجہ سے بعض ملزمان بری ہوئے۔ مشال خان کے گھر والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس کی تحقیقات سے ثابت ہوگیا تھا کہ مشال خان کے مرتکب نہیں ہوئے تھے مگر رجعت پسند عناصر نے پروپیگنڈا سے مشال خان کی بہنوں کے لیے مشکلات کھڑی کردیں۔

مشال خان کے والد لالہ اقبال نے عہد کیا تھا کہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے مگر مشال خان کی موت کے بعد حالات نامواقف تھے مگر لالہ اقبال نے اپنی بیٹی ستوریہ اقبال کی حوصلہ افزائی کی۔ ستوریہ اقبال کو امریکا کی بفیلو یونیورسٹی کے بائیو میڈیکل انجنیئرنگ ڈپارٹمنٹ میں داخلہ ملا۔ ستوریہ نے سخت محنت کی، یوں ستوریہ نے گزشتہ مہینہ بائیو میڈیکل انجنیئرنگ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی۔

ستوریہ اقبال نے اپنی ڈگری کو اپنے بڑے بھائی مشال خان سے منسوب کیا۔ لالہ اقبال اور ان کی اہلیہ اور بچوں نے اپنے پیار مشال خان کی المناک موت اور اپنے علاقہ کے نامساعد حالات کا جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔

خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں 21 سال گزرنے کے باوجود دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہے،ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کابل سے ہو رہی ہے ۔ روزانہ دہشت گردوں کے حملوں میں فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادتوں کی خبریں آتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان سے 5 ہزار طالبان کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

حکومت کی تبدیلی کے باوجود پاکستانی طالبان کی سرگرمیاں رک نہ سکیں۔ یوں محسو س ہوتا ہے کہ ریاست ان رجعت پسند عناصر کی کہیں نہ کہیں سرپرستی کر رہی ہے مگر اس پرآشوب صورتحال میں ستوریہ اقبال کی کامیابی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ لالہ اقبال نے ستوریہ کی کامیابی پر یہ اشعار پشتو میں لکھے ہیں اور نوجوان صحافی ارشد نے ان کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

''خوبصورت مستقبل ہمارے حق میں ہے، منزل کو چلے دھیرے ،کبھی تیز چال ،کبھی گرے، مگر ٹھہریں گے نہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔