یومِ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
حکمران مصلحتاً خاموش ہو بھی جائیں لیکن قوم ڈاکٹر عبدالقدیر کو محسن پاکستان کے نام سے یاد کرتی رہے گی
دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنھیں عوام کے دربار سے ایسی خلعت'لقب اور خطاب عطا ہوتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔
عوامی خطابات کو دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی قانون ختم نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسن پاکستان کا خطاب کسی حکمران کا عطا کردہ نہیں ہے بلکہ میرے جیسے عوام نے انھیں دیا ہے جو ڈاکٹر قدیر سے غیر مشروط محبت کا دم بھرتے ہیں ۔یہ محبت آج بھی اسی شدت سے موجود ہے جیسی پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے وقت تھی ۔
عوام جب کسی شخصیت کو اپنی پسند کا خطاب عطا کر دیتی ہے تویہ خطاب ہی اس شخصیت کا نام بن جاتا ہے ۔ جیسے آج ہم صرف قائداعظم کہیں یا لکھیں تو سب کو پتہ ہے کہ کون سی شخصیت ہے۔ سب کو پتہ ہے قائداعظم کا لقب برصغیر کے مسلمانوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو دیا ہے' اسی طرح اور بھی ایسی مثالیں ہیں جن میں کسی کے خطاب کو ہی اس کا نام بنا دیا گیا۔
آج کوئی محسن پاکستان کہے تو فوراً ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ذہن میں آجاتا ہے جو پاکستانی قوم کی انتہائی محترم اور ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ ان کی انتھک محنت اور ہنر مندی اور ملک کے لیے دلسوزی نے ہمیں دشمنوں کو برابری کی سطح پر دیکھنے کا موقع دیا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانیوں کے پاس کوئی ایسا منصب نہیں تھا جو ڈاکٹر صاحب کے شایان شان ہو ۔محسن پاکستان سے زیادہ با وقار ٹائٹل کوئی اور نہیں تھا اور ڈاکٹر صاحب کے لیے اسی ٹائٹل کا انتخاب کیا گیا۔
ان کی وفات کے بعد آج کسی بھی پاکستانی سے پوچھ لیں، وہ یہی کہے گا کہ اس کے پاس ڈاکٹر صاحب کے شایان شان کوئی خطاب نہیں ہے صرف عقیدت اور محبت ہے اور محسن پاکستان سے زیادہ کوئی اور خطاب ان کی شخصیت کے مطابق نہیں ہے۔
اس ملک اور قوم کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر وہ کام کر گئے ہیں اگر کوئی اور پاکستانی اس سے بڑا کام کر دے گا تب سوال پیدا ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس ملک کی لازوال خدمت کے لیے اور کیا منصب دیا جائے۔ جہاں تک ذاتی طور پر میں ڈاکٹر صاحب کو جانتا ہوں وہ ان عہدوں کی خواہش سے بلند تر زندگی گزار گئے ہیں۔وہ نمود و نمائش کے قائل نہیں تھے'ان کی شخصیت ادب و آداب کے دائرے میں رہتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے تکبر اور رعونت جیسی برائیاں سرے سے موجود ہی نہیں تھیں۔انتہائی سادہ مزاج اور سادہ زندگی گزارنے والی یہ شخصیت پاکستانیوں کے لیے مغرور اور خود سر سیاستدانوں اور آمروں سے کہیں زیادہ قابل احترام ہے۔ پاکستانی عوام اور ریاست ڈاکٹر عبدالقدیر کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔ انھوں نے پاکستان کو ناقابل شکست بنایا۔
ہر سال مئی کی اٹھائیس تاریخ کو پاکستانی قوم یوم تکبیر مناتی ہے اور حکمران اس یوم تکبیر کا سہارا لے کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس تاریخ کو چاغی کے پہاڑوں میں پے در پے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے اپنی سلامتی کو یقینی بنا دیا۔یہ کارنامہ انجام دینے والے پاکستانی سائنسدان ہیں اور ان کے کمانڈر ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔باقی حکمران تو انگلی کٹوا کر شہیدوں کی صف میں کھڑے ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ رواں برس بھی میری نظر سے کوئی ایسی تقریب نہیں گزری جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سجائی گئی ہو۔ اس رویے کو بے حسی اور احسان فراموشی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا ۔زندگی کے آخری ایام میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا 'وہ پاکستان کی تاریخ میں درج ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے اپنے سائنسدان کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایٹمی دھماکوںکی یاد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے یہ دن موسوم کیا جاتا تاکہ ہماری آیندہ نسلوں کویہ معلوم ہو کہ ان کا اصل محسن کون تھا جس کی بدولت وہ ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جدوجہد کر کے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ مملکت پاکستان بنایا تھا' قائدمحمد علی جناح کا بچا کچھا پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دشمن سے بچایا ہے ۔
میرے والد مرحوم عبدالقادرحسن جو ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مندوں میں شامل رہے ہیں، وہ اپنے کالموں میں ڈاکٹر صاحب کا ہر مشکل وقت میں کامیابی سے دفاع کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کی شفقت اور نیاز مندی میری زندگی کا سرمایہ ہے جس کے لیے انھوں نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ ایک بار مجھے اسلام آباد سے معروف صحافی فاروق فیصل خان کا ٹیلی فون موصول ہوا ، سلام کے ساتھ ہی مبارکباد دی۔
میں نے کہا ، خان صاحب خیریت ہے کس بات کی مبارکباد دے رہے ہیں ۔کہنے لگے، آج آپ کے والد نے وقت کے ڈکٹیٹر کے سامنے ہم اخبار نویسو ں کی لاج رکھ لی ہے۔
قصہ مختصر جنرل پرویز مشرف نے ملک کے کونے کونے سے اخبار نویسوں کو اسلام آباد میں جمع کیا اور پریس کانفرنس میں کہاکہ ڈاکٹر قدیر خان نے ملک کی عزت داؤ پر لگا دی اور وہ اب میرے ہیرو نہیں ہیں ، اس موقع پر عبدالقادر حسن سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ جنرل صاحب آپ کے ہیرو وہ بے شک نہ ہوں لیکن میرے اور اس قوم کے وہ اب بھی ہیرو ہیں۔
ہال میں موجود سامعین پر سکتہ طاری ہو گیا کیونکہ ایک فوجی آمر کے حضور میں گستاخی کا کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا تھا لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی ۔ صدرمشرف بھی موقع کی مناسبت سے اس بات کو بے مزہ ہو کر برداشت کر گئے لیکن میرے اخبار نویس دوستوں کے بقول ملک عبدالقادر حسن نے محفل لوٹ لی تھی۔ دراصل یہ ان کی محسن پاکستان سے عقیدت تھی جس کا اظہار انھوں نے بے ساختہ کر کے ان سے عقیدت اور نیاز مندی کا حق ادا کیا جو کوئی اور شایدہی کرسکے۔
ایسی لاتعداد یادیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ذاتی تعلقات کی نسبت سے جڑی ہوئی ہیں لیکن ان میں سے بعض ایسی یاداشتیں بھی ہیں جو کسی کالم کا حصہ نہیں بن سکتیں۔پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوںنے شبانہ روزمحنت کی جو داستانیں رقم کی ہیں ان کو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کام شاید اﷲ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی طے پارہا تھا کیونکہ جس ملک کی اساس ہی کلمہ طیبہ پر ہو بلاشبہ غیر مرئی طاقتیں ہی اس کی حفاظت فرماتی ہیں۔
ورنہ جو ملک اپنے جماندور دشمن کی وجہ سے دولخت ہو چکا ہو اور دشمن اپنی تما م تر برتری اور خطرناک خواہشوںکے ساتھ بیٹھ جائے اور اس کی طاقت پاکستان کی طاقت کے سامنے ماند پڑ جائے اور وہ جارحیت کی خواہش رکھنے کے باوجود اس سوچ سے کنارہ کش ہو جائے تو یہ سب کچھ ایٹمی طاقت کی وجہ سے ہے، اس کا کریڈٹ ذوالفقارعلی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کی ٹیم کو جاتا ہے۔ جن کی سربراہی کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے۔
گزارش یہ کرنی تھی کہ حکمران وسائل کی فراہمی اور عالمی دباؤ کا کریڈٹ ضرور اپنے کھاتے میں ڈالیں لیکن جن سائنسدانوں نے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے، ان کو بھی ضرور یاد رکھیں اور یوم ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا تعین بھی کردیں۔یہ اس قوم اور آیندہ نسلوں پر احسان ہو گا کہ وہ اپنے محسن کو یاد رکھیں گے ۔
زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں'پاکستانی بھی زندہ قوم ہے 'حکمران مصلحتاً خاموش ہو بھی جائیں لیکن قوم ڈاکٹر عبدالقدیر کو محسن پاکستان کے نام سے یاد کرتی رہے گی۔
عوامی خطابات کو دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی قانون ختم نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسن پاکستان کا خطاب کسی حکمران کا عطا کردہ نہیں ہے بلکہ میرے جیسے عوام نے انھیں دیا ہے جو ڈاکٹر قدیر سے غیر مشروط محبت کا دم بھرتے ہیں ۔یہ محبت آج بھی اسی شدت سے موجود ہے جیسی پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے وقت تھی ۔
عوام جب کسی شخصیت کو اپنی پسند کا خطاب عطا کر دیتی ہے تویہ خطاب ہی اس شخصیت کا نام بن جاتا ہے ۔ جیسے آج ہم صرف قائداعظم کہیں یا لکھیں تو سب کو پتہ ہے کہ کون سی شخصیت ہے۔ سب کو پتہ ہے قائداعظم کا لقب برصغیر کے مسلمانوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو دیا ہے' اسی طرح اور بھی ایسی مثالیں ہیں جن میں کسی کے خطاب کو ہی اس کا نام بنا دیا گیا۔
آج کوئی محسن پاکستان کہے تو فوراً ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ذہن میں آجاتا ہے جو پاکستانی قوم کی انتہائی محترم اور ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ ان کی انتھک محنت اور ہنر مندی اور ملک کے لیے دلسوزی نے ہمیں دشمنوں کو برابری کی سطح پر دیکھنے کا موقع دیا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانیوں کے پاس کوئی ایسا منصب نہیں تھا جو ڈاکٹر صاحب کے شایان شان ہو ۔محسن پاکستان سے زیادہ با وقار ٹائٹل کوئی اور نہیں تھا اور ڈاکٹر صاحب کے لیے اسی ٹائٹل کا انتخاب کیا گیا۔
ان کی وفات کے بعد آج کسی بھی پاکستانی سے پوچھ لیں، وہ یہی کہے گا کہ اس کے پاس ڈاکٹر صاحب کے شایان شان کوئی خطاب نہیں ہے صرف عقیدت اور محبت ہے اور محسن پاکستان سے زیادہ کوئی اور خطاب ان کی شخصیت کے مطابق نہیں ہے۔
اس ملک اور قوم کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر وہ کام کر گئے ہیں اگر کوئی اور پاکستانی اس سے بڑا کام کر دے گا تب سوال پیدا ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس ملک کی لازوال خدمت کے لیے اور کیا منصب دیا جائے۔ جہاں تک ذاتی طور پر میں ڈاکٹر صاحب کو جانتا ہوں وہ ان عہدوں کی خواہش سے بلند تر زندگی گزار گئے ہیں۔وہ نمود و نمائش کے قائل نہیں تھے'ان کی شخصیت ادب و آداب کے دائرے میں رہتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے تکبر اور رعونت جیسی برائیاں سرے سے موجود ہی نہیں تھیں۔انتہائی سادہ مزاج اور سادہ زندگی گزارنے والی یہ شخصیت پاکستانیوں کے لیے مغرور اور خود سر سیاستدانوں اور آمروں سے کہیں زیادہ قابل احترام ہے۔ پاکستانی عوام اور ریاست ڈاکٹر عبدالقدیر کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔ انھوں نے پاکستان کو ناقابل شکست بنایا۔
ہر سال مئی کی اٹھائیس تاریخ کو پاکستانی قوم یوم تکبیر مناتی ہے اور حکمران اس یوم تکبیر کا سہارا لے کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس تاریخ کو چاغی کے پہاڑوں میں پے در پے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے اپنی سلامتی کو یقینی بنا دیا۔یہ کارنامہ انجام دینے والے پاکستانی سائنسدان ہیں اور ان کے کمانڈر ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔باقی حکمران تو انگلی کٹوا کر شہیدوں کی صف میں کھڑے ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ رواں برس بھی میری نظر سے کوئی ایسی تقریب نہیں گزری جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سجائی گئی ہو۔ اس رویے کو بے حسی اور احسان فراموشی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا ۔زندگی کے آخری ایام میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا 'وہ پاکستان کی تاریخ میں درج ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے اپنے سائنسدان کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایٹمی دھماکوںکی یاد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے یہ دن موسوم کیا جاتا تاکہ ہماری آیندہ نسلوں کویہ معلوم ہو کہ ان کا اصل محسن کون تھا جس کی بدولت وہ ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جدوجہد کر کے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ مملکت پاکستان بنایا تھا' قائدمحمد علی جناح کا بچا کچھا پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دشمن سے بچایا ہے ۔
میرے والد مرحوم عبدالقادرحسن جو ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مندوں میں شامل رہے ہیں، وہ اپنے کالموں میں ڈاکٹر صاحب کا ہر مشکل وقت میں کامیابی سے دفاع کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کی شفقت اور نیاز مندی میری زندگی کا سرمایہ ہے جس کے لیے انھوں نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ ایک بار مجھے اسلام آباد سے معروف صحافی فاروق فیصل خان کا ٹیلی فون موصول ہوا ، سلام کے ساتھ ہی مبارکباد دی۔
میں نے کہا ، خان صاحب خیریت ہے کس بات کی مبارکباد دے رہے ہیں ۔کہنے لگے، آج آپ کے والد نے وقت کے ڈکٹیٹر کے سامنے ہم اخبار نویسو ں کی لاج رکھ لی ہے۔
قصہ مختصر جنرل پرویز مشرف نے ملک کے کونے کونے سے اخبار نویسوں کو اسلام آباد میں جمع کیا اور پریس کانفرنس میں کہاکہ ڈاکٹر قدیر خان نے ملک کی عزت داؤ پر لگا دی اور وہ اب میرے ہیرو نہیں ہیں ، اس موقع پر عبدالقادر حسن سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ جنرل صاحب آپ کے ہیرو وہ بے شک نہ ہوں لیکن میرے اور اس قوم کے وہ اب بھی ہیرو ہیں۔
ہال میں موجود سامعین پر سکتہ طاری ہو گیا کیونکہ ایک فوجی آمر کے حضور میں گستاخی کا کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا تھا لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی ۔ صدرمشرف بھی موقع کی مناسبت سے اس بات کو بے مزہ ہو کر برداشت کر گئے لیکن میرے اخبار نویس دوستوں کے بقول ملک عبدالقادر حسن نے محفل لوٹ لی تھی۔ دراصل یہ ان کی محسن پاکستان سے عقیدت تھی جس کا اظہار انھوں نے بے ساختہ کر کے ان سے عقیدت اور نیاز مندی کا حق ادا کیا جو کوئی اور شایدہی کرسکے۔
ایسی لاتعداد یادیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ذاتی تعلقات کی نسبت سے جڑی ہوئی ہیں لیکن ان میں سے بعض ایسی یاداشتیں بھی ہیں جو کسی کالم کا حصہ نہیں بن سکتیں۔پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوںنے شبانہ روزمحنت کی جو داستانیں رقم کی ہیں ان کو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کام شاید اﷲ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی طے پارہا تھا کیونکہ جس ملک کی اساس ہی کلمہ طیبہ پر ہو بلاشبہ غیر مرئی طاقتیں ہی اس کی حفاظت فرماتی ہیں۔
ورنہ جو ملک اپنے جماندور دشمن کی وجہ سے دولخت ہو چکا ہو اور دشمن اپنی تما م تر برتری اور خطرناک خواہشوںکے ساتھ بیٹھ جائے اور اس کی طاقت پاکستان کی طاقت کے سامنے ماند پڑ جائے اور وہ جارحیت کی خواہش رکھنے کے باوجود اس سوچ سے کنارہ کش ہو جائے تو یہ سب کچھ ایٹمی طاقت کی وجہ سے ہے، اس کا کریڈٹ ذوالفقارعلی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کی ٹیم کو جاتا ہے۔ جن کی سربراہی کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے۔
گزارش یہ کرنی تھی کہ حکمران وسائل کی فراہمی اور عالمی دباؤ کا کریڈٹ ضرور اپنے کھاتے میں ڈالیں لیکن جن سائنسدانوں نے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے، ان کو بھی ضرور یاد رکھیں اور یوم ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا تعین بھی کردیں۔یہ اس قوم اور آیندہ نسلوں پر احسان ہو گا کہ وہ اپنے محسن کو یاد رکھیں گے ۔
زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں'پاکستانی بھی زندہ قوم ہے 'حکمران مصلحتاً خاموش ہو بھی جائیں لیکن قوم ڈاکٹر عبدالقدیر کو محسن پاکستان کے نام سے یاد کرتی رہے گی۔