حلقہ زنجیر پہ رکھ دی ہے زباں میں نے

ہمارے ہاں میڈیا نے کیا کچھ نہ کہا، اچھا بھی کہا، برا بھی کہا۔ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں مات دینے کے لیے حد سے گزر گئے

Jvqazi@gmail.com

صحافی لوگوں کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے، وہ خبر کے پیچھے بھاگتے ہیں، کون سی بات خبر ہے اور کون سی نہیں، وہ یہ تفریق بھی جانتے ہیں۔ یہ تو ہے ایک سادہ سی تشریح اس مظہر کی جو اپنے جوہر میں اتنا سادہ بھی نہیں۔ کل تک جو خبر دیتے تھے آج کل خبر گھڑنے کے الزام تلے ہیں۔ دنیا بھر کے پریس میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے، کبھی سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور کبھی نہیں بھی کرتے۔

کسی کی پگڑی اچھالی، آزادی صحافت کے نام پر، ایسے بھی ہوا کہ واٹر گیٹ اسکینڈل کو چھاپنے کی جرأت کرتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ نے یہ روایت بھی قائم کی کہ وہ صدر نکسن جیسے امریکا کے صدر کو استعفیٰ پر مجبور بھی کرسکتے ہیں اور یہ بھی ہوا کہ امریکی کورٹ نے کروڑوں ڈالر کے جرمانے بھی لگائے ان اخباروں پر، جب یہ ثابت ہوا کہ انھوں نے کسی کی پگڑی آزادی صحافت کے نام پر اچھال دی ہے۔ یوں کہیے کہ ایک طرف تو Defamation Laws آگئے تو دوسری طرف آزادی اظہار بنیادی حق بن گیا۔ جس پر ہمارا آئین آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 19A کے تحت محفوظ کرتا ہے تو دوسری طرف یہی آئین ہر ایک کو نجی زندگی کے محفوظ ہونے کا بنیادی حق بھی دیتا ہے۔ ایک طرف مفاد عامہ ہے کہ سب کو صحیح، جلد و معروضی خبر ملے تو دوسری طرف یہی مفاد عامہ ہے کہ کوئی کسی کی ذاتی زندگی میں بلاوجہ Intrude نہ کرے۔

ہمارے ہاں میڈیا نے کیا کچھ نہ کہا، اچھا بھی کہا، برا بھی کہا۔ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں مات دینے کے لیے حد سے گزر گئے۔ جو خبر نہیں تھی اس کو خبر کہا۔ جو خبر تھی وہ کھاگئے۔ کچھ کو Monopoly بننے کا شوق ہوا، کچھ نے مذہب کو بیوپار بنالیا۔ آمریتوں کے پیچھے چھپے جمہوریتوں کے پیٹ میں چھرا گھونپا۔ ڈھاکہ میں کیا ہو رہا تھا، وہ ہمیں کچھ بھی خبر نہ دیتے۔جب شام ڈھلی، سقوط ڈھاکا کے ورق الٹے تو یہ کہا کہ جی ہم پر سنسر لگا ہوا تھا۔ ہم سے CIA نے آدھا ملک سربازار لٹوا لیا۔ ہم شیخ مجیب کو غدار کہتے رہے اور جنرل نیازی پر چپ رہے۔

''اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے، لب پہ لاؤں تو میرے ہونٹ سیاہ ہوجائیں''۔ خیبر سے لے کر کراچی میرا وجود ہے۔ کیسے تفریق کروں کہ اس پر ظلم ہو تو چپ، جب مجھ پہ ہو تو بولوں۔ بلوچوں پر جو ستم پہنچے وہ چپ رہے۔ MRD تحریک پر بھی کھل کر نہ لکھ سکے۔ سندھ کی ثقافت پر فقرے کسے کہ جیسے یہ قوم جاہلوں کی قوم ہو۔ ایسی نفرتوں کو دیکھ کر سندھیوں نے اپنی صحافت مضبوط کی، وہ مذہبی نفرتوں کو پھیلانے سے گریز کرتے رہے اور تصوف کے آئینہ دار بن گئے۔ اور جو ان کے آسرے پر رہا وہ مارا گیا۔شور مچایا گیا کہ کہاں گیا سبط حسن کا ''ماضی کا مزار''، ''موسیٰ سے مارکس تک'' کہاں ٹھہرا مولانا آزاد کا غبار خاطر، کدھر گیا ''نسخہ وفا'' فیض کا، کہاں گیا رومی، غالب، میر، داغ، یہ رجعت پرستی کو ہوا دیتے رہے اور وہ آگ لگائی کہ اب ٹھہرنے کا نام نہیں لیتی، سب آزادی صحافت کے نام پر، بہت عزت سے۔

یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہی ہیں جو بے باک ہیں، تو پھر یوں ہی ہوا کہ ''چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے'' جتنا بے باک ہو کر عاصمہ جہانگیر نے بولا ہوگا، جتنا کھل کر ایاز امیر نے لکھا ہوگا، ہمارے وسعت اللہ ، نصرت جاوید بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ ہمارے عباس ناصر ہیں، عائشہ صدیقہ ہیں، بینا سرور، ماروی سرمد، عمر قریشی، حسن مجتبیٰ، رضا رومی، بہت طویل سی لسٹ ہے ایسے لوگوں کی، وہ پھر کیوں اپنی بات نہیں کرتے۔

مگر ایسے بھی ہیں جو ایجنسیوں سے خبر لینے کے لیے، ان کے پھر تھلے لگ جاتے ہیں۔ ایجنسی والے کہتے ہیں کہ اب جب آئے ہو تو یہاں سے جانے کے راستے سارے بند ہیں۔ بڑے بڑے نام بھی کمائے ایسے صحافیوں نے۔ ایسے ایسے اینکر بھی آئے جو اپنی ریٹنگ کے لیے کچھ بھی کرتے تھے۔ Mass Media کے اونچے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جسے Bullet Theory وغیرہ کہتے ہیں۔ یعنی ایسی خبر بناؤ جو گولی کی طرح دماغ پر لگے، ایسے پروگرام کرو جس سے لوگ چپک جائیں۔ ایک طرف رمضان المبارک میں اداکاری کی معراج ہے کہ لوگوں کو رلا دیتے تھے تو پھر شوخی گفتار و عمل میں اپنا ایک نمونہ رکھتے تھے۔ ہر فن مولا ہیں یہ لوگ۔


پھر انھوں نے حکومتیں گرانے کا ٹھیکہ بھی لیا، وہ حکومتیں جو عوام کے ووٹ پر بنی تھیں۔ بہت کچھ ہے ان کی داستان زیست میں جس کا صرف ورق بیان کرسکا ہوں۔ اور وہ بھی اس لیے کہ میں ان سے بہت اختلاف رکھتا ہوں لیکن ان کے اظہار آزادی کے حق کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وقت ان کو بہت کچھ سکھائے گا۔ کیونکہ اس خبر کو لوگوں تک پہنچانے کے دھندے میں کوئی بھی شارٹ کٹ ڈھونڈ کے سب سے آگے نہیں نکل سکتا۔ خبر کے اس دھندے کی بھی کوئی صراط المستقیم ہوتی ہے۔

میرے بھائی رضا رومی پر جب حملہ ہوا، میں اس وقت لاڑکانہ کے اس مندر میں کھڑا تھا جسے کچھ دنوں پہلے جلایا گیا تھا۔ اس لیے کہ میرے شاہ لطیف کی فکر کا بھرم رہ جائے۔ میرے اندر وہ دکھ بھرا ہوا تھا، وہ یوں لگا مجھ پر حملہ تھا۔ اور وہ ایکسپریس اخبار کو حد سے گزر کر نشانہ بنایا گیا۔ یہی تھے جو رضارومی کو صرف ایک ''نجی چینل'' کا اینکر کہتے لکھتے رہے۔

حامد میر میرے دوست ہیں، ان کے والد بھی میرے والد کی طرح یگانہ و یکتا بنگالیوں پر ڈھائے ہوئے مظالم رقم کرتے رہے۔ حامد میر بے باک صحافی ہیں، اسی لیے دو رائے نہیں ہوسکتیں۔

میں، عاصمہ جہانگیر، حاصل بزنجو اور بہت پچھلے سال ان ہی زمانوں میں ڈھاکا میں ساتھ تھے، اپنے والدین کو ملا ہوا ان کی طرف سے قومی نشان لینے گئے تھے اور یہاں ہم پر غداری کے الزام لگ رہے تھے۔ ہم اپنے ملک کے سفیر بن کر گئے تھے، وہ نفرتیں مٹانے کے لیے، وہ فاصلے کم کرنے کے لیے۔

ٹوئٹر پر حامد میر نے مجھے بھی کہا کہ ''آپ اور مجھ کو ایک صاحب غدار سمجھتے ہیں'' ابھی اس نے یہ ٹوئیٹ کیا ہی تھا کہ وہ صاحب بھی جلوہ گر ہوئے ، اس بات کو اپنے ٹوئیٹ میں دہرایا جو بات حامد میر مجھ سے کر رہے تھے۔

کیا کیا معجون و چورن ہماری ریٹنگ کے نام پر بیچا گیا، ایک طویل فہرست ہے۔ اس ملک میں باچا خان غدار ہوئے، یہ ملک اس کو کوئی تحفہ نہ دے سکا، نہ ولی خان کو دے سکا نہ میر غوث بخش بزنجو کو۔ ہمارے ہاں اگر جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی تھے تو میرے والد قاضی فیض محمد بھی تھے۔ دہقانوں کے لیے اپنی زندگی رقم کردی، کہ ہندوستان میں بیٹھے ''گوبند مالہی'' نے ایک ناول رقم کردیا اس کے کردار کو اس کا مصور بنایا۔ کئی ناول میرے والد نے بھی سندھی میں لکھے۔ بھٹو کے دور میں جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ کوئی تحفہ تو کیا بس ایک اعزاز اس ملک میں کسی اور نے تو کیا ان ہی اخباروں کے کالم نگاروں نے غداری کے اعزاز سے نوازا، وہ شخص جو سندھ کے مظلوم لوگوں کی جدوجہد میں، وڈیروں کے خلاف اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا، یہ بات کوئی اور نہیں بلکہ خود بے نظیر بھٹو نے اک جگہ لکھ کر محفوظ کی۔

آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم اپنے پروفیشنل ethics کی نکالی ہوئی لکیروں سے تجاوز نہ کریں گے۔ ہم اس بہانے یا اس بہانے آزادی صحافت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ہم اپنے قبیلے پر کوئی دراڑیں نہیں پیدا ہونے دیں گے اور یہی وہ لوگ چاہتے ہیں۔ وہ لوگ جو شدت کو اور ہوا دے رہے تھے اور استعفوں تک پہنچے تھے وہ Counter Productive ہوتے ہوئے ان ہی لوگوں کا کام کر رہے تھے جو آزادی صحافت پر قدغن لگانا چاہتے ہیں۔ ہماری فوج کو ہماری ضرورت ہے۔ وہ حالت جنگ میں ہے۔ اور مذہبی انتہا پرستی پر اس حکومت سے بھی زیادہ واضح موقف رکھتی ہے، ہم اس وقت ان کے خلاف ہوتے ہوئے پروپیگنڈے سے بھی اجتناب کریں۔
Load Next Story