اعلیٰ عدلیہ وقار یوں بحال ہوتا ہے
2007ء کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی کوششوں سے ایک نئی سپریم کورٹ نے جنم لیا ہے
عالمی جوڈیشنل کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ عدلیہ ہر صورت میں پاکستان کے آئین کا تحفظ کرے گی اور موجودہ حالات میں قانون کی بالادستی کے لیے اس کو اہم کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ تین سال کی طویل اور کٹھن جدوجہد کے بعد عدلیہ نے آزادی حاصل کی ہے۔ 2007ء کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی کوششوں سے ایک نئی سپریم کورٹ نے جنم لیا ہے، سپریم کورٹ نے آئین سے انحراف کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ چند ہفتوں قبل جسٹس خلجی عارف کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھی چیف جسٹس نے بعض اہم باتیں کیں تھیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ کوئی ادارہ آئین اور قانون میں درج اپنے اختیار سے باہر نہیں جا سکتا، جمہوریت کا تحفظ عدلیہ کا مقدس فریضہ ہے۔ تمام اداروں کو جمہوریت کا تحفظ کرنا ہو گا، ہم سب کا فرض ہے کہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے ایک ستون بن جائیں۔ چیف جسٹس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ریاست کا کوئی ادارہ آئین میں درج اپنے اختیار سے باہر نہیں جا سکتا۔ نہ تو انفرادی حقوق کی وجہ سے قومی سلامتی سے غافل رہا جا سکتا ہے اور نہ ہی قومی سلامتی کے نام پر انفرادی حقوق کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اسی توازن کو برقرار رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات عدالت کے فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے لیکن کوئی بھی تنقید ہمیں ہمارے کام سے نہیں روک سکتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے افکار اور فیصلوں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا یہ فیصلہ اٹل ہے کہ پاکستان کے آئین کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا، جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے یا آئین سے ماورا اقدام کو کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کیا جائے گا اور قانون کی بالادستی یقینی بنائی جائے گی۔ اعلیٰ عدلیہ نے جس نئے سفر کا آغاز کیا ہے وہ ہمیں غیر معمولی اس لیے محسوس ہوتا ہے کیونکہ 1954ء سے لے کر 2007ء تک جاری رہنے والی محکومی سے رہائی کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی اعلیٰ عدلیہ کو زیرنگیں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔
دیگر کئی اداروں کی طرح برطانیہ کی جانب سے ہمیں عدلیہ کا بھی ایک منظم ادارہ وراثت میں ملا تھا جس کے ججوں میں پیشہ وارانہ اقدار اور اخلاقیات موجود تھیں۔ جس کا اندازہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس جناب سر عبدالرشید کے رویے سے لگایا جا سکتا ہے جنھوں نے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے کسی بھی طرح کے سماجی میل جول سے مکمل احتراز کیا تا کہ ان کی غیر جانبداروں پر کوئی حرف نہ آ سکے لیکن 1953ء میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے جب وزیر اعظم خواجہ نظام الدین کی حکومت کو نااہل قرار دے کر ختم کیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو بھی تحلیل کر دیا تو حالات بدلنے لگے۔
اسپیکر تمیز الدین خان نے فیصلے کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا جس کے سربراہ جسٹس سر جارج کانٹسٹائن تھے۔ عدالت نے بیوروکریٹ گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دیا جسے مارچ 1955ء کو فیڈرل کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ وفاقی کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کے حق میں فیصلہ دے کر سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا۔ یہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ کا اہم موڑ تھا۔ اس واقعے کے بعد آنے والے فوجی آمروں اور حکمرانوں کے سامنے ججوں نے عملاً ہتھیار ڈال دیے۔ 1958ء میں صدر اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کر کے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا۔ اس وقت بھی جسٹس محمد منیر چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے۔ موصوف نے جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو قانونی مشورے دیے۔ جسٹس منیر کے ایک بار پھر جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا۔
جسٹس منیر نے 1955ء کے فیصلے میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دیا تھا۔ بعد ازاں انھوں نے 1958ء کے پہلے مارشل کو جائز اور قانونی قرار دے کر 1956ء کے آئین کی منسوخی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ ان فیصلوں کے بعد پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے کبھی مستحکم نہ ہو سکے اور ایک ایسا بحران پیدا ہوا جس سے ملک دو لخت ہو گیا۔ جنرل ایوب خان اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے انتخاب کے لیے خود انٹرویو کیا کرتے تھے، ان کی معاونت اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان جنرل محمد موسیٰ کرتے تھے۔ فوجی آمروں کے ہاتھوں اعلیٰ عدلیہ کی بے توقیری اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس صورت حال کے ذمے دار چیف جسٹس محمد منیر اور ان کے ساتھی جج تھے۔ جنرل ایوب خان نے صرف ججوں کے انٹرویو ہی نہیں لیتے تھے بلکہ جسے چاہتے بلا انٹرویو کیے جج مقرر کر دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے حامی سیاستدانوں کو جج بنایا اور اپنے وزیر خارجہ کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے سے بھی احتراز نہیں کیا۔
پاکستان میں دوسرا مارشل لاء 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے مسلط کیا، 1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور سپریم کورٹ نے نے 1972ء میں قرار دیا کہ جنرل یحییٰ خان غاصب تھے۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں تیسرا مارشل لاء نافذ کیا۔ انھیں بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ ان کا ہی مشورہ تھا جس کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 1973ء کے آئین کو منسوخ کرنے سے گریز کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے انھیں بھی راہ سے ہٹا کر جسٹس انوار الحق کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا جنھوں نے مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا اور فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی تفویض کر دیا جس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے آئین کا وہ حلیہ بگاڑا جسے بمشکل 18 ویں ترمیم کے ذریعے ٹھیک کیا جاسکا ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں ماورائے آئین اقدام کرتے ہوئے فوجی انقلاب برپا کیا اور ایمرجنسی کے نام پر پاکستان میں چوتھا مارشل لاء لگا دیا۔ انھوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کل 18 ججوں جن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چھ جج بھی شامل تھے کو پی سی او پر حلف اٹھانے کا حکم دیا اور انکار پر ان سے نجات حاصل کر لی۔ نئے جج بھرتی کیے گئے۔ نئے چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے جنرل پرویز مشرف کے ماورائے آئین اقدام کو بدنام زمانہ نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ سپریم کورٹ نے بلا مانگے انھیں آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے بعد حالات تبدیل ہونے لگے۔ چیف جسٹس نے عدالتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے از خود نوٹس لینے شروع کیے۔ جنرل پرویز مشرف ایک آمر تھے، انھیں یہ بات گوارا نہیں تھی کہ پاکستان میں ان کے علاوہ کوئی ادارہ طاقتور نظر آئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جب پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری اور سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں لوگوں کو مبینہ طور پر لاپتہ کرنے کے واقعات کا اب از خود نوٹس لیا تو جنرل پرویز مشرف غصے سے آگ بگولا ہو گئے۔ انھوں نے چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں طلب کیا اور سختی سے باز پرس کی۔ انھیں گھنٹوں آرمی ہاؤس میں روکا گیا اور مختلف طریقوں سے ان پر مستعفی ہونے کے لیے سخت دباؤ ڈالا گیا۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک تاریخی لمحہ تھا۔ چیف جسٹس کا انکار نئی تاریخ رقم کر سکتا تھا جب کہ ان کا اقرار اعلیٰ عدلیہ کو ماضی کی طرح فوجی طالع آزما کا تابعدار رکھ سکتا تھا۔ چیف جسٹس نے حکم عدولی کی ''گستاخی'' کی۔ اس کے بعد نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔ جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو پی سی او جاری کیا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر کے عملاً ملک میں پانچواں مارشل لاء لگا دیا۔
چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان نے غیر آئینی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور ایمرجنسی کے نفاذ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ 1954ء میں جسٹس منیر کے فیصلے سے آمر حکمرانوں کے سامنے اعلیٰ عدلیہ کی تابعداری کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کا اختتام 2007ء میں ہوا جب اعلیٰ عدلیہ نے پانچویں مارشل لا کو قانونی جواز دینے سے انکار کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ججوں اور ان کے اہل خانہ کو حراست میں رکھا لیکن وہ اپنے اٹل ارادے پر قائم رہے۔ عوام عدلیہ کی پشت پر تھے۔ پھر وہ وقت آیا جب آمریت پسپا ہوئی اور نئے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 21 مارچ 2008ء کو ججوں کو حراست سے رہا کر کے انھیں بحال کرنے کا تاریخی اعلان کیا۔
آئین کی بالادستی، جمہوریت کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی جیسے اصولوں پر قائم رہنے اور کسی بھی صورت میں آمریت اور غیر آئینی و غیر جمہوری مداخلت کو برداشت نہ کرنے کے عزم کا اعلان کر کے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ملک کے تمام اداروں کے لیے یہ روشن مثال قائم کی ہے کہ ہر ادارہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کر کے کس طرح اپنا وقار بحال اور ایک نئے سفر کا شاندار آغاز کر سکتا ہے۔