نظریہ ضرورت والی سیاسی جماعتیں

پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک سیکولر اور سوشلسٹ ریاست کے تصورکو تقویت دی


Dr Tauseef Ahmed Khan June 01, 2023
[email protected]

تحریک انصاف بکھر رہی ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک تحریک انصاف کی اس صورتحال سے سیاسی کلچر کمزور ہورہا ہے اور پبلک اسپیس کم ہو رہی ہے مگر سیاسیات کے طالب علموں کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایک پاپولر جماعت کے اکثر رہنما محض 10 دن کا دباؤ برداشت نہیں کر پا رہے ہیں، یوں سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ ضروری ہوگا۔

متحدہ ہندوستان میں ایک انگریز نے 1885 میں سب سے پہلی سیاسی جماعت کانگریس قائم کی مگر 19ویں صدی کے اختتام اور 20 ویں صدی کے آغاز پر کانگریس قوم پرستوں کی جماعت بن گئی۔ مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کا نظریہ دیا۔

پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک سیکولر اور سوشلسٹ ریاست کے تصورکو تقویت دی۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسے جید عالم کے سیکولر نظریات کی حمایت سے کانگریس میں جمہوری رویہ مستحکم ہوا۔ کانگریس کے رہنماؤں نے انگریز حکومت کے خاتمہ کے لیے کئی تحریکیں چلائیں۔ ان تحریکوں کوکچلنے کے لیے انگریز حکومت نے تمام حربے استعمال کیے۔

'ہندوستان چھوڑو دو' تحریک کے دوران ایک وقت آیا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو، ان کی اہلیہ، بیٹی اندرا اور بہنیں جیل بھیج دی گئیں۔ مہاتما گاندھی نے طویل جدوجہد میں خاصا حصہ جیل میں گزارا۔ مولانا ابو الکلام آزاد بہت کم عمری میں جیل بھیج دیے گئے۔

انھیں احمد نگر کے قلعہ میں 4 سال سے زیادہ تک قید میں رکھا گیا۔ جب مولانا ابو الکلام آزاد رہا ہوئے تو جیلر نے ان کی ڈاک ان کے حوالہ کی۔ اس ڈاک میں وہ خط بھی شامل تھا جس میں ان کی اہلیہ کے انتقال کی اطلاع دی گئی، مگر ان رہنماؤں کے عزم میں فرق نہ آیا کہ مولانا حسرت موہانی کو اپنے جریدہ ''اردو معلیٰ'' میں ایک مضمون کے مصنف کا نام ظاہر نہ کرنے پر، 4 سال قید اور جرمانہ کیا گیا۔

خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کو پہلے انگریزوں نے کئی برسوں تک جیل میں رکھا۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی اور بیٹوں کو بھی کئی برسوں تک ملک کی مختلف جیلوں میں بند رکھا گیا۔ بلوچستان کے رہنما عبدالصمد اچکزئی بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے انگریزوں اور پھر پاکستانی حکمرانی میں جیلیں کاٹیں۔ ملک میں سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی، تو کمیونسٹ پارٹی کے رہنما روپوش ہوئے اورگرفتارکر لیے گئے۔

کمیونسٹ پارٹی کے رکن حسن ناصرکو ایوب خان کے دورِ اقتدار میں لاہور کے شاہی قلعہ میں بیہمانہ تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو اور مولانا بھاشانی، عوامی لیگ کے رہنما ، حسین شہید سہروردی اور شیخ مجیب الرحمن نے طویل جیل کاٹی۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، ان کی اہلیہ نصرت بھٹو، بیٹی بے نظیر بھٹو، دیگر رہنما اور ہزاروں کارکنوں نے برسوں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔

جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی اور متعدد کارکنوں کو سزائے موت دی تھی مگر پیپلز پارٹی متحد رہی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور دیگر رہنماؤں نے پرویز مشرف دور اور پھرسابقہ دور میں جیلوں میں طویل وقت گزارا۔ آصف زرداری بھی آٹھ سال جیل میں گزار آئے۔

اس کے مقابلہ میں وہ سیاسی جماعتیں بھی سیاسی افق پر نظر آتی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت قائم کیں۔ صدر اسکندر مرزا نے 50ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ریپبلک پارٹی بنائی جو ان کے اقتدار کے خاتمہ کے ساتھ رخصت ہوئی، جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار کو دوم دینے کے لیے کنونشن مسلم لیگ قائم کی۔ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما چوہدری خلیق الزمان کنونشن لیگ کے پہلے صدر تھے۔ ایوب خان صدر بن گئے مگر ایوب خان کے اقتدارکا سورج غروب ہوتے ہی یہ جماعت تاریخ کے کوڑے دان میں کھوگئی۔

جنرل ضیاء الحق نے مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کی سرپرستی کی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے۔ سابق صدر فاروق لغاری نے ملت پارٹی قائم کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی جماعت کو مسلم لیگ ق میں ضم کر لیا گیا۔ پرویز مشرف حکومت نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ قائم کی مگر پرویز مشرف کے اقتدار سے رخصت ہونے کے ساتھ پیٹریاٹ پیپلز پارٹی تحلیل ہوگئی اور مسلم لیگ ق سکڑ گئی۔ بلوچستان میں اچانک ''باپ'' پارٹی ابھر کر سامنے آئی۔ 80ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں مہاجر قومی موومنٹ قائم ہوئی۔

یہ متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔ ایم کیو ایم کے بانی قائدکی ایک متنازعہ تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنے قائد کو خدا حافظ کیا ۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں کرپشن کو ایک اہم مسئلہ کے طور پر ابھارا گیا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں برادران پر کرپشن کا الزام لگا کر اسے بطور کارڈ کے استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار ہوئی۔ اس وقت بائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری قیادت 2002کے انتخابات میں ایوانِ صدر کی طرف دیکھتے رہے۔ کرپشن کے خاتمہ کے فلسفہ سے بہت سے نوجوان متاثر ہوئے اور ان میں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ 2010 تک اس کے بیانیہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں اسلام آباد میں دھرنے دیے گئے۔برسراقتدار سیاست دانوں پر الزامات پر مبنی بیانیہ اختیار کیا گیا۔

طالبان کی تحریک کی حمایت کی گئی۔ کرپشن کے خاتمہ کے بیانیہ کی پنجاب کی ایلیٹ میں بڑی پذیرائی ہوئی، سابق حکومت ایک طرف طالبان کے حامیوں اور دوسری طرف مغربی کلچر کی زندگی گزارنے والے خاندان اور ان کے حامیوں میں مقبول تھی۔سابق حکومت نے سوشل میڈیا کو اس طرح استعمال کیا کہ وہ نوجوانوں کے لیے پی ٹی آئی قائد مقبول شخصیت بن گئے۔ ایک منصوبہ کے تحت بہت سے الیکٹیبل ساتھ شامل ہو گئے۔

عدلیہ نے میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو نہ صرف جیل بھجوا دیا بلکہ انتخابات کی دوڑ سے دور کر دیا۔ یوں میڈیا کی آزادی کو ریگولیٹ کیا گیا اور مخالف سیاسی رہنماؤں کے لیے زمین تنگ کی گئی اورسابق حکومت کے کرتا دھرتا یہ محسوس کرنے لگے کہ ہر ریاستی ادارے میں ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، یوں ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا، یوں وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا گئے۔

حکومت کے آئینی خاتمے کے بعدامریکا پرالزام عائد کرکے پاکستان اور امریکا کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔ موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی نے ان کی مدد کی۔ پی ٹی آئی نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد تبدیل ہونے والے حقائق کو محسوس نہیں کیا اور اس کی وجہ سے سانحہ 9مئی کو ہوا۔اس کے نتیجے میں ملک کی مقبول ترین جماعت کہلانے والی بتاشے کی طرح بکھرنے لگی مگر تاریخ میں ایسے واقعات کئی بار دیکھنے میں آئے ہیں۔

معاشرہ میں غیر سیاسی کلچر پروان چڑھا ہے 'سیاستدانوں کو حقیقت کی دنیا میں آجانا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ سے امید لگانے کا سلسلہ بند کرنا چاہیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت بنائی جانے والی سیاسی جماعتوں کا یہی حال ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔