امارات کا اگلا خلائی مشن سیارچی پٹی پر تحقیق کے لیے مخصوص
دو ٹن وزنی ’ایم بی آرایکسپلورر‘ سیارچی پٹی تک جانے سے پہلے چھ اہم اور بڑے سیارچوں پر تحقیق بھی کرے گا
متحدہ عرب امارات نے مریخ کے کےمشن کی کامیابی کے بعد اب اس سے بھی دور نظامِ شمسی کی سیارچی پٹی کی تسخیر کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی لیے سال 2028 میں ایک جدید خلائی جہاز ایسٹرائیڈ بیلٹ کی جانب روانہ کیا جائے گا۔
اس منصوبے میں امارتی مشن برائے سیارچی پٹی یا ای ایم اے کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اپنی حتمی منزل تک پہنچنے سے قبل چھ بڑے سیارچوں (ایسٹرائیڈز) کے قریب سے گزرکروہاں کا مطالعہ کرے گا۔ ان میں ایک قدرے پراسرار سرخ سیارچہ بھی ہے جس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ اس نے زمین پر حیات کی ابتدا میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔
یہ اہم سیارچہ 2021 میں دریافت ہوا جو 30 میل وسیع ہے۔ اسے 269 جسٹیشیا کا نام دیا گیا ہے جو معلومہ دو سرخ سیارچوںمیں سے ایک ہے۔ اس کی خاص رنگت نامیاتی مرکبات کی وجہ سے سے جنہیں 'تھولنز' کا نام دیا ہے۔ یہ عناصر کیوپر بیلٹ کے برفیلے اجسام کے مقابلے میں زیادہ عام پایا جاتا ہے۔
اماراتی خلائی ایجنسی کے مطابق اس منصوبے کے دو اہم اہداف ہیں اول سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی حاصل کرنا اور دوم ملک میں کمرشل خلائی ٹیکنالوجی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ واضح رہے کہ خلائی مشن کا نام متحدہ عرب امارات کےوزیرِ اعظم شیخ محمد بن راشد المختوم کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اگلے چھ برس تک اس پر زوروشور سے کام کیا جائے گا۔ 2028 میں زمین چھوڑنے کے بعد 2030 کو پہلے سیارچے تک پہنچے گا۔
اس پر لگا طیف نگار اطالوی خلائی ایجنسی تیار کرے گی جبکہ امریکا میں مالِن خلائی کمپنی دو جدید کیمرے بھی تیار کرے گی۔ اس کے ساتھ جامعہ کولاراڈو نے بھی اس مشن میں اشتراک کیا ہے۔
واضح رہے کہ مریخ کے پاس سیارچی پٹی (ایسٹرائیڈ بیلٹ) موجود ہے جہاں لاتعداد چھوٹے بڑے اجسام زیرِ گردش ہیں۔
اس منصوبے میں امارتی مشن برائے سیارچی پٹی یا ای ایم اے کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اپنی حتمی منزل تک پہنچنے سے قبل چھ بڑے سیارچوں (ایسٹرائیڈز) کے قریب سے گزرکروہاں کا مطالعہ کرے گا۔ ان میں ایک قدرے پراسرار سرخ سیارچہ بھی ہے جس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ اس نے زمین پر حیات کی ابتدا میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔
یہ اہم سیارچہ 2021 میں دریافت ہوا جو 30 میل وسیع ہے۔ اسے 269 جسٹیشیا کا نام دیا گیا ہے جو معلومہ دو سرخ سیارچوںمیں سے ایک ہے۔ اس کی خاص رنگت نامیاتی مرکبات کی وجہ سے سے جنہیں 'تھولنز' کا نام دیا ہے۔ یہ عناصر کیوپر بیلٹ کے برفیلے اجسام کے مقابلے میں زیادہ عام پایا جاتا ہے۔
اماراتی خلائی ایجنسی کے مطابق اس منصوبے کے دو اہم اہداف ہیں اول سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی حاصل کرنا اور دوم ملک میں کمرشل خلائی ٹیکنالوجی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ واضح رہے کہ خلائی مشن کا نام متحدہ عرب امارات کےوزیرِ اعظم شیخ محمد بن راشد المختوم کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اگلے چھ برس تک اس پر زوروشور سے کام کیا جائے گا۔ 2028 میں زمین چھوڑنے کے بعد 2030 کو پہلے سیارچے تک پہنچے گا۔
اس پر لگا طیف نگار اطالوی خلائی ایجنسی تیار کرے گی جبکہ امریکا میں مالِن خلائی کمپنی دو جدید کیمرے بھی تیار کرے گی۔ اس کے ساتھ جامعہ کولاراڈو نے بھی اس مشن میں اشتراک کیا ہے۔
واضح رہے کہ مریخ کے پاس سیارچی پٹی (ایسٹرائیڈ بیلٹ) موجود ہے جہاں لاتعداد چھوٹے بڑے اجسام زیرِ گردش ہیں۔