انٹر کی داخلہ پالیسی تبدیل داخلے میرٹ کے بجائے ضلعی بنیادوں پر ہوں گے
نئی پالیسی کے تحت اے ون اور ڈی گریڈ لینے والے طلبا ایک ہی کالج میں تعلیم حاصل کرسکیں گے
کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹر سال اول کے داخلوں کے لیے گزشتہ 23 برس سے رائج "مرکزی داخلہ پالیسی" یا (سی کیپ) کو دو دہائیوں بعد تبدیل کیا جارہا ہے، اب نئی پالیسی کے تحت انٹر سال اول کے داخلے 70 فیصد ضلعی بنیادوں پر جبکہ صرف 30 فیصد اوپن میرٹ پر ہوں گے۔
نئی پالیسی کے تحت اب اے ون گریڈ اور ڈی گریڈ میں میٹرک کرنے والے طلبا ایک ہی کالج اور ایک ہی کمرہ جماعت میں تدریسی عمل میں شامل ہوں گے اور زیادہ پرسنٹیج یا اے ون گریڈ کو داخلے دینے کے حوالے سے معروف سرکاری کالجوں میں اب سی، ڈی اور ای گریڈ میں میٹرک کرنے والے طلبا بھی داخلہ لے سکیں گے۔
ان کے یہ داخلے ضلعی بنیادوں پر ہوں گے اور کراچی کے ساتوں اضلاع کے طلبا اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ اپنے رہائشی ضلع میں قائم کالج میں ہی داخلے کے لیے درخواست دیں اور داخلہ لیں ، صرف 30 فیصد نشستیں دیگر اضلاع کے طلبا کے لیے مخصوص ہوں گی جن کے داخلے اس عہد نامے کی بنیاد پر دیے جائیں گے کہ وہ متعلقہ کالج میں ہی کلاسیں لیں گے۔
ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ پروفیسر شاداب احمد نے "ایکسپریس " کے رابطہ کرنے پر اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرنسپلز پر مشتمل کمیٹی جس کے کنوینر ریجنل ڈائریکٹر کالجز ہیں وہ اس تجویز پر کام کررہی ہے جو تقریباً حتمی ہے۔
چند روز میں اس تجویز کی منظوری سیکریٹری کالج ایجوکیشن اور وزیر تعلیم سے بھی لے لی جائے گی جس کے بعد انٹر سال اول کے داخلے اس نئے مرکزی داخلہ پالیسی کی بنیاد پر ہوں گے، تاہم یہ داخلے گزشتہ برس کی طرح نویں جماعت کے نتائج کی بنیاد پر ہی دیے جائیں گے اور کالجوں میں انٹر سال اول کا سیشن یکم اگست سے شروع ہو جائے گا۔
ایک سوال پر ڈی جی کالجز کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک سروے کیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلبا کالج میں اس لیے نہیں آتے کہ کالج ان کے گھروں سے بہت دور ہوتے ہیں۔
رائج داخلہ پالیسی میں ان کے داخلے پرسنٹیج کی بنیاد پر گھروں سے دور قائم کالجوں میں ہوجاتے ہیں، معاشی حالات اور ٹرانسپورٹ کے زائد کرایوں کے سبب طلبا کالج نہیں آتے، نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد اب یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طلبا داخلوں کے لیے پورٹل پر ہی درخواست دیں گے لیکن اب ان کے سامنے ان کے ضلع کے کالجوں کے نام ہی پورٹل پر آئیں گے۔
علاوہ ازیں مرکزی داخلہ پالیسی سے کافی عرصے تک منسلک رہنے والے ایک سابق پرنسپل کا کہنا تھا کہ "سی کیپ" ایک فلٹر پالیسی تھی جس میں انتہائی ذہین اور اوسط درجے کے طلبا علیٰحدہ علیٰحدہ ہوجاتے ہیں، پھر دونوں کیٹگریز کے طلبہ اپنا تعلیمی راستہ خود متعین کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل، انجینیئرنگ اور دیگر ضابطوں میں بھی طلبہ جامعات کے لیے رجحان ٹیسٹ دے کر فلٹر کیے جاتے ہیں پھر ذہین طلبا ہی آگے بڑھتے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اے ون گریڈ اور سی گریڈ کے طالب علم کی اکیڈمک حوالے سے ذہنی استطاعت ایک ہی ہو، ایک طالب علم ریاضی میں 90 مارکس لے کر آیا اور دوسرا 50 مارکس لے کر پاس ہوا ہو، یہ دونوں ایک ساتھ کیسے پڑھیں گے۔
علاوہ ازیں اس پالیسی کے تخلیق کاروں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ بڑے اور معروف کالجوں کی شناخت ختم کرنے جارہا ہے کیونکہ اس عمل سے کالجوں کے انٹر کے نتائج پر اثر پڑے گا۔
جن کالجوں کا انٹرمیڈیٹ میں اے ون اور اے کے علاوہ تیسرا کوئی گریڈ نہیں آتا اب ان کالجوں کے نتائج گر جائیں گے کیونکہ ممکن نہیں ہوگا کہ میٹرک میں سی گریڈ سے پاس ہونے والا طالب علم انٹر میں اے اور اے ون گریڈ لے سکے۔
ایک کالج پرنسپل کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ جو 30 فیصد داخلے اوپن میرٹ پر ہوں گے وہاں میرٹ کیسے اور کس بنیاد پر طے ہوگا۔ پرنسپل نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ 30 فیصد داخلے کسی فریم ورک کے بجائے مرضی سے طے کیے گئے میرٹ پر دے دیے جائیں اور دیگر اضلاع کے سفارش داخلے بھی ہوجائیں۔
واضح رہے کہ پرنسپلز اور کالج اساتذہ کو سیاسی اور طلبہ تنظیموں کے دبائو سے بچانے اور سفارشی داخلوں کا راستہ روکنے کے لیے کراچی میں مرکزی داخلہ پالیسی سن 2000 میں شروع کی گئی تھی۔
کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹر سال اول میں اوپن میرٹ پر مرکزی داخلہ پالیسی کے تحت داخلے سن 2000 میں پہلی بار داخلے دیے گئے اور یہ سلسلہ 23 سال تک کامیابی سے چلتا رہا۔
تاہم دو سال قبل کچھ کالجوں میں cut of marks نیچے لانے کا معاملہ رپورٹ ہوا تاکہ نسبتاً کم پرسنٹیج کے طلبا کو بھی بڑے اور معروف کالجوں میں داخلہ دیا جاسکے تاہم اچانک گزشتہ برس کراچی کے معروف ڈی جے سائنس کالج میں کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں سی اور ڈی گریڈ کو بھی داخلے دیے جانے کا انکشاف ہوا۔
یہ معاملہ سامنے لانے والے پرنسپل کا وہاں سے تبادلہ کردیا گیا اور کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے سارا ملبہ پرنسپل پر ڈالتے ہوئے آخر کار ان داخلوں کو دیگر کالجوں میں منتقل کیا۔
نئی پالیسی کے تحت اب اے ون گریڈ اور ڈی گریڈ میں میٹرک کرنے والے طلبا ایک ہی کالج اور ایک ہی کمرہ جماعت میں تدریسی عمل میں شامل ہوں گے اور زیادہ پرسنٹیج یا اے ون گریڈ کو داخلے دینے کے حوالے سے معروف سرکاری کالجوں میں اب سی، ڈی اور ای گریڈ میں میٹرک کرنے والے طلبا بھی داخلہ لے سکیں گے۔
ان کے یہ داخلے ضلعی بنیادوں پر ہوں گے اور کراچی کے ساتوں اضلاع کے طلبا اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ اپنے رہائشی ضلع میں قائم کالج میں ہی داخلے کے لیے درخواست دیں اور داخلہ لیں ، صرف 30 فیصد نشستیں دیگر اضلاع کے طلبا کے لیے مخصوص ہوں گی جن کے داخلے اس عہد نامے کی بنیاد پر دیے جائیں گے کہ وہ متعلقہ کالج میں ہی کلاسیں لیں گے۔
ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ پروفیسر شاداب احمد نے "ایکسپریس " کے رابطہ کرنے پر اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرنسپلز پر مشتمل کمیٹی جس کے کنوینر ریجنل ڈائریکٹر کالجز ہیں وہ اس تجویز پر کام کررہی ہے جو تقریباً حتمی ہے۔
چند روز میں اس تجویز کی منظوری سیکریٹری کالج ایجوکیشن اور وزیر تعلیم سے بھی لے لی جائے گی جس کے بعد انٹر سال اول کے داخلے اس نئے مرکزی داخلہ پالیسی کی بنیاد پر ہوں گے، تاہم یہ داخلے گزشتہ برس کی طرح نویں جماعت کے نتائج کی بنیاد پر ہی دیے جائیں گے اور کالجوں میں انٹر سال اول کا سیشن یکم اگست سے شروع ہو جائے گا۔
ایک سوال پر ڈی جی کالجز کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک سروے کیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلبا کالج میں اس لیے نہیں آتے کہ کالج ان کے گھروں سے بہت دور ہوتے ہیں۔
رائج داخلہ پالیسی میں ان کے داخلے پرسنٹیج کی بنیاد پر گھروں سے دور قائم کالجوں میں ہوجاتے ہیں، معاشی حالات اور ٹرانسپورٹ کے زائد کرایوں کے سبب طلبا کالج نہیں آتے، نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد اب یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طلبا داخلوں کے لیے پورٹل پر ہی درخواست دیں گے لیکن اب ان کے سامنے ان کے ضلع کے کالجوں کے نام ہی پورٹل پر آئیں گے۔
علاوہ ازیں مرکزی داخلہ پالیسی سے کافی عرصے تک منسلک رہنے والے ایک سابق پرنسپل کا کہنا تھا کہ "سی کیپ" ایک فلٹر پالیسی تھی جس میں انتہائی ذہین اور اوسط درجے کے طلبا علیٰحدہ علیٰحدہ ہوجاتے ہیں، پھر دونوں کیٹگریز کے طلبہ اپنا تعلیمی راستہ خود متعین کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل، انجینیئرنگ اور دیگر ضابطوں میں بھی طلبہ جامعات کے لیے رجحان ٹیسٹ دے کر فلٹر کیے جاتے ہیں پھر ذہین طلبا ہی آگے بڑھتے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اے ون گریڈ اور سی گریڈ کے طالب علم کی اکیڈمک حوالے سے ذہنی استطاعت ایک ہی ہو، ایک طالب علم ریاضی میں 90 مارکس لے کر آیا اور دوسرا 50 مارکس لے کر پاس ہوا ہو، یہ دونوں ایک ساتھ کیسے پڑھیں گے۔
علاوہ ازیں اس پالیسی کے تخلیق کاروں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ بڑے اور معروف کالجوں کی شناخت ختم کرنے جارہا ہے کیونکہ اس عمل سے کالجوں کے انٹر کے نتائج پر اثر پڑے گا۔
جن کالجوں کا انٹرمیڈیٹ میں اے ون اور اے کے علاوہ تیسرا کوئی گریڈ نہیں آتا اب ان کالجوں کے نتائج گر جائیں گے کیونکہ ممکن نہیں ہوگا کہ میٹرک میں سی گریڈ سے پاس ہونے والا طالب علم انٹر میں اے اور اے ون گریڈ لے سکے۔
ایک کالج پرنسپل کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ جو 30 فیصد داخلے اوپن میرٹ پر ہوں گے وہاں میرٹ کیسے اور کس بنیاد پر طے ہوگا۔ پرنسپل نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ 30 فیصد داخلے کسی فریم ورک کے بجائے مرضی سے طے کیے گئے میرٹ پر دے دیے جائیں اور دیگر اضلاع کے سفارش داخلے بھی ہوجائیں۔
واضح رہے کہ پرنسپلز اور کالج اساتذہ کو سیاسی اور طلبہ تنظیموں کے دبائو سے بچانے اور سفارشی داخلوں کا راستہ روکنے کے لیے کراچی میں مرکزی داخلہ پالیسی سن 2000 میں شروع کی گئی تھی۔
کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹر سال اول میں اوپن میرٹ پر مرکزی داخلہ پالیسی کے تحت داخلے سن 2000 میں پہلی بار داخلے دیے گئے اور یہ سلسلہ 23 سال تک کامیابی سے چلتا رہا۔
تاہم دو سال قبل کچھ کالجوں میں cut of marks نیچے لانے کا معاملہ رپورٹ ہوا تاکہ نسبتاً کم پرسنٹیج کے طلبا کو بھی بڑے اور معروف کالجوں میں داخلہ دیا جاسکے تاہم اچانک گزشتہ برس کراچی کے معروف ڈی جے سائنس کالج میں کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں سی اور ڈی گریڈ کو بھی داخلے دیے جانے کا انکشاف ہوا۔
یہ معاملہ سامنے لانے والے پرنسپل کا وہاں سے تبادلہ کردیا گیا اور کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے سارا ملبہ پرنسپل پر ڈالتے ہوئے آخر کار ان داخلوں کو دیگر کالجوں میں منتقل کیا۔