عافیہ ہم شرمندہ ہیں

کیا عافیہ صدیقی کبھی رہا ہوکر واپس اپنے وطن، اپنوں کے درمیان آسکیں گی؟

مارچ 2003 میں قوم کی اس ہونہار بیٹی کو ’’لاپتہ‘‘ کردیا گیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

دو بہنوں کی بیس سال بعد ملاقات ہو اور درمیان میں شیشے کی دیوار حائل رہے تو جذبات کیا ہوں گے؟ نہ ایک دوسرے کو گلے لگا سکے نہ ہی تسلی دے سکے۔ ظالموں نے اتنا خیال بھی نہ کیا پابند سلاسل بہن کو اس کے بچوں کی تصاویر دکھانے کی اجازت ہی دے دیتے۔


یہ منظر امریکی ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں ''قوم کی بیٹی'' عافیہ صدیقی اور ان کی بہن فوزیہ صدیقی کی ملاقات کا ہے۔ تین گھنٹے کی مختصر ملاقات بیس سال کی جدائی اور غموں کا مداوا کہاں کرپائی ہوگی۔


ان بیس برسوں کے اندوہناک مظالم نے جہاں چھوٹی بہن کو وقت سے بہت پہلے بوڑھا، کمزور اور معذور کردیا وہیں بڑی بہن بھی اپنی پیاری بہن کی رہائی کےلیے بیس برس کی تگ و دو کے بعد اس ''تشنہ ملاقات'' تک رسائی حاصل کرپائی تھی۔ بڑی بہن کےلیے یہ کرب بھی کم نہ تھا کہ شیشے کے پار اس کی چھوٹی بہن کے دانت گرے ہوئے نظر آرہے تھے جبکہ سر پر لگنے والی ایک چوٹ کے باعث اسے سننے میں بھی دقت پیش آرہی تھی۔


آہوں، سسکیوں اور نہ تھمنے والے آنسوؤں کے ساتھ ملاقات کا وقت تو ختم ہوگیا لیکن دل کا کرب کیسے مٹ سکتا ہے۔ ان بیس برسوں کی جدائی کا زخم کیسے مندمل ہوسکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت پر لگائے اڑ جاتا ہے، لیکن غیروں کی قید میں قوم کی بیٹی کے یہ بیس سال، بیس صدیوں سے کم نہیں ہیں۔ مارچ 2003 میں قوم کی اس ہونہار بیٹی کو ''لاپتہ'' کردیا گیا اور پھر اس کا سراغ گوانتاموبے کی جیل میں ملا جہاں وہ ناکردہ جرائم کی سزا میں قید تھی۔


یہ بلاگ بھی پڑھیے: ڈاکٹر عافیہ صدیقی؛ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شکار



ستم ظریفی دیکھیے کہ انسانی حقوق اور انصاف کی علمبردار ریاست نے ''ناانصافی'' کا وہ مظاہرہ کیا کہ آج تک پوری دنیا میں اس فیصلے پر طعنہ زنی کی جارہی ہے۔ امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں86 سال کی سزا سنائی جس کی نظیر شاید کسی اور قانونی فیصلے میں نہ مل سکے۔ امریکی عدالت نے اپنے اس فیصلے سے خود انصاف کا خون کردیا۔


افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ پاکستانی حکومتوں پر اپنی اس قوم کی بیٹی کے حوالے سے ہمیشہ ازلی بے حسی طاری رہی۔ کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس نے حقیقی معنوں میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں کی ہوں۔ صرف روایتی بیان بازی اور لفظوں کی شعبدہ گری سے قوم کو بہلانے کی کوشش کی گئی۔ وعدے، وعید، دعوے کیے گئے لیکن سب رائیگاں گئے۔ قومی غیرت اور حمیت کا جاگنا بھی سمندر کا جھاگ ثابت ہوا۔ صرف باتیں بنائی گئیں لیکن قوم کی یہ بیٹی آج بھی غیروں کی قید میں ہے۔ جیل میں قید اِس بیٹی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُس کی ماں اُس کی راہ تکتے اس دنیا سے کب کی رخصت ہوچکی۔ قوم کی یہ بیٹی اپنی گرفتاری کے وقت اپنے نوزائیدہ بیٹے کےلیے بھی فکرمند ہے لیکن کسی کو علم نہیں کہ اس وقت چھ ماہ کا سلمان زندہ بھی ہے یا نہیں؟


کیا قوم کی اس بیٹی کو انصاف ملے گا؟ کیا عافیہ صدیقی کبھی رہا ہوکر واپس اپنے وطن، اپنوں کے درمیان آسکیں گی؟ ان سب باتوں کا انحصار پاکستانی حکومت کی جانب سے پرخلوص کوششوں پر ہے۔ اگر پاکستانی حکومت واقعی چاہے تو عافیہ وطن واپس آسکتی ہے وگرنہ یونہی باتیں بنتی رہیں گی اور لوگ اپنی سیاست چمکانے میں یہ بھول بیٹھیں گے کہ قوم کی بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں یوں غیروں کے حوالے نہیں کی جاتیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story