امر بالمعروف و نہی عن المنکر
تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے انسان کی پوری زندگی کتاب وسنت کے مطابق ہوجائے
ایک انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا، اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک گم راہی کا راستہ اور دوسرا حق اور نجات کا، گم راہی کے راستے کی دعوت دینے والا شیطان ہوتا ہے۔
حق کے راستے کی دعوت والے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام اور ان کے اصحاب رضی اﷲ عنہم اور صالحین امت و علمائے کرام ہوتے ہیں، جن کا کام ہدایت والے راستے کی راہ نمائی کرنا اور گم راہیوں والے راستے سے روکنا ہوتا ہے، جس کو تبلیغ اور دعوت کہتے ہیں۔
تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے انسان کی پوری زندگی کتاب وسنت کے مطابق ہوجائے۔ رب چاہی زندگی گزاریں اور من چاہی زندگی سے اجتناب کریں۔ اسی لیے تو اﷲ تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ اور آخر میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تھا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور شرائط:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون اور فروع دین میں سے ہیں۔ قرآن کریم اور معصوم راہ نماؤں نے اس فریضہ کے بارے میں کافی تاکید کی ہے۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دوسر ے ادیان آسمانی نے بھی اپنے تربیتی احکام کو جاری کرنے کے لیے ان کا سہارا لیا ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا معنی:
امر یعنی فرمان اور حکم دینا۔ نہی یعنی روکنا اور منع کرنا۔ معروف یعنی پہچانا ہوا، نیک، اچھا اور منکر یعنی ناپسند، ناروا اور بد۔ اصطلاح میں معروف ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو اطاعت پروردگار اور اس سے تقرب اور لوگوں کے ساتھ نیکی کے عنوان سے پہچانی جائے اور ہر وہ کام جسے شارع مقدس نے بُرا جانا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے اسے منکر کہتے ہیں۔
معروف اور منکر کے وسیع دائرے :
معروف اور منکر صرف جزئی امور ہی میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے معروف ہر اچھے اور پسندیدہ کام اور منکر ہر بُرے اور ناپسند کام کو شامل ہے۔
دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروع دین، سچ بولنا، وعدہ کو وفا کرنا، صبر و استقامت، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و درگذر، امید و رجائ، راہ خدا میں انفاق، صلۂ رحمی، والدین کا احترام، سلام کرنا، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق کی رعایت، حجاب اسلامی کی رعایت، طہارت و پاکیزگی، ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اور دیگر امور حسنہ۔ اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں جنہیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسندیدہ شمار کیا ہے۔
جیسے: ترک نماز و روزہ، حسد، کنجوسی، جھوٹ، تکبّر، غرور، منافقت، عیب جوئی او ر تجسس، افواہ پھیلانا، چغل خوری، ہوا پرستی، بُرا کہنا، جھگڑ ا کرنا، بے امنی پھیلانا، اندھی تقلید، یتیم کا مال کھا جانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری، رشوت لینا، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرنا وغیرہ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت:
پروردگار عالم کے فرمان کا مفہوم ہے: ''مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں کہ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔'' (سورہ توبہ)
رسول خدا ﷺ ایک خوب صورت مثال میں معاشرے کو ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم : ''اگر کشتی میں سوار افراد میں سے کوئی یہ کہے کہ کشتی میں میرا بھی حق ہے لہٰذا میں اس میں سوراخ کر سکتا ہوں اور دوسرے مسافر اس کو اس کام سے نہ روکیں تو اس کا یہ کام سارے مسافروں کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔
اس لیے کہ کشتی کے غرق ہونے سے سب کے سب غرق اور ہلاک ہوجائیں گے اور اگر دوسرے افراد اس شخص کو اس کام سے روک دیں تو وہ خود بھی نجات پاجائے گا اور دوسرے مسافر بھی۔'' (صحیح بخاری)
اسلام صرف انسانوں کے متعلق ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم نہیں دیتا ہے بلکہ جانوروں کے سلسلہ میں بھی ا س کو اہمیت دی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بوڑھا عابد نماز میں مشغول تھا کہ اس کی نگاہ دو بچوں پر پڑ ی جو ایک مرغے کے پر کو اکھاڑ رہے تھے عابد ان بچوں کو اس کام سے روکے بغیر اپنی عبادت میں مصروف رہا، خدا وند عالم نے اسی وقت زمین کو حکم دیا کہ میرے اس بندے کو نگل جا۔
شرائط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر:
علمائے کرام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ شرائط بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے :
(1) معروف اور منکر کی شناخت :
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو صحیح طریقہ سے انجام دینے کی سب سے اہم شرط معروف اور منکر، ان کے شرائط اور ان کے طریقہ کار کو جاننا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص معروف اور منکر کو نہ جانتا ہو تو وہ کس طرح ا س کو انجام دینے کی دعوت دے سکتا ہے یا اس سے روک سکتا ہے ؟ ایک ڈاکٹر اور طبیب اسی وقت بیمار کا صحیح علاج کر سکتا ہے جب وہ درد، ا س کی نوعیت اور اس کے اسباب و عوامل سے آگاہ ہو۔
(2) تاثیر کا احتمال اور امکان:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوسری شرط امر و نہی کی تاثیر کا احتمال اور امکان پایا جاتا ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک بے کار اور بے مقصد کام نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے حساب و کتاب اور خاص قوانین و شرائط کے ساتھ۔ اس فریضہ کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خدا وند عالم نے اس کو واجب قرار دیا ہے۔
گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر دنیا میں سزا:
گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر آخرت کی سزا تو الگ رہی، اس کے علاوہ دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جو شخص کسی قوم میں ہو اور وہاں گناہ کے کام ہو رہے ہوں وہ گناہ کرنے والوں کو گناہ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو، (پھر بھی) نہ روکے تو اﷲ تعالیٰ (گناہ سے روکنے میں غفلت کرنے والوں کو) مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔'' (ابوداؤد)
اب دنیا میں آنے والے عذاب عمومی بھی ہوسکتے ہیں، جیسے زلزلہ، طوفان، قحط سالی، خشک سالی، مہنگائی، آپس کے لڑائی جھگڑے ، قومیت، وطنیت کے نام پر قتال، ظالم حکم رانوں کا مسلط ہونا وغیرہ۔ اسی طرح خصوصی نوعیت کے مختلف عذاب بھی ہوسکتے ہیں، جیسے ذاتی اور خاندانی دشمنی، اولاد کا نافرمان ہونا، نت نئے بیماریاں، بھوک، افلاس، تنگ دستی وغیرہ، یہ سب اجتماعی انفرادی گناہوں کا وبال ہے۔
گناہ گاروں کی بستی الٹ دی گئی:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ فلاں شہر کو الٹ دو (عذاب میں اس بستی کو الٹ پلٹ دو) اس کے باشندوں سمیت۔ پس جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: باری تعالیٰ! بے شک اس میں تیرا فلاں بندہ ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی ؟ تو ارشاد باری تعالیٰ ہُوا کہ اس شہر کو الٹ دو، اس نیک بند ے پر اور ان لوگوں پر، کیوں کہ میری خاطر (میری نافرمانیوں اور کھلے عام گناہوں کو دیکھ کر) کبھی اس کے چہرے کا رنگ بھی نہیں بدلا۔'' (شعب الایمان)
اور ایک موقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، نیک کاموں کا حکم کیا کرو اور بُرے کاموں سے روکا کرو، ورنہ قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب نازل کرے، پھر تم اس سے (عذاب دور کرنے کی) دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔'' (ترمذی)
حق کے راستے کی دعوت والے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام اور ان کے اصحاب رضی اﷲ عنہم اور صالحین امت و علمائے کرام ہوتے ہیں، جن کا کام ہدایت والے راستے کی راہ نمائی کرنا اور گم راہیوں والے راستے سے روکنا ہوتا ہے، جس کو تبلیغ اور دعوت کہتے ہیں۔
تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے انسان کی پوری زندگی کتاب وسنت کے مطابق ہوجائے۔ رب چاہی زندگی گزاریں اور من چاہی زندگی سے اجتناب کریں۔ اسی لیے تو اﷲ تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ اور آخر میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تھا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور شرائط:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون اور فروع دین میں سے ہیں۔ قرآن کریم اور معصوم راہ نماؤں نے اس فریضہ کے بارے میں کافی تاکید کی ہے۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دوسر ے ادیان آسمانی نے بھی اپنے تربیتی احکام کو جاری کرنے کے لیے ان کا سہارا لیا ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا معنی:
امر یعنی فرمان اور حکم دینا۔ نہی یعنی روکنا اور منع کرنا۔ معروف یعنی پہچانا ہوا، نیک، اچھا اور منکر یعنی ناپسند، ناروا اور بد۔ اصطلاح میں معروف ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو اطاعت پروردگار اور اس سے تقرب اور لوگوں کے ساتھ نیکی کے عنوان سے پہچانی جائے اور ہر وہ کام جسے شارع مقدس نے بُرا جانا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے اسے منکر کہتے ہیں۔
معروف اور منکر کے وسیع دائرے :
معروف اور منکر صرف جزئی امور ہی میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے معروف ہر اچھے اور پسندیدہ کام اور منکر ہر بُرے اور ناپسند کام کو شامل ہے۔
دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروع دین، سچ بولنا، وعدہ کو وفا کرنا، صبر و استقامت، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و درگذر، امید و رجائ، راہ خدا میں انفاق، صلۂ رحمی، والدین کا احترام، سلام کرنا، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق کی رعایت، حجاب اسلامی کی رعایت، طہارت و پاکیزگی، ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اور دیگر امور حسنہ۔ اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں جنہیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسندیدہ شمار کیا ہے۔
جیسے: ترک نماز و روزہ، حسد، کنجوسی، جھوٹ، تکبّر، غرور، منافقت، عیب جوئی او ر تجسس، افواہ پھیلانا، چغل خوری، ہوا پرستی، بُرا کہنا، جھگڑ ا کرنا، بے امنی پھیلانا، اندھی تقلید، یتیم کا مال کھا جانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری، رشوت لینا، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرنا وغیرہ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت:
پروردگار عالم کے فرمان کا مفہوم ہے: ''مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں کہ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔'' (سورہ توبہ)
رسول خدا ﷺ ایک خوب صورت مثال میں معاشرے کو ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم : ''اگر کشتی میں سوار افراد میں سے کوئی یہ کہے کہ کشتی میں میرا بھی حق ہے لہٰذا میں اس میں سوراخ کر سکتا ہوں اور دوسرے مسافر اس کو اس کام سے نہ روکیں تو اس کا یہ کام سارے مسافروں کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔
اس لیے کہ کشتی کے غرق ہونے سے سب کے سب غرق اور ہلاک ہوجائیں گے اور اگر دوسرے افراد اس شخص کو اس کام سے روک دیں تو وہ خود بھی نجات پاجائے گا اور دوسرے مسافر بھی۔'' (صحیح بخاری)
اسلام صرف انسانوں کے متعلق ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم نہیں دیتا ہے بلکہ جانوروں کے سلسلہ میں بھی ا س کو اہمیت دی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بوڑھا عابد نماز میں مشغول تھا کہ اس کی نگاہ دو بچوں پر پڑ ی جو ایک مرغے کے پر کو اکھاڑ رہے تھے عابد ان بچوں کو اس کام سے روکے بغیر اپنی عبادت میں مصروف رہا، خدا وند عالم نے اسی وقت زمین کو حکم دیا کہ میرے اس بندے کو نگل جا۔
شرائط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر:
علمائے کرام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ شرائط بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے :
(1) معروف اور منکر کی شناخت :
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو صحیح طریقہ سے انجام دینے کی سب سے اہم شرط معروف اور منکر، ان کے شرائط اور ان کے طریقہ کار کو جاننا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص معروف اور منکر کو نہ جانتا ہو تو وہ کس طرح ا س کو انجام دینے کی دعوت دے سکتا ہے یا اس سے روک سکتا ہے ؟ ایک ڈاکٹر اور طبیب اسی وقت بیمار کا صحیح علاج کر سکتا ہے جب وہ درد، ا س کی نوعیت اور اس کے اسباب و عوامل سے آگاہ ہو۔
(2) تاثیر کا احتمال اور امکان:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوسری شرط امر و نہی کی تاثیر کا احتمال اور امکان پایا جاتا ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک بے کار اور بے مقصد کام نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے حساب و کتاب اور خاص قوانین و شرائط کے ساتھ۔ اس فریضہ کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خدا وند عالم نے اس کو واجب قرار دیا ہے۔
گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر دنیا میں سزا:
گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر آخرت کی سزا تو الگ رہی، اس کے علاوہ دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جو شخص کسی قوم میں ہو اور وہاں گناہ کے کام ہو رہے ہوں وہ گناہ کرنے والوں کو گناہ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو، (پھر بھی) نہ روکے تو اﷲ تعالیٰ (گناہ سے روکنے میں غفلت کرنے والوں کو) مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔'' (ابوداؤد)
اب دنیا میں آنے والے عذاب عمومی بھی ہوسکتے ہیں، جیسے زلزلہ، طوفان، قحط سالی، خشک سالی، مہنگائی، آپس کے لڑائی جھگڑے ، قومیت، وطنیت کے نام پر قتال، ظالم حکم رانوں کا مسلط ہونا وغیرہ۔ اسی طرح خصوصی نوعیت کے مختلف عذاب بھی ہوسکتے ہیں، جیسے ذاتی اور خاندانی دشمنی، اولاد کا نافرمان ہونا، نت نئے بیماریاں، بھوک، افلاس، تنگ دستی وغیرہ، یہ سب اجتماعی انفرادی گناہوں کا وبال ہے۔
گناہ گاروں کی بستی الٹ دی گئی:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ فلاں شہر کو الٹ دو (عذاب میں اس بستی کو الٹ پلٹ دو) اس کے باشندوں سمیت۔ پس جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: باری تعالیٰ! بے شک اس میں تیرا فلاں بندہ ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی ؟ تو ارشاد باری تعالیٰ ہُوا کہ اس شہر کو الٹ دو، اس نیک بند ے پر اور ان لوگوں پر، کیوں کہ میری خاطر (میری نافرمانیوں اور کھلے عام گناہوں کو دیکھ کر) کبھی اس کے چہرے کا رنگ بھی نہیں بدلا۔'' (شعب الایمان)
اور ایک موقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، نیک کاموں کا حکم کیا کرو اور بُرے کاموں سے روکا کرو، ورنہ قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب نازل کرے، پھر تم اس سے (عذاب دور کرنے کی) دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔'' (ترمذی)