متوقع بجٹ آئی ایم ایف اور عوامی توقعات

عام آدمی اسی الجھن میں رہتا ہے کہ مانیں تو کس کی، نہ مانیں تو کس کی

حکومت کے طرفدار بجٹ کی خوبیاں بتاتے نہیں تھکتے اور اس بات پر داد طلب بھی رہتے ہیںَ فوٹو:فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے آئی آئی ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان ایک نیا بیل آؤٹ پروگرام حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ دوسری جانب امریکی ڈالر اوپن مارکیٹ میں13 روپے سستا ہوا ہے ، توقع ہے کہ ڈالر کا ریٹ مزید گرے گا۔

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پانچ روپے سے آٹھ روپے فی لیٹر تک کمی کردی ہے، بلاشبہ بجٹ سے صرف چند روز قبل بر وقت فیصلوں سے بہتری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔

بجٹ کا اثر اس قدر ہمہ گیر ہوتا ہے کہ ہر عام خاص ایک حد تک اس میں دلچسپی ضرور لیتا ہے۔ ہر نئے بجٹ پر ماہرین اعدا و شمار کا دبستان کھول کر مالی اشاریوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔

حکومت کے طرفدار بجٹ کی خوبیاں بتاتے نہیں تھکتے اور اس بات پر داد طلب بھی رہتے ہیں کہ اس قدر مشکل حالات میں ایسا عوام دوست بجٹ انھی کا کمال تھا۔ اس کے برعکس حکومت مخالف ماہرین اور سیاسی نمایندے اس بجٹ کی ہر کل ٹیڑھی بتاتے نہیں تھکتے۔ حکومتی پارٹی بدل جائے تو توصیف اور تنقید کرنے کی ترتیب الٹ ہو جاتی ہے لیکن توصیف اور تنقید کے نکات ایک سے رہتے ہیں۔

عام آدمی اسی الجھن میں رہتا ہے کہ مانیں تو کس کی، نہ مانیں تو کس کی۔ اس وقت حکومت 2023-2024 کے وفاقی میزانیہ کی تیاریوں کے آخری مراحل میں ہے، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کوشش کریں گے کہ بجٹ میں عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے مگر آئی ایم ایف کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔ ان کے بقول آئی ایم ایف کے 9 ویں جائزے کے لیے سب کچھ ہو چکا ہے۔

گزشتہ حکومت کی وعدہ خلافی کے باعث ملک کو نقصان پہنچا۔ پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کے وقت بدترین پابندیاں لگائی گئی تھیں، تب بھی ہم مشکلات سے نکل آئے تھے، موجودہ مشکل وقت سے بھی جلد نکل آئیں گے۔

دوسری جانب پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے مشن چیف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس کے لیے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں۔ پاکستانی حکام سے بات چیت میں مالی سال 2024کے بجٹ پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

بے شک سابقہ حکومت نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت ختم ہوتی دیکھ کر آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کے برعکس اقدامات اٹھا ئے، جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف نے مجموعی چھ ارب ڈالر کی پہلی قسط کی ادائیگی کے بعد پاکستان کے لیے قرض پروگرام معطل کر دیا جس کی بحالی کے لیے وہ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے ہم ناک رگڑوا رہا ہے اور ایک شرط پوری ہونے کے بعد نئی شرائط تھوپ دیتا ہے، اور تو اور، آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ترقیاتی بجٹ پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے اور اسے پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، ادویات کے نرخوں میں اضافے پر مجبور کیا جاتا رہا اور حکومت بھی اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کے باعث آئی ایم ایف کی ہر شرط قبول پر مجبور ہوتی گئی۔

اسی وجہ سے حکومت کو سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، اگر آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع بجٹ میں مروجہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا گیا اور براہ راست عوام کو متاثر کرنے والے نئے ٹیکس لگائے گئے جس کا عندیہ بھی ملتا ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مزید مہنگائی ''مرے کو مارے شاہ مدار'' کے مصداق ہوگی۔

اس وقت ملک میں پہلے ہی سیاسی عدم استحکام، افراتفری اور انتشار کی کیفیت ہے جس کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، غریب عوام انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دُشوار ہوچکا ہے۔

اُن کی آمدن تو وہی ہے، تاہم اخراجات بے پناہ بڑھ چکے ہیں۔ مہنگائی کا بدترین طوفان اُن کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوا ہے۔ آٹا، چاول، چینی، پتی، تیل، گھی ہر شے کے دام کئی سو گنا بڑھ چکے ہیں۔ غریب آدمی کے لیے اپنے گھر کا معاشی نظام چلانا اتنا سنگین چیلنج ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ بنیادی سہولتوں (بجلی، گیس، ایندھن) کے دام بھی اس دوران تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ لوگوں کے لیے اپنے بچوں کو علم کی روشنی سے منور کرنا آسان نہیں رہا۔ کتنے ہی گھرانے ملک کے طول و عرض میں ایسے ہیں، جہاں آئے روز فاقے راج کرتے ہیں، بچے بھوک سے بلکتے ہیں، ماں باپ اُن کا پیٹ بھرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، بچوں کے بھوک سے بلکنے پر اُن کے کلیجے منہ کو آجاتے ہیں۔


کتنے ہی لوگ اس مشکل صورت حال میں خودکشی ایسا بڑا قدم اُٹھا کر اپنی اور اپنوں کی زندگی کا خاتمہ کرچکے ہیں۔ غریبوں کے لیے حالات کسی طور موافق قرار نہیں دیے جاسکتے۔ اُن کے لیے ہر روز ہی ایک عذاب کے ساتھ شروع اور اختتام پذیر ہوتا ہے۔ سابق دور میں مہنگائی کے نشتر اس بُری طرح اُن پر برسائے گئے کہ وہ اس کے زخموں سے بُری طرح چُور ہیں۔

موجودہ حکومت جب سے بر سر اقتدار آئی ہے، اُس کو غریب عوام کے مصائب اور مشکلات کا نا صرف ادراک ہے، بلکہ وہ ان میں کمی لانے کے لیے کوشاں بھی ہے، لیکن ناقص اقدامات سے سابقین نے جو خرابیاں پیدا کی ہیں، وہ اتنی آسانی سے دُور نہیں کی جاسکتیں۔ اس کے لیے موجودہ حکومت مشکل فیصلے بھی لے رہی ہے۔

اُس کا مطمع نظر معیشت کو استحکام اور عوام کو خوش حالی عطا کرنا ہے۔ اُس کے اقدامات کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں اور آیندہ بھی آئیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف غریب عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور بارہا اس حوالے سے اظہار خیال بھی کرتے رہتے ہیں۔

اسی ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ وفاقی بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات اور غریب و متوسط طبقے کی مالی مشکلات میں کمی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

پنشن ریفارمز کو جلد از جلد حتمی شکل دی جائے، تخلیقی طریقہ کار اپناتے ہوئے پنشن فنڈ قائم کیا جائے، محصولات بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے جب کہ وزیراعظم نے اس امر پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے گزشتہ دو مہینوں میں کئی سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حاصل کیا گیا۔

وفاقی بجٹ 2023۔24میں غریب عوام کو ہر صورت بڑا ریلیف دیا جانا چاہیے، یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، مندرجہ بالا سطور میں غریبوں کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں، وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ اُن کے لیے زندگی کسی طور سہل نہیں ہے۔

صد شکر کہ وزیراعظم اس کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں، اسی لیے اُنہوں نے اس ضمن میں خصوصی ہدایت جاری ہے۔ وفاقی بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے۔

اُن کے لیے اس میں بڑے ریلیف پنہاں ہونے چاہئیں۔ اُن کی مشکلات اور مصائب میں کمی کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر مہنگائی میں کمی کے لیے حکومتی سطح پر راست اقدامات ممکن بنانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ بجلی، گیس اور ایندھن کے نرخ بھی اُن کی استطاعت کے مطابق ازسرنو طے ہونے چاہئیں۔

پٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے اچھی اطلاع یہ ہے کہ روس سے سستے داموں بڑے پیمانے پر درآمد کیا جا رہا ہے، اس سے قوم کو مناسب داموں پٹرولیم مصنوعات دستیاب ہوسکیں گی۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی قیمتوں میں غریب عوام کی پہنچ تک ممکن بنانے کے لیے بڑے فیصلے ناگزیر ہیں۔ مہنگائی پر ہر صورت قابو پایا جائے۔

آٹا، چاول، چینی، پتی، تیل، گھی اور دیگر اشیاء ضروریہ کے نرخ مناسب داموں پر لائے جائیں۔ غریب عوام کی آمدن بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ نیک نیتی پر مبنی اقدامات یقیناً غریب عوام کے لیے بڑے ثمرات کا باعث بنیں گے۔

آج کے حالات تمام قومی سیاسی قیادتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے اجتماعی غور و فکر کے متقاضی ہیں تاکہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بیرونی ایجنڈے کو ناکام بنایا جا سکے۔

اگر رواں ماہ کا بجٹ عوام دوست نہ ہوا اور اس کی بنیاد پر ان کے عملاً زندہ درگور ہونے کی نوبت آئی تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوششیں بھی اکارت جائیں گی اور سیاسی انتشار و عدم استحکام کے مزید راستے نکلیں گے۔ اس تناظر میں اتحادی حکمرانوں کے لیے عوام دوست بجٹ بنانا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔
Load Next Story