ذہنی توازن اور سیاستدان
اس وقت سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس ملک کی نسل نو کو بچایا جائے
ایک راجہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک آدمی کو محکمہ موسمیات کا وزیر بنا دیا۔ ایک بار راجہ نے شکار پر جانے سے پہلے وزیر سے موسم کی پیش گوئی پوچھی۔ وزیر نے کہا آپ ضرور جائیں، کئی دنوں تک موسم بہت اچھا ہے۔
لہٰذا بے فکر ہو کر جائیں، آپ کو موسم کی وجہ سے کسی دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔ محکمہ موسمیات کے وزیر کی پیش گوئی پر یقین کرکے راجہ صاحب نکل پڑے۔ راجہ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ راستے میں اسے ایک کمہار ملا۔
اس نے کہا مہاراج، تیز بارش ہونے والی ہے، آپ ایسے موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟ ایک وزیر کے مقابلے میں کمہار کی کیا اوقات تھی۔ یہ تو وزیر کی توہین تھی راجہ کو اپنے وزیر کی یہ بے عزتی بالکل برداشت نہ ہوئی اور کمہار کو نقد چار جوتے مارنے کی سزا دے ڈالی اور اپنا سفر جاری رکھا۔
جو کمہار نے کہا تھا بالکل ایسا ہی ہوا۔ تھوڑی دیر بعد تیز آندھی کے ساتھ بارش شروع ہوگئی اور جنگل دلدل بن گیا، راجہ کسی طرح محل میں واپس آیا،پہلے اس نے وزیر کو برطرف کیا۔ پھر اس کمہار کو بلایا۔ انعام دیا اور محکمہ موسمیات کے وزیر کا عہدہ پیش کیا۔
کمہار نے کہا جناب مجھے کیا معلوم موسم ووسم کیا ہے؟ بس جس وقت میرے گدھے کے کان ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، میں سمجھ جاتا ہوں کہ بارش ہونے والی ہے، اور میرا گدھا کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ راجہ نے فوراً کمہار کو چھوڑا اور اس کے گدھے کو وزیر بنا دیا۔
لگتا ہے تب سے گدھوں کو وزیر بنانے کا رواج چلا آ رہا ہے۔ پاکستان کے جمہوری نظام کے خدوخال اور مجودہ ملکی ابتر معاشی صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے اس ملک پر سیاسی راجاؤں کا راج اور گدھوں کو وزراء بنانے کا رواج ابتدا سے رہا ہے۔ اور وقت کے راجہ اور ان کے وزراء کے بیوقوفانہ فیصلوں نے آج ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
اخلاقی، ذہنی، معاشی اور معاشرتی ہر وہ تباہی جس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے، وہ آج پاکستان میں موجود ہے۔
ویسے تو پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سارے ہی راجے تھے لیکن ایک تو مہاراجہ نکلا۔ اگر مہاراجہ نااہل ثابت ہوا تو اس کے وزراء اور مشیر مہا نااہل ثابت ہوئے، ملک کے موجودہ ابتر اور قابل رحم حالت کا سہرا انھی ہی کے سر جاتاہے۔
پاکستانی سیاست میں ہلچل مچانے کے لیے مہا راجہ اور اس کی ''تاریک انصاف'' پارٹی کے جس غبارے میں ہوا بھری گئی تھی اب وہ غبارہ پھٹ چکا ہے اور ہوا بھی نکل چکی ہے۔
مرحوم مشاہد اللہ خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ غبارے میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھر دی گئی ہے، اسے تو بس سوئی دکھانے کی دیر ہے اور کام تمام، لیکن یہاں تو سوئی دکھانے کی بھی نوبت نہیں آئی، جھوٹی عوامی شہرت کے گمان میں اڑتا ہوا یہ غبارہ خود ہی دیواروں سے ٹکرا کر پھٹ گیا۔
تبدیلی کا جو بھوت نسل نو کے ذہنوں پر سوار تھا اگر مکمل طور پر نہیں تو کافی حد تک اتر چکا ہے۔ مجھے تو معزول کیے گئے مہاراجہ پر ترس آرہا ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر شکیل بدایونی کا ایک شعر یاد آرہا ہے لیکن اس میں تھوڑی سی ترمیم کی جسارت کرکے پیش خدمت کرتا ہوں:
اے سیاست ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
چند روز پہلے تک جو کسی سیاسی جماعت، سیاسی قائد، ریاستی ادارے سے بات کرنے کو تیار نہیں تھا، اپنے مخالفین کے نام لے لے کر ان پر بہتان طرازی کرتا تھا، عدالتوں کو اپنا ماتحت سمجھتا تھا، اول تو پیش ہی نہیں ہوتا تھا اور جب عدالتوں پر عوامی حلقوں کا دباؤ بڑھتاتھا اور کسی مقدمے میں طلب کر ہی لیا جاتا تھا تو جلوس لے کر عدالتوں پر دھاوا بولتا تھا، مجبور ہوکر جج صاحبان گیٹ پر ہی حاضری لگوا کر ملزم کو جانے کی اجازت دے دی جاتی تھی۔
یوم سیاہ (9 مئی) کے واقعات نے سارا سیاسی منظر نامہ بدل کے رکھ دیا۔اب حالت یہ ہے کہ ایک مقدمے میں ضمانت کے لیے کوئی ضامن نہیں ملا' اس کے گھر کا خاکروب ضمانت دینے کے لیے عدالت پہنچا۔ ضمانتی خاکروب نے عدالت کو بتایا کہ مچلکوں کی رقم نقد دینے کو تیار ہوں۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ تم کون ہو؟ ضمانتی نے جواب دیا کہ میں ملزم کے گھر کا سوئیپرہوں۔
عدالت نے کہا کہ ہم یہ مچلکے کیسے منظور کر لیں، کل کو ملزم نہ آیا تو تم ذمے دار ہو گے۔ اس پر سوئیپر نے چپ سادھ لی۔ عدالت نے ذمے داری نہ لینے پر ضمانتی مچلکے مسترد کردیے۔ پی ٹی آئی اب ''پٹی ہوئی جماعت'' بن چکی ہے۔
ایک ایک کرکے سب ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں، اور نوبت یہاں تک آئی کہ کوئی ضمانت دینے کے لیے تیار و دستیاب نہیں۔ یہ میرے رب کا انصاف ہے اور مکافات عمل ہے۔ میرا قادر مطلق رب جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت و رسوائی دے۔ ہم تو روز مرہ کے اپنے مشاہدات اور مہاراجہ کے رویے، یو ٹرن کی بہتات کی بنیاد پر اپنے کالم میں کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار اور بضد رہتا ہے۔
پاکستان کو معاشی اور معاشرتی تباہی کے دہانے تک لے جانے میں سابق حکومت چلانے والی جماعت کے لیڈروں کا بہت زیادہ عمل دخل معلوم ہوتا ہے۔ جو ہوگیا وہ ہوگیا مگر جو قومیں اپنی ماضی سے سبق سے نہیں سیکھتیں تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کیا کرتیں۔ لہٰذا ہمیں گزشتہ کل کے تجربات پر آیندہ کل کے لیے پلاننگ کرنا ہوگی۔
اصولی طور پر اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے کوئی بندہ یونین کونسل میں کونسلر کی سیٹ کا بھی الیکشن لڑے تو اس کا میڈیکل چیک اپ ہونا چاہیے خاص طور پر اس کا دماغی معائنہ ضرور ہونا چاہیے۔ جو سیاستدان اہم منصب کا امیدوار ہو مثال کے طور پر، قومی و صوبائی اسمبلی کی رکنیت، وزارت عظمیٰ، صدر پاکستان، وزرائے اعلی، گورنر، وزرا، مشیر اور دوسرے فیصلہ ساز شخصیات کا معائنہ باقاعدہ بہترین شہرت کے ساکاٹرسٹن اور نفسیاتی ماہرین کے بورڈ سے کروانا چاہیے کیونکہ ملک و قوم کی باگ ڈور ان کو سونپی جانی ہوتی ہے لہذا کوئی رسک نہیں لینا چاہیے۔
جب درجہ چہارم کی سیٹ کے لیے امیدواروں کا میڈیکل ہوتا ہے تو ان اہم ترین عہدوں پر آنے والوں کا کیوں نہیں؟ ان واقعات نے ان شہدا کے والدین کو بھی رْلا دیا جو اپنے بچوں کی شہادت پر آنسو پی گئے تھے اور مبارکبادیں وصول کرتے رہے۔
ان باہمت والدین کے جگر گوشوں نے اس ملک و قوم کی خاطر خود موت کو سینے سے لگایا تھا، آج عمران دار خود کش بمباروں نے ان کی یادگاروں اور ان کی تصاویر کی بے حرمتی کی۔ ہم نے گزشتہ کالم میں بھی کہا تھا کہ ان واقعات میں کوئی بھی ملوث ہے اسے کیفر کردار تک پہنچا کر نشان عبرت بنانا چاہیے۔
اس وقت سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس ملک کی نسل نو کو بچایا جائے، جو نئی طرز کی برین واشنگ کا شکار ہو کر غلط ٹریک پر چلی گئی ہے۔ ان کی بحالی تمام سیاسی قوتوں، ریاستی اداروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اگر یہ کام ہنگامی بنیادوں پر شروع نہ کیا یا شروع کرکے اسے ادھورا چھوڑ دیا گیا تو مستقبل میں ہمیں اس کے بہت خوفناک نتائج بھگتنا پڑیں گے ۔ شاید ملک مزید ایسے نتائج کا متحمل نہ ہوسکے۔