اردگان کی فتح کیا سلطنت عثمانیہ کا احیا ہے

طیب اردگان کی جیت مغرب کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے


عثمان دموہی June 02, 2023
[email protected]

طیب اردگان کی جیت مغرب کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ مغرب انھیں ترکیہ کی حکومت سے ہی نہیں عالمی سیاست سے دور کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ ایک دبنگ بے لوث اور مخلص سیاستدان ہیں۔ وہ مغربی ممالک کے ستائے ہوئے ممالک کی خدمت کرنے اور ان کی مشکلات کو دورکرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

پھر مسلم امہ کا جتنا درد ان کے دل میں ہے اتنا تو کسی بھی مسلم رہنما میں نہیں ہے۔ یوکرین کے معاملے میں ان کی مداخلت سے یقینا یوکرین کو فائدہ ہوا ہے۔ وہ اس جنگ کے خاتمے کی کوششیں کر رہے ہیں جب کہ مغرب اس جنگ کو جاری رکھنے کا حامی ہے کیونکہ اس طرح وہ روسی فوجی طاقت کو کمزور کرکے روس کی دنیا میں بچی کچھی ساکھ کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔

اسی طرح وہ چین کے بھی خلاف ہیں۔ وہ اس کے عالمی درد کو بھی محدود کرنے کے خواہاں ہیں۔ طیب اردگان کے روس اور چین دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں۔ وہ گزشتہ بیس سال سے ترکیہ کے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے دور میں ترکیہ نے بے مثال ترقی کی ہے۔ انھوں نے ترکیہ کی کمزور معیشت کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔

وہ اس وقت غریب ممالک میں اہم شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک کو ان کی مسلم بھائی چارے کے فروغ کی مہم قطعی ناپسند ہے وہ ایک طرف فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف ہیں تو دوسری طرف کشمیریوں کی بھارتی حکومت کی جانب سے جاری قتل و غارت گری کی پالیسی سے سخت نالاں ہیں۔

اسی پالیسی کے تحت ترکیہ نے سری نگر میں ہونے والی G-20 کی سیاحتی کانفرنس میں حصہ نہیں لیا تھا۔ طیب اردگان نے ہر سطح اور ہر محاذ پر کشمیریوں کے کاز کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ترکیہ کے اندر اسلام دشمنوں کے منہ بند کرنے اور اسلامی رجحان کو اجاگر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ترکیہ میں بند مساجد کو کھلوایا۔ مسلم خواتین کی بے پردگی ختم کی اور ترکیہ کے عوام کو ان کے کھوئے ہوئے حقوق دلائے۔ آج ترکیہ ایک اہم فوجی اور معاشی طاقت بن چکا ہے۔

طیب اردگان مصطفیٰ کمال کے بعد ترکیہ کے سب سے طاقتور حکمران ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی جسے ''آق'' بھی کہا جاتا ہے گزشتہ 20 سال سے ترکیہ پر حکومت کر رہی ہے۔ 2003 سے 2014 تک وہ وزیر اعظم رہے اس کے بعد وہ صدارتی نظام رائج کرکے صدر بن گئے۔ 2003 سے لے کر اب تک ترکیہ میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں۔

ان میں ان کی پارٹی سرخرو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردگان کو عوام کا دل جیتنے کا گر آتا ہے۔ پھر انھوں نے ہمیشہ حق اور انصاف کے ساتھ حکومت کی اور عوام کی ہر تکلیف کا خیال کیا۔ وہ عوام میں اس قدر ہردلعزیز ہیں کہ 2017 میں ان کے خلاف ہونے والی اس بغاوت کو خود عوام نے ختم کیا تھا۔

حالانکہ اردگان کے مخالف فوجی سڑکوں پر ٹینک لے کر آگئے تھے، مگر عوام نے ان کا راستہ روک دیا وہ ان کے آگے لیٹ گئے تھے۔ فضائی فوج کے کچھ باغی بھی اپنے جہازوں سے جگہ جگہ گولیاں برسا رہے تھے مگر عوام اس سے ذرا خف زدہ نہیں ہوئے اور وہ ہر شہر میں سڑکوں پر اردگان کے حق میں مظاہرے کرتے رہے۔

بالآخر باغی عوام کی طاقت کے آگے زیر ہوگئے اور یوں عوام نے اردگان کی حکومت کو ختم ہونے سے بچا لیا۔ اس موقع پر اردگان دارالحکومت میں بھی نہیں تھے انھوں نے اپنے موبائل سے عوام سے خطاب کیا تھا جس کا ایسا اثر ہوا کہ عوام ان کی چاہت میں ایسے ٹکرائے کہ اردگان کے خلاف آیندہ بھی کسی بغاوت کے سر اٹھانے کے خطرے کو ختم کردیا۔

اس بغاوت کا سرغنہ فتح اللہ گولن کو قرار دیا گیا تھا مگر حقیقتاً یہ امریکا اور اس کے حواری ممالک کی سازش تھی۔

اس سازش کی ناکامی کے بعد اب مغربی ممالک اردگان کی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لیے ترکیہ کی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں مگر اردگان ان کے ان ہتھکنڈوں کو بھی ناکام بناتے رہتے ہیں۔

اردگان ایک سچے مسلمان ہیں۔ وہ اپنے ممالک کو بھی اسلامی نظریاتی ملک بنانا چاہتے ہیں جب فروری 1954میں پیدا ہوئے ترکیہ سخت سیکولرازم کا حامی ملک تھا۔ وہاں کسی بھی مذہب کا پرچار منع تھا۔ مصطفیٰ کمال جب 1923 میں ترکیہ کے صدر بنے انھوں نے ترکیہ کی تمام اسلامی روایات کو یکسر ختم کردیا۔

حتیٰ کہ مساجد پر تالے پڑ گئے اور تمام مذہبی مدارس کو بند کردیا گیا۔ صدر اردگان ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جہاں اسلامی ارکان کی پابندی لازمی تھی۔ چنانچہ انھیں اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند کرنا ان کے والد کے لیے بہت سخت امتحان تھا۔ تاہم سخت پابندیوں کے باوجود بھی اس وقت بچوں کو گھروں میں ابتدائی اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند کیا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ کئی مقامات پر خفیہ دینی مدرسے موجود تھے جہاں بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے سرفراز کیا جاتا تھا۔ اردگان نے بھی ایسے ہی ایک مدرسے سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ جب وہ 13 سال کے تھے ان کے والد استنبول شہر میں آباد ہوگئے۔ بچپن میں اردگان بہترین فٹ بالر تھے۔ اردگان ترکیہ کے اس وقت کے ملکی ماحول سے سخت بے زار تھے وہ ملک کے 1923 سے پہلے والے ملکی ماحول کو پھر سے واپس لانے کے خواہاں تھے۔

ملک کے سیکولرازم کے خلاف جب نجم الدین اربکان نے آواز بلند کی تو آپ ان کے ساتھ ہوگئے وہ 1980 میں اسلامک ویلفیئر پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ترکیہ میں 1923 کے بعد نجم الدین اربکان پہلے اسلام پسند وزیر اعظم تھے مگر 1997 میں انھیں فوج کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا اسی سال اردگان کو ایک قومی نظم پڑھنے پر نسلی نفرت کو بھڑکانے کا مجرم قرار دیا گیا۔

اس نظم کا مفہوم یہ تھا کہ مساجد ہماری بیرکس ہیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ ہیں، مینارے ہمارے چھرے ہیں اور سپاہی ہمارے وفادار ہیں۔ 1999 میں انھوں نے فوج پر پھر تنقید کی جس پر انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ اردگان کی حکومت بننے سے قبل ترکیہ میں بننے والی چار جمہوری حکومتوں کو فوج نے گرا دیا تھا۔ عوامی بیداری کے نتیجے میں 2003 میں وہ پہلی دفعہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اس کے بعد لگاتار 2013 تک وزیر اعظم رہے۔

اس دوران انھوں نے ملک کے سیکولر طرز حکومت کو جمہوری بنایا ساتھ ہی اسلامی روایات کو بھی زندہ کیا۔ 2014 میں ملک کے صدر بن گئے اور اس دور میں ملک سے سیکولرزم کا صفایا کردیا۔

انھوں نے حالیہ صدارتی الیکشن جیت کر عوام کو یاد دلایا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کو اب استنبول کو فتح کیے ہوئے 570 برس ہو چکے ہیں وہ بھی ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا اور اب میری جیت بھی ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ یہ ترکیہ کی صدی ہے جس میں ترکیہ کی کامیابیاں لامحدود ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں