غزل غزل سرگرمِ سفر شاعر ‘ جلیل عالی
غزل غزل سرگرمِ سفر شاعر جلیل عالی کی بعض لمبی بحروں والی غزلیں جن میں زبان اور اندازِ بیان دونوں گفتاری ہیں
کھولے وہ عرضِ حال نے امکاں غزل، غزل
چشمِ ہنر بھی رہ گئی حیراں غزل، غزل
خود لفظ بولتے ہیں سخن کس قلم کے ہیں
اک فیضِ منفرد ہے فروزاں غزل غزل
غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جسے ہر دورکے شعرا نے محبوب رکھا، کیونکہ غزل ہر موسم میں سرسبز شاداب رہی اور حُسنِ سخن اور جانِ سخن کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب نظر آئی۔
مطلب یہ کہ غزل کا شاعر صرف وہی بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر بیتی ہو۔ شاعرکے دل پرگزرنیوالی کیفیات وہی ہوتی ہیں جو دوسروں پر بھی بیت چکی ہوتی ہیں، لہٰذا پڑھنے والے یا سننے والے کو غزل میں اپنی داستان سنائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر وقار احمد رضوی فرماتے ہیں کہ ''غزل ایک سازکی طرح ہے، اُس کا ہر شعر ایک تار ہے۔ ہر تارکی آواز مختلف ہے، مگر ان آوازوں کے امتزاج سے ایک ایسا دل نواز نغمہ ترتیب پاتا ہے جو سازوآواز سے ہم آہنگ ہوکر فضا میں گلاب بکھیر دیتا ہے۔'' جلیل عالی موجودہ عہد کے معتبر، صاحبِ اسلوب ،کہنہ مشق شاعر، نقاد، ایجوکیشنسٹ، سوشیالوجسٹ اور اقبال شناس ادیب ہیں۔
جن کی غزل درحقیقت جذبات کا مرقع ہے، ان کے گلزارِ سخن میں موضوع کے اعتبار سے مختلف قسم کے پھول کھلتے ہیں اور فکروخیال کی صورت میں ان پھولوں کی خوشبو دنیائے ادب کو معطر کرتی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں کئی طرح کے خیالات مختلف صورتوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔
دن ہیں ہمارے اور سے راتیں ہیں مختلف
سو اپنی شاعری میں بھی باتیں ہیں مختلف
موجودہ عہد کے جن تخلیق کاروں کو ہر سطح پر پذیرائی ملی اُن میں جلیل عالی کا نام بھی نمایاں ہیں۔ ان کی غزلیں پڑھ کر یہ بات واضح محسوس ہوتی ہے کہ خالق نے انھیں عمدہ شاعر اور ادیب کے طور پر تخلیق کیا ہے۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز دسویں جماعت کی الوداعی تقریب کے لیے ایک نظم لکھنے سے ہُوا۔ طویل عرصے تک ادب کی آبیاری کرنے والے جلیل عالیؔ نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ شاعری کی نذر کردیا ہے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ''خواب دریچہ'' کے نام سے 1984 ء کو منظرِ عام پر آیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں 'شوق ستارہ، عرضِ ہنر سے آگے، لفظ مختصر سے مرے (انتخاب جلیل عالی، ازخاور اعجاز)، نور نہایا رستہ (مجموعہ نعت)، شعری دانش کی دُھن میں (تنقیدی مضامین) اور قلبیہ (نظمیں) شامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کا اعتراف کرتے ہوئے اکادمی ادبیات پاکستان نے '' پاکستانی ادب کے معمار'' سیریزکا اہتمام بھی کیا جو خاور اعجاز کی علمی و تحقیقی کاوشوں کا نتیجہ ہے، یقینا یہ کتاب عالیؔ صاحب کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں ایک بنیادی وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے۔
عالی صاحب کی عمر کا بڑا حصہ تدریس کے شعبہ سے وابستگی میں گزرا۔میرے سامنے زیرِ نظر ان کا نیا شعری مجموعہ ''ایک لہر ایسی بھی'' موجود ہے ، جو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی سمیٹ رہا ہے۔ یہ مجموعہ ان کی غزلوں پر مشتمل ہیں، جس کے آغاز میں ایک حمد اور دو نعتیہ کلام بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ان کا یہ شعری مجموعہ تیرہ برس کے ایک طویل عرصے کی ریاضتوں کا حاصل ہے جس میں 2008 سے 2023 تک کا کلام شامل کیا گیا ہے۔
جس کے پیش لفظ میں محمد حمید شاہد رقم طراز ہے کہ ''یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہم جس شاعرکا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں وہ نرے شاعر نہیں ہیں، ایک فکر سے وابستہ اور سوچتے ہوئے ذہن والے شاعر ہیں۔
شعری روایت سے جڑے ہوئے اور اس میں کچھ ایزاد کرنے کی تاہنگ رکھنے والے شاعر ہیں، ہمہ دم مضطرب اور تخلیقی عمل میں اپنی پوری شخصیت کی تظہیرکرنیوالے شاعر۔ یہیں سے جلیل عالیؔ اپنے ہم عصروں سے مختلف اور ممتاز ہوتے ہیں، ان کا انھی سے خاص اسلوب ڈھلتا ہے اور ان کی شاعری محض شاعری نہیں رہتی عملِ خیر اور حدیثِ بصیرت ہو جاتی ہے۔''جلیل عالیؔ کی وجہِ شہرت غزل گوئی ہے، جب کہ ان کی محبوب صنفِ سخن حمد ونعت ہے۔
وہ حمد کے اشعار میں خالقِ دوجہاں کی تمام تر رحمتوں اور نعمتوں کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذکرکچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ:
کوئی حلقہ ہے نہ حد ہے نہ کنارے اُس کے
فرش و افلاک، فضا، چاند ستارے اُس کے
آنکھ کے بس میں کہاں عکس اُتارے اُس کے
دلِ بینا ہی سمجھتا ہے اشارے اُس کے
نعتیہ شاعری کی بنیاد ذاتِ مصطفیﷺ سے محبت و عقیدت کا جذبہ ہے۔ یہی جذبہ ہمیں جلیل عالیؔ کی نعت کے اشعار میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آبِ بقا کے نہیں جامِ کوثر کے تمنائی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں مکہ اور مدینہ بسا ہُوا ہے۔ ان کا دل ہر گھڑی طوافِ کعبہ اور گنبدِ خضریٰ کی زیارت کے لیے دھڑکتا بھی ہے اور تڑپتا بھی۔ ان کی محبت وعقیدت کو سمجھنے کے لیے یہ اشعار کافی ہونگے۔
دوسرا کون ہے اس شان کا ممدوح کوئی
وصف جیسے سرِ قرطاس و قلم تیرےؐ ہیں
کیا مجال آنکھ اٹھے اپنی کسی اور طرف
آخری سانس تلک تیریؐ قسم تیرےؐ ہیں
جلیل عالیؔ کے اس نعتیہ اسلوب کو دیکھتے ہوئے شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا یہ شعر یاد آ تا ہے کہ:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبالؒ اور میر تقی میر کے حوالے سے عالیؔ صاحب کی عقدیت بھی ان کی نثری و شعری تخلیقات میں نمایاں ہے۔ بقول محمد حمید شاہد کہ '' جلیل عالی کی تخلیقی شخصیت کو اُسارنے میں اقبال کا حوالہ بھی بہت اہم ہے۔
زبان کی سطح پر کم کم اور فکری سطح پر بہت بہت زیادہ۔ یہی سبب ہے کہ اقبال کے سلسلے سے جڑ کر بھی ان کی شعری فضا الگ مزاج بناتی ہے۔ اس باب میں میروغالب کی طرف دیکھتے ہیں، اگرچہ انھیں اقبال کے ہاں لسانی قلبِ ماہیت بھی مل جاتی ہے مگر وہ زبان سازی کے عمل میں اپنا الگ لحن اور مزاج بناتے نظر آتے ہیں۔''
سخن کو سونپتے ہو کیسے کیسے انگ عالی
کہیں اقبالتے ہو اور کہیں پر میرتے ہو
.........
کدھر وہ عقل وجنوں میں اقبال سا توازن
کہاں طلبگارِ غم کوئی مثلِ میر انسان
''ایک لہر ایسی بھی'' اس شعری مجموعہ میں عالیؔ صاحب نے نئی نئی زمینیں بھی استعمال کی ہیں اور نئی نئی ردیفیں بھی۔ کیونکہ اچھوتے قافیے اور ردیفیں حُسنِ شاعری میں تازگی پیدا کرتے ہیں اور نئی سے نئی بات کہنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔
غزل غزل سرگرمِ سفر شاعر جلیل عالی کی بعض لمبی بحروں والی غزلیں جن میں زبان اور اندازِ بیان دونوں گفتاری ہیں ان کی خوش گفتاری کا آئینہ دار ان کا شعری مجموعہ ''ایک لہر ایسی بھی '' ہیں۔
اس شعری مجموعہ میں شامل تمام غزلوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں گفتگو کا انداز پایا جاتا ہے۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ جلیل عالی کے درجنوں مصرعے اور شعر نہ صرف دلوں میں بلکہ روح میں اُتر جانے اور زبان زدِ عام ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
ایک لہر ایسی بھی بحرِ بے کرائی کی
مستیِ معانی کی رَو میں تہ بہ تہ جائیں
چشمِ ہنر بھی رہ گئی حیراں غزل، غزل
خود لفظ بولتے ہیں سخن کس قلم کے ہیں
اک فیضِ منفرد ہے فروزاں غزل غزل
غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جسے ہر دورکے شعرا نے محبوب رکھا، کیونکہ غزل ہر موسم میں سرسبز شاداب رہی اور حُسنِ سخن اور جانِ سخن کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب نظر آئی۔
مطلب یہ کہ غزل کا شاعر صرف وہی بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر بیتی ہو۔ شاعرکے دل پرگزرنیوالی کیفیات وہی ہوتی ہیں جو دوسروں پر بھی بیت چکی ہوتی ہیں، لہٰذا پڑھنے والے یا سننے والے کو غزل میں اپنی داستان سنائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر وقار احمد رضوی فرماتے ہیں کہ ''غزل ایک سازکی طرح ہے، اُس کا ہر شعر ایک تار ہے۔ ہر تارکی آواز مختلف ہے، مگر ان آوازوں کے امتزاج سے ایک ایسا دل نواز نغمہ ترتیب پاتا ہے جو سازوآواز سے ہم آہنگ ہوکر فضا میں گلاب بکھیر دیتا ہے۔'' جلیل عالی موجودہ عہد کے معتبر، صاحبِ اسلوب ،کہنہ مشق شاعر، نقاد، ایجوکیشنسٹ، سوشیالوجسٹ اور اقبال شناس ادیب ہیں۔
جن کی غزل درحقیقت جذبات کا مرقع ہے، ان کے گلزارِ سخن میں موضوع کے اعتبار سے مختلف قسم کے پھول کھلتے ہیں اور فکروخیال کی صورت میں ان پھولوں کی خوشبو دنیائے ادب کو معطر کرتی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں کئی طرح کے خیالات مختلف صورتوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔
دن ہیں ہمارے اور سے راتیں ہیں مختلف
سو اپنی شاعری میں بھی باتیں ہیں مختلف
موجودہ عہد کے جن تخلیق کاروں کو ہر سطح پر پذیرائی ملی اُن میں جلیل عالی کا نام بھی نمایاں ہیں۔ ان کی غزلیں پڑھ کر یہ بات واضح محسوس ہوتی ہے کہ خالق نے انھیں عمدہ شاعر اور ادیب کے طور پر تخلیق کیا ہے۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز دسویں جماعت کی الوداعی تقریب کے لیے ایک نظم لکھنے سے ہُوا۔ طویل عرصے تک ادب کی آبیاری کرنے والے جلیل عالیؔ نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ شاعری کی نذر کردیا ہے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ''خواب دریچہ'' کے نام سے 1984 ء کو منظرِ عام پر آیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں 'شوق ستارہ، عرضِ ہنر سے آگے، لفظ مختصر سے مرے (انتخاب جلیل عالی، ازخاور اعجاز)، نور نہایا رستہ (مجموعہ نعت)، شعری دانش کی دُھن میں (تنقیدی مضامین) اور قلبیہ (نظمیں) شامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کا اعتراف کرتے ہوئے اکادمی ادبیات پاکستان نے '' پاکستانی ادب کے معمار'' سیریزکا اہتمام بھی کیا جو خاور اعجاز کی علمی و تحقیقی کاوشوں کا نتیجہ ہے، یقینا یہ کتاب عالیؔ صاحب کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں ایک بنیادی وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے۔
عالی صاحب کی عمر کا بڑا حصہ تدریس کے شعبہ سے وابستگی میں گزرا۔میرے سامنے زیرِ نظر ان کا نیا شعری مجموعہ ''ایک لہر ایسی بھی'' موجود ہے ، جو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی سمیٹ رہا ہے۔ یہ مجموعہ ان کی غزلوں پر مشتمل ہیں، جس کے آغاز میں ایک حمد اور دو نعتیہ کلام بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ان کا یہ شعری مجموعہ تیرہ برس کے ایک طویل عرصے کی ریاضتوں کا حاصل ہے جس میں 2008 سے 2023 تک کا کلام شامل کیا گیا ہے۔
جس کے پیش لفظ میں محمد حمید شاہد رقم طراز ہے کہ ''یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہم جس شاعرکا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں وہ نرے شاعر نہیں ہیں، ایک فکر سے وابستہ اور سوچتے ہوئے ذہن والے شاعر ہیں۔
شعری روایت سے جڑے ہوئے اور اس میں کچھ ایزاد کرنے کی تاہنگ رکھنے والے شاعر ہیں، ہمہ دم مضطرب اور تخلیقی عمل میں اپنی پوری شخصیت کی تظہیرکرنیوالے شاعر۔ یہیں سے جلیل عالیؔ اپنے ہم عصروں سے مختلف اور ممتاز ہوتے ہیں، ان کا انھی سے خاص اسلوب ڈھلتا ہے اور ان کی شاعری محض شاعری نہیں رہتی عملِ خیر اور حدیثِ بصیرت ہو جاتی ہے۔''جلیل عالیؔ کی وجہِ شہرت غزل گوئی ہے، جب کہ ان کی محبوب صنفِ سخن حمد ونعت ہے۔
وہ حمد کے اشعار میں خالقِ دوجہاں کی تمام تر رحمتوں اور نعمتوں کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذکرکچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ:
کوئی حلقہ ہے نہ حد ہے نہ کنارے اُس کے
فرش و افلاک، فضا، چاند ستارے اُس کے
آنکھ کے بس میں کہاں عکس اُتارے اُس کے
دلِ بینا ہی سمجھتا ہے اشارے اُس کے
نعتیہ شاعری کی بنیاد ذاتِ مصطفیﷺ سے محبت و عقیدت کا جذبہ ہے۔ یہی جذبہ ہمیں جلیل عالیؔ کی نعت کے اشعار میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آبِ بقا کے نہیں جامِ کوثر کے تمنائی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں مکہ اور مدینہ بسا ہُوا ہے۔ ان کا دل ہر گھڑی طوافِ کعبہ اور گنبدِ خضریٰ کی زیارت کے لیے دھڑکتا بھی ہے اور تڑپتا بھی۔ ان کی محبت وعقیدت کو سمجھنے کے لیے یہ اشعار کافی ہونگے۔
دوسرا کون ہے اس شان کا ممدوح کوئی
وصف جیسے سرِ قرطاس و قلم تیرےؐ ہیں
کیا مجال آنکھ اٹھے اپنی کسی اور طرف
آخری سانس تلک تیریؐ قسم تیرےؐ ہیں
جلیل عالیؔ کے اس نعتیہ اسلوب کو دیکھتے ہوئے شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا یہ شعر یاد آ تا ہے کہ:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبالؒ اور میر تقی میر کے حوالے سے عالیؔ صاحب کی عقدیت بھی ان کی نثری و شعری تخلیقات میں نمایاں ہے۔ بقول محمد حمید شاہد کہ '' جلیل عالی کی تخلیقی شخصیت کو اُسارنے میں اقبال کا حوالہ بھی بہت اہم ہے۔
زبان کی سطح پر کم کم اور فکری سطح پر بہت بہت زیادہ۔ یہی سبب ہے کہ اقبال کے سلسلے سے جڑ کر بھی ان کی شعری فضا الگ مزاج بناتی ہے۔ اس باب میں میروغالب کی طرف دیکھتے ہیں، اگرچہ انھیں اقبال کے ہاں لسانی قلبِ ماہیت بھی مل جاتی ہے مگر وہ زبان سازی کے عمل میں اپنا الگ لحن اور مزاج بناتے نظر آتے ہیں۔''
سخن کو سونپتے ہو کیسے کیسے انگ عالی
کہیں اقبالتے ہو اور کہیں پر میرتے ہو
.........
کدھر وہ عقل وجنوں میں اقبال سا توازن
کہاں طلبگارِ غم کوئی مثلِ میر انسان
''ایک لہر ایسی بھی'' اس شعری مجموعہ میں عالیؔ صاحب نے نئی نئی زمینیں بھی استعمال کی ہیں اور نئی نئی ردیفیں بھی۔ کیونکہ اچھوتے قافیے اور ردیفیں حُسنِ شاعری میں تازگی پیدا کرتے ہیں اور نئی سے نئی بات کہنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔
غزل غزل سرگرمِ سفر شاعر جلیل عالی کی بعض لمبی بحروں والی غزلیں جن میں زبان اور اندازِ بیان دونوں گفتاری ہیں ان کی خوش گفتاری کا آئینہ دار ان کا شعری مجموعہ ''ایک لہر ایسی بھی '' ہیں۔
اس شعری مجموعہ میں شامل تمام غزلوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں گفتگو کا انداز پایا جاتا ہے۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ جلیل عالی کے درجنوں مصرعے اور شعر نہ صرف دلوں میں بلکہ روح میں اُتر جانے اور زبان زدِ عام ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
ایک لہر ایسی بھی بحرِ بے کرائی کی
مستیِ معانی کی رَو میں تہ بہ تہ جائیں