آخر حقیقت ہے کیا
یہ کوئی افواہ ہے یا خبر لیکن اس سے جڑے بہت سے حالات و واقعات نے دنیا بھر میں سنسنی سی پھیلا رکھی ہے
امریکا دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، یہ کوئی افواہ ہے یا خبر لیکن اس سے جڑے بہت سے حالات و واقعات نے دنیا بھر میں سنسنی سی پھیلا رکھی ہے۔ یہ امریکا کا ڈھونگ ہے اس سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کی خبریں گردش میں رہ چکی ہیں اب بھی ایسا ہی ہے۔
ایک عام سی سوچ یا اس کے درپیش بہت سے سوالات۔ امریکا کس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کیا واقعی وہ دیوالیہ ہو رہا ہے؟ مئی کے مہینے میں امریکا سے ہی نکلنے والے ایک اخبارکی سرخی کچھ اس طرح سے تھی۔
امریکی کمپنی کے پاکستان میں سالانہ 80-90 ملین ڈالرزکی سرمایہ کاری۔ اس خبرکے ساتھ امریکا میں پاکستان کے سفیر منصور خان سے متعلق کچھ اس طرح سے تحریر تھا کہ انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں 80 سے زائد امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے منافع بخش کاروبار و دیگر سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کے لیے نہ صرف ملکی چوبیس کروڑ آبادی سے فائدہ اٹھانے کے لیے باعث ترغیب ہونا چاہیے بلکہ وہ ملک کے تزویراتی محل وقوع کو وسطیٰ و مغربی ایشیا مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی مارکیٹ تک رسائی کے لیے بروئے کار لاسکتے ہیں۔
ملک کا بڑا متوسط طبقہ اور ترقی پذیر معیشت کی بڑھتی ہوئی ضروریات نے کاروباری برادری کے لیے نئے کاروبار کے قیام اور موجودہ کاروباری سرگرمیوں کو وسعت دینے کے لیے بے انتہا مواقع پیدا کر رہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں امریکا کی سیاسی صورت حال سے اس کی مالی حالت پرکیا اثر پڑ رہا ہے کہا جا رہا ہے کہ جون سے قبل ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں سیاسی جماعتیں امریکا کی قرض لینے کی حد کے متعلق کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکیں تو واشنگٹن اپنے قرض سے متعلق وعدے اور ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔
دونوں جماعتوں کے درمیان ایک تناؤ ہے جو امریکا کی مجموعی معیشت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے؟ اس کا حل کیا ہے۔ کیا وہ تمام سفارشات جو اس مسئلے سے نکلنے کے لیے پیش کی جا رہی ہیں امریکا کو واقعی دیوالیہ ہونے سے بچا سکتی ہیں؟ کیا دونوں جماعتوں کے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں؟طرح طرح کے سوالات ہیں جو سر اٹھا رہے ہیں لیکن اب بھی امریکا کی کاروباری کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ یہ سب کچھ کیا واقعی پیچیدہ ہے یا دکھایا جا رہا ہے۔
امریکا جو پوری دنیا میں کاروباری سطح پر انجن کی سی حیثیت رکھتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس انجن کا تیل اس نے کس کس طرح کی شاطرانہ چالوں سے حاصل کیا، پختہ کیا اور چلاتے رہے لیکن دنیا میں بدلتی ہوئی معیشت اور ڈیموگرافک تبدیلیوں نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ امریکی ڈالر جو کسی زمانے میں خاصا مستحکم سمجھا جا رہا تھا اب اپنی اہمیت کم کرتا جا رہا ہے۔
معیشت کو نرغے میں لے کر کسی بھی اسٹیٹ کو زیروکردینے کے عمل سے امریکا کو کوئی فائدہ حاصل ہو نہ ہو لیکن اس اسٹیٹ کو نقصان ضرور ہوا ہے جس کی مثال ایران اور روس ہے لیکن اب ان دونوں ممالک نے اپنے لیے نئی راہیں متعین کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
ایران اور روس مغرب کے سمندری راستے سے گریز کرتے اپنے تجارتی ٹرانسپورٹ نیٹ کے آخری حصے کی تعمیر پر متفق ہوگئے ہیں۔ یہ راستے جو اس راہداری میں شامل ہیں بھارت سے منسلک ہیں۔ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روسی ہم منصب کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے والے ایران کے وزیر مواصلات نے کہا ہے کہ ایران کے شمال میں ایک سو چونسٹھ کلومیٹر طویل ریلوے لائن تین سال کے اندر مکمل ہو جائے گی۔
روس اور ایران بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہیں جس کی وجہ سے ان کی تجارت محدود ہے۔ رپورٹ کے مطابق بحری جہاز، ریل اور سڑک کے راستوں کا مال بردار نیٹ ورک بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کے درمیان سوئیز کنال سے گریز کرے گا۔معاہدے پر دستخط کی تقریب میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شرکت کی جب کہ روسی صدر پیوٹن نے بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اس میں شرکت کی۔
ایران کے وزیر مواصلات نے کہا کہ حالیہ معاہدہ اسلامی جمہوریہ ایران اور روسی فیڈریشن کے درمیان تعاون کی راہ میں ایک اہم اسٹرٹیجک قدم ہے۔ اسی طرح روسی صدر نے بھی اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ یہ منفرد شمال جنوب نقل و حمل کی شریان بین الاقوامی نقل و حمل کو نمایاں طور پر متنوع بنانے میں مدد کرے گی، انھوں نے کہا کہ اس نئی راہداری کے ذریعے اشیا کی آمد و رفت کا اہم مسابقتی فائدہ ہوگا۔ روسی صدر نے نئی ملازمتوں اور سرمایہ کاری کی صورت میں ماسکو اور تہران دونوں کے لیے اقتصادی فوائد کی تعریف کی۔
یہ دونوں اقتصادی بندھنوں میں جکڑے ممالک اپنے لیے نئی راہیں ہموارکرنے میں مصروف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھیں زندہ رہنے کے ساتھ اب آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس جہد میں وہ پیش رفت کرچکے ہیں۔اب اس صورت حال سے امریکا تشویش میں مبتلا ہو چکا ہے وہ جانتا ہے کہ روس یوکرین سے ٹکر لے کر بڑے ہاتھیوں کو للکار چکا ہے۔
وہیں ایران بھی اپنی بقا کے لیے ہاتھ پیر چلاتے چلاتے اب پتوار سنبھال چکا ہے اور دونوں ممالک کسی حد تک امریکی نرغے سے نکل چکے ہیں۔امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہاہے کہ ایران اور روس کے درمیان جدید ہتھیاروں خاص طور پر جدید ترین یو اے ویز کی فروخت سے متعلق معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ امریکا خبردار کر رہا ہے سمجھا رہا ہے یا خود سمجھ چکا ہے کہ دنیا کے پرنسپل بنے رہنے کی مدت میں اب خلل پیدا ہو چکا ہے۔
روس کے نائب وزیر اعظم ایران جاکر تیل اور گیس کی تلاش کے لیے منصوبوں پر ایران کے وزیر پٹرولیم سے ملاقات کرچکے ہیں بات بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آخر کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی کہ اب پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا کا ٹھیکیدار بن کر ایک طویل مدت تک حکم چلانے والے امریکا کو اب نظر آ رہا ہے کہ عنقریب ایران اور روس کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے اس کے بعد وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے۔
پہلے ہی دنیا میں ڈالر سے تجارت کے رجحان میں کمی آچکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکا کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے ایک ٹریلین ڈالرکا پلاٹینم کا سکہ جاری کرنا پڑے گا جو 1997 کے قانون کے تحت کیا جاسکے گا۔ اس کی مدد سے امریکی حکومت کو ملکی اخراجات پورے کرنے اور دیوالیہ ہونے سے بچائے گا۔ یہ سکہ اتنا چھوٹا ہوگا کہ آپ اسے اپنی جیب میں بھی آرام سے رکھ سکتے ہیں جب کہ اس کی قیمت۔۔۔
بات شروع ہوئی تھی کہ کیا واقعی امریکا دیوالیہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں کیا یہ اس کا ڈرامہ ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو کیا اس کی وجہ روس اور ایران کی بڑھتی ہوئی اقتصادی کوششیں ہیں کہ جن کے بعد امریکا کی پہنائی زنجیریں ان کے لیے بے معنی رہ جائیں گی کیا امریکا خود سے اپنی کمزوری کا ڈرامہ یا کچھ اور۔۔۔۔۔بہرحال اونٹ کی کون سی کل سیدھی ہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے۔ دیکھیے آیندہ آنے والے دنوں میں کیا خبریں ملتی ہیں۔
ایک عام سی سوچ یا اس کے درپیش بہت سے سوالات۔ امریکا کس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کیا واقعی وہ دیوالیہ ہو رہا ہے؟ مئی کے مہینے میں امریکا سے ہی نکلنے والے ایک اخبارکی سرخی کچھ اس طرح سے تھی۔
امریکی کمپنی کے پاکستان میں سالانہ 80-90 ملین ڈالرزکی سرمایہ کاری۔ اس خبرکے ساتھ امریکا میں پاکستان کے سفیر منصور خان سے متعلق کچھ اس طرح سے تحریر تھا کہ انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں 80 سے زائد امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے منافع بخش کاروبار و دیگر سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کے لیے نہ صرف ملکی چوبیس کروڑ آبادی سے فائدہ اٹھانے کے لیے باعث ترغیب ہونا چاہیے بلکہ وہ ملک کے تزویراتی محل وقوع کو وسطیٰ و مغربی ایشیا مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی مارکیٹ تک رسائی کے لیے بروئے کار لاسکتے ہیں۔
ملک کا بڑا متوسط طبقہ اور ترقی پذیر معیشت کی بڑھتی ہوئی ضروریات نے کاروباری برادری کے لیے نئے کاروبار کے قیام اور موجودہ کاروباری سرگرمیوں کو وسعت دینے کے لیے بے انتہا مواقع پیدا کر رہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں امریکا کی سیاسی صورت حال سے اس کی مالی حالت پرکیا اثر پڑ رہا ہے کہا جا رہا ہے کہ جون سے قبل ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں سیاسی جماعتیں امریکا کی قرض لینے کی حد کے متعلق کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکیں تو واشنگٹن اپنے قرض سے متعلق وعدے اور ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔
دونوں جماعتوں کے درمیان ایک تناؤ ہے جو امریکا کی مجموعی معیشت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے؟ اس کا حل کیا ہے۔ کیا وہ تمام سفارشات جو اس مسئلے سے نکلنے کے لیے پیش کی جا رہی ہیں امریکا کو واقعی دیوالیہ ہونے سے بچا سکتی ہیں؟ کیا دونوں جماعتوں کے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں؟طرح طرح کے سوالات ہیں جو سر اٹھا رہے ہیں لیکن اب بھی امریکا کی کاروباری کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ یہ سب کچھ کیا واقعی پیچیدہ ہے یا دکھایا جا رہا ہے۔
امریکا جو پوری دنیا میں کاروباری سطح پر انجن کی سی حیثیت رکھتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس انجن کا تیل اس نے کس کس طرح کی شاطرانہ چالوں سے حاصل کیا، پختہ کیا اور چلاتے رہے لیکن دنیا میں بدلتی ہوئی معیشت اور ڈیموگرافک تبدیلیوں نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ امریکی ڈالر جو کسی زمانے میں خاصا مستحکم سمجھا جا رہا تھا اب اپنی اہمیت کم کرتا جا رہا ہے۔
معیشت کو نرغے میں لے کر کسی بھی اسٹیٹ کو زیروکردینے کے عمل سے امریکا کو کوئی فائدہ حاصل ہو نہ ہو لیکن اس اسٹیٹ کو نقصان ضرور ہوا ہے جس کی مثال ایران اور روس ہے لیکن اب ان دونوں ممالک نے اپنے لیے نئی راہیں متعین کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
ایران اور روس مغرب کے سمندری راستے سے گریز کرتے اپنے تجارتی ٹرانسپورٹ نیٹ کے آخری حصے کی تعمیر پر متفق ہوگئے ہیں۔ یہ راستے جو اس راہداری میں شامل ہیں بھارت سے منسلک ہیں۔ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روسی ہم منصب کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے والے ایران کے وزیر مواصلات نے کہا ہے کہ ایران کے شمال میں ایک سو چونسٹھ کلومیٹر طویل ریلوے لائن تین سال کے اندر مکمل ہو جائے گی۔
روس اور ایران بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہیں جس کی وجہ سے ان کی تجارت محدود ہے۔ رپورٹ کے مطابق بحری جہاز، ریل اور سڑک کے راستوں کا مال بردار نیٹ ورک بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کے درمیان سوئیز کنال سے گریز کرے گا۔معاہدے پر دستخط کی تقریب میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شرکت کی جب کہ روسی صدر پیوٹن نے بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اس میں شرکت کی۔
ایران کے وزیر مواصلات نے کہا کہ حالیہ معاہدہ اسلامی جمہوریہ ایران اور روسی فیڈریشن کے درمیان تعاون کی راہ میں ایک اہم اسٹرٹیجک قدم ہے۔ اسی طرح روسی صدر نے بھی اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ یہ منفرد شمال جنوب نقل و حمل کی شریان بین الاقوامی نقل و حمل کو نمایاں طور پر متنوع بنانے میں مدد کرے گی، انھوں نے کہا کہ اس نئی راہداری کے ذریعے اشیا کی آمد و رفت کا اہم مسابقتی فائدہ ہوگا۔ روسی صدر نے نئی ملازمتوں اور سرمایہ کاری کی صورت میں ماسکو اور تہران دونوں کے لیے اقتصادی فوائد کی تعریف کی۔
یہ دونوں اقتصادی بندھنوں میں جکڑے ممالک اپنے لیے نئی راہیں ہموارکرنے میں مصروف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھیں زندہ رہنے کے ساتھ اب آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس جہد میں وہ پیش رفت کرچکے ہیں۔اب اس صورت حال سے امریکا تشویش میں مبتلا ہو چکا ہے وہ جانتا ہے کہ روس یوکرین سے ٹکر لے کر بڑے ہاتھیوں کو للکار چکا ہے۔
وہیں ایران بھی اپنی بقا کے لیے ہاتھ پیر چلاتے چلاتے اب پتوار سنبھال چکا ہے اور دونوں ممالک کسی حد تک امریکی نرغے سے نکل چکے ہیں۔امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہاہے کہ ایران اور روس کے درمیان جدید ہتھیاروں خاص طور پر جدید ترین یو اے ویز کی فروخت سے متعلق معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ امریکا خبردار کر رہا ہے سمجھا رہا ہے یا خود سمجھ چکا ہے کہ دنیا کے پرنسپل بنے رہنے کی مدت میں اب خلل پیدا ہو چکا ہے۔
روس کے نائب وزیر اعظم ایران جاکر تیل اور گیس کی تلاش کے لیے منصوبوں پر ایران کے وزیر پٹرولیم سے ملاقات کرچکے ہیں بات بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آخر کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی کہ اب پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا کا ٹھیکیدار بن کر ایک طویل مدت تک حکم چلانے والے امریکا کو اب نظر آ رہا ہے کہ عنقریب ایران اور روس کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے اس کے بعد وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے۔
پہلے ہی دنیا میں ڈالر سے تجارت کے رجحان میں کمی آچکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکا کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے ایک ٹریلین ڈالرکا پلاٹینم کا سکہ جاری کرنا پڑے گا جو 1997 کے قانون کے تحت کیا جاسکے گا۔ اس کی مدد سے امریکی حکومت کو ملکی اخراجات پورے کرنے اور دیوالیہ ہونے سے بچائے گا۔ یہ سکہ اتنا چھوٹا ہوگا کہ آپ اسے اپنی جیب میں بھی آرام سے رکھ سکتے ہیں جب کہ اس کی قیمت۔۔۔
بات شروع ہوئی تھی کہ کیا واقعی امریکا دیوالیہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں کیا یہ اس کا ڈرامہ ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو کیا اس کی وجہ روس اور ایران کی بڑھتی ہوئی اقتصادی کوششیں ہیں کہ جن کے بعد امریکا کی پہنائی زنجیریں ان کے لیے بے معنی رہ جائیں گی کیا امریکا خود سے اپنی کمزوری کا ڈرامہ یا کچھ اور۔۔۔۔۔بہرحال اونٹ کی کون سی کل سیدھی ہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے۔ دیکھیے آیندہ آنے والے دنوں میں کیا خبریں ملتی ہیں۔