گردشِ دوراں
سیاسی جماعتوں پر پابندی یا سیاسی رہنماؤں پر، یہ کوئی حل نہیں، اس سے نفرت میں اضافہ ہوگا
ہرجاندارو بے جان شے اپنی تقدیر سے جڑی ہے۔ آپ کہیں گے کہ تقدیرکے معاملے میں مجھے صرف انسانوں تک محدود رہنا چاہیے، تو میں ایک تاریخ بیان کرسکتا ہوں کہ انسانوں کے علاوہ بھی چرند، پرند، حشرات الارض، جانور، عمارتیں درخت، راستے حتیٰ کہ دریا، سمندر برفانی صحرا تک کوئی چیز اپنی تقدیر سے مُبرا نہیں۔ تخلیق کے مرحلے سے لیکر تعمیر کے لمحے تک ، فنا کے پل سے لے کر دفنانے کی گھڑی تک ہر عمل اپنی ذات میں بہتperfect ہے۔
ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں بھی کہیں کوئی تاخیر ہے نہ نقص۔ گویا آپ کا ہلنا جلنا کوشش کرنا، منصوبہ بندی کرنا تجسس کرنا، غوروفکرکرنا بہتر عمل ہے اور اِسی کی ترغیب ہر مذہب اور معاشرے نے دی ہے لیکن جائزہ لیکر دیکھ لیجیے خود اپنی ہی زندگی کا اور اس میں پیش آنے والے معاملات کا ترتیب وار تو آپ با آسانی جان لیں گے کہ بہت سار ے مقامات پر وہ نہیں ہوا جو آپ چاہتے تھے،جس کے لیے آپ نے کوشش کی۔
محنت کی بلکہ عین وقت پر جو ہوا وہ آپ نے سوچا تک نہیں تھا تو انسان کو شعورکی بنیاد پر اگر دیگر اشیاء سے الگ کرکے بھی دیکھا جائے تب بھی اس کے شعور نے اس کی خاطر خواہ مدد نہیں کی بلکہ فیصلہ کہیں اور سے آتا رہا۔ وہ فیصلہ جو آپ کے گمان تک میں نہیں تھا غالبًا اسی کو تقدیر، قسمت، مقدرکے ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔
میری تحریر کردہ یہ چند سطور اگرچہ اصلِ مضمون کی تمہید ہیں لیکن میں نے اِنہیں وہ ذکر چھیڑنے سے قبل ضروری سمجھا جس کا تعلق حالاتِ حاضرہ سے ہے۔ میں نے چند روز میں جو کچھ دیکھا، سنا اس نے پھر ایک مرتبہ تقدیر پر میرے اِیمان کو پُختہ کردیا، جو لوگ ابھی کچھ دن پہلے تک وقت کے فرعون بنے ہوئے تھے وہ بھاگتے ہوئے دو بار منہ کے بل گرے ، انقلاب نجانے کہاں پوشیدہ ہوگیا؟ اِنتقام بھی کہیں محوِ خرام ہے، ریاستِ مدینہ کے دعوے میں بھی جگہ اصل پاکستان نے لے لی اور انقلاب کے داعیان ملک کے مختلف علاقوں،صوبوں سے ptiکو چھوڑنے کا اعلان کررہے ہیں۔
یہ سب کِیا ہے اورکیوں ہے؟ بات وہی ہے کہ تقدیر سے کسی کو مفر نہیں وقت بدلتا ہے، ہمیشہ سے بدلتا ہے۔ پہیہ گھومتا ہے جو آج اس کے نیچے ہیں کل اگلے چکر میں وہ اُوپر ہوتے ہیں اور اُوپر والے نیچے۔ تو کیوں نہ اپنے لہجے کو آج ہی معتدل رکھیں؟ کیوں نہ آج ہی انسانیت کے جامے میں رہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فراعین کو شکست ہوئی،شداد اپنی جنت کو دیکھنے سے محروم رہا، چنگیزی سلسلہ اِسلام میں داخل ہوکر دنیا پر حکومت کے خواب سے دستبردار ہوگیا۔ نمرود سمیت ایک وسیع تاریخ ہے آپ جہاں تک جائیں گے آپ کو ظالم ہارتا ہوا دکھائی دے گا،آپ جتنا پڑھیں گے آپ کو فاشسٹ اور فاشزم کا خاتمہ ہوتا نظر آئے گا۔
بات یہ ہے کہ کیوں نہ آپ نے ایک وسطی راستہ اِختیارکیا ؟ جو ہر دور میں کامیابی سے ہمکنار ہوا، اگر کسی کا ماضی درست نہیں لیکن اب وہ اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اپنے ماضی پر لگے ہوئے داغ دھونا چاہتے ہیں تو انھیں موقع ہی نہ دیا جائے اور ٹھان لیا جائے کہ پہلے اُنہیں ماضی کی غلطیوں کی سزا دیں گے پھر اپنے تابع کریں گے۔
تو نتیجہ کِیا نکلنا تھا ؟ وہی جو نکلا۔ 75سالوں کی تاریخ یکدم نہیں بدلتی اور نہ اسے بدلنا چاہیے ہاں درجہ بہ درجہ باقی ماندہ سے مل کر جن سے نہ ملنے کا اپنے عزم کرر کھا ہے ایک راستہ نکالنا چاہیے اور وہی پائیدار ہوگا۔
افہام و تفہیم سے ہی ملک کو جمہوری قدروں کی راہ پر ڈالنا ہوگا، ویسے اگر آپ یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ آپ ملک کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں اور آپ کی جماعت کوکل ووٹرزکی تعداد کے70%کی حمایت حاصل ہے تو فرض بھی آپ ہی کا بنتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں اور سب سے پہلے ایک ضابطہ اخلاق متعین کریں پھر ایک ایسی حکمتِ عملی ترتیب دیں جس میں آیندہ کسیnon politicle actorکی مداخلت کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔
طے کرلیں کہ دنیا کی اچھی اور صاف ستھری جمہوریتوں کی طرح تمام فریقین الیکشن کے نتائج کو تسلیم کریں گے، جس کے حصے میں حکومت آئی مثبت کاموں میں اس کی مدد کی جائے گی اور منفی معاملات میں ڈٹ کر مخالفت ہوگی۔ آ پ کو ثابت کرنا ہوگا کہ بڑی جماعت ہونے کے ناتے آپ کے بیانات میں،گفتگو میں اور عمل میں بھی بڑھائی کا عنصر دکھائی دے ،جو ہنوز مفقود ہے۔ بہرحال موجودہ خراب حالات کا کوئی مثبت حل نکالنا چاہیے۔
سیاسی جماعتوں پر پابندی یا سیاسی رہنماؤں پر، یہ کوئی حل نہیں، اس سے نفرت میں اضافہ ہوگا، اگرچہ ایسی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن کی تلافی بھی ضروری ہے اور جو بھی اس توڑ پھوڑ میں شریک ہوا اسے سزا ملنی چاہیے، لیکن دیکھا جائے تو نوبت کے اس نہج پر پہنچنے میں پہلے کسی قدر نرمی بھی برتی گئی۔
سوشل میڈیا پر ادارے کے خلاف عرصے سے ٹرولنگ کی جارہی تھی باقاعدہ گالم گلوچ ہورہی تھی، ایکشن اسی وقت لے لینا چاہیے تھا،اس میں کسی قدر تاخیر سے کام لیا گیا۔ میرا موضوع تقدیر ہے جس کے دائرے میں سب کچھ ہے،آپ اس سے باہر ایک اِنچ بھی نہیں سرک سکتے۔
میں پچھلے دورِحکومت میں نواز شریف کو نہیں بھول سکتا، اُس بے بسی کو جو سرا سر ناجائز تھی۔ ایک باپ کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نا اہل کردینا ، پھر پارٹی صدارت سے مستعفیٰ کرنا، سینیٹ ٹکٹوں پر سے سائن ختم کرنا پھر گرفتاری بیٹی سمیت! مخالفین صرف ایک بار پلٹ کر دیکھ لیں آپ کو سب کچھ سمجھ میں آجائے گا آج کی ساری situationجسے آج آپ ظلمِ عظیم قرار دے رہے ہیں اپنی زوجہ کے وارنٹ پر آپکی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
کیا آپ کو کچھ یاد نہیں سب بھول گئے ؟ لیکن قدرت تو نہیں بھولتی اور اسے نہ سزا کی جلدی ہے نہ جزا کی عجلت، انسان یہیں مارکھا جاتا ہے۔ ہزاروں سالوں سے، یہ ایک مہلت کا شاخسانہ ہے جو ہر انسان کو زندگی میں ایک بار ضرورملتی ہے بس وہیں اس کا امتحان ہوتا ہے کہ اس نے اس مہلت کے دوران کِیا کیا؟ کیا وہ انسان رہا؟ پانامہ کیس سے جڑے ہرکردار کے لیے میری پیشن گوئی یاد رکھیے گا، کچھ اپنے انجام کو پہنچ گئے باقی پہنچ کر رہیں گے۔
آپ انصاف کرتے ہیں ؟ وہ انصاف تھا ؟ منصف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے سرِ دست آپ اُ سی کرسی پر براجمان ہیں آپ کو جواب دینا ہوگا اپنے تحریر کردہ ہر لفظ کا اپنے بولے گئے ہر لفظ کا۔کیا آپ اس کے لیے خود کو تیار پاتے ہیں؟ اگر تیار پاتے ہیں تو میرے نزدیک آپ بہت بہادر ہیں۔