عجیب منظر

کچھ حیرت انگیز نظارے جو تصویر ہو گئے


شائستہ انجم June 04, 2023
فوٹو : فائل

قدرت اپنی طاقت کا اظہار کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔

کبھی کبھی اچانک ہماری آنکھوں کے سامنے ایسا منظر آجاتا ہے جسے فوری طور پر ہماری عقل تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ کوئی ان دیکھی شئے یا بظاہر سائنس کے بنیادی قوانین کو رد کرتا ہوا کوئی منظر ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔

اگرچہ زمین اور سمندر کی گہرائیاں قدرت کے عجائبات سے بھری پڑی ہیں جو انسانی آنکھوں سے نہ صرف اب تک پوشیدہ ہیں بلکہ ان میں سے اکثر تک کی تحقیق و رسائی تقریباً محال ہے، لیکن زمین کی سطح پر اور سمندر کے ساحلوں پر ان گنت حیرت انگیز عجائبات دریافت ہوتے رہے ہیں اور اور بے شمار اب تک اوجھل ہیں۔ ایسے ہی چند عجائبات کا نظارہ کرتے ہیں جو کیمرے کی آنکھ نے بروقت قید کر لیے ہیں۔

عمودی دیوار پر چڑھتی ہوئی بکریاں



بکریاں مویشیوں کی وہ انوکھی قسم ہے جو ناقابل یقین حد تک مشکل جگہوں پر چڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگرچہ یہ ناممکن لگتا ہے لیکن مشاہدہ کرنے پر یقین آ ہی جاتا ہے۔ بکریوں کے کُھر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

وہ اپنے کھروں کی آخری تہہ میں موجود ربڑ کی مدد سے بڑی اور اوپر اٹھتی ہوئی سیدھی سطح کو گرفت میں لے سکتی ہیں۔ تصویر میں اٹلی کے شہر پیڈ مونٹ (Piedmont) میں واقع سنگینوڈیم (Cingino Dam) کی دیوار پر دُھن کی پکی دو بکریاں چڑھتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان بکریوں کا تعلق الپائن آئی بیکس کی نسل سے ہے۔

بکری سبزی خور جانور ہے، مگر یہ بکریاں اپنی خوراک کو متوازن کرنے کی غرض سے اپنا پسندیدہ ترین نمک چاٹنے کے لیے اس دیوار پر چڑھ رہی تھیں۔ 2021 میں BBC پر 134 ملین سے زیادہ آراء حاصل کرنے والی ان بکریوں نے عالم گیر شہرت حاصل کی۔

مادہ بھیڑیا اپنے بچوں کو مخصوص آواز نکالنا کیسے سکھاتی ہے



سائنس ماں اور بچے کے درمیان اس ذہنی ہم آہنگی کے تعلق سے بظاہر غافل دکھائی دیتی ہے۔ ایک عکس بند منظر میں مادہ بھیڑیا اپنے بچے کو چیخنا سکھاتے ہوئے نظر آرہی ہے۔

جنگل میں بھیڑیوں کی یہ مخصوص آواز نر، مادہ اور ہر نو عمر بکھرے ہوئے بھیڑیوں تک پیغام رسانی کا کردار ادا کرتی ہے۔

اس سے وہ دشمن پر رعب اور اپنے علاقائی غلبے کے اظہار کا کام لیتے ہیں۔ ان کی اس آواز کی رسائی 6 سے 7 میل تک ہوتی ہے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مخصوص انداز کی چیخ اس جانور کے بکھرے ہوئے جھنڈ کے لیے کس قدر اہم ہتھیار ہے۔

اسی مؤثر ہتھیار کی بنا پر وہ اکھٹے رہ کر اپنے دشمن کے گروہوں کے خلاف بھرپور طریقے سے لڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ جہاں چاہتے ہیں اپنے تسلط کو ظاہر کرنے کے لیے اسی ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں۔ تنہائی میں بھیڑیے یہی مخصوص آواز نکال کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

کینگرو کے پاؤں کی دل چسپ ساخت



کینگرو اپنی ٹانگوں کی مختلف ساخت کی بنا پر نہایت منفرد جانور ہے۔ اس کے پاؤں کی انوکھی ساخت تصویر میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ کینگرو کی پچھلی ٹانگیں مضبوط، لمبی اور طاقت ور ہوتی ہیں۔ اس کی چار یا پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔

اگر پہلی انگلی موجود ہو تو یہ بہت چھوٹی ہوتی ہے جب کہ دوسری اور تیسری انگلیاں آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ کینگرو میں 800 پاؤنڈ مربع انچ کے وزن کے کسی جان دار کو لات مار کر ہڈیاں توڑ دینے کی بھرپور طاقت موجود ہوتی ہے۔

کینگرو کا دوسرا بڑے پنجوں والا پاؤں چھلانگ لگانے سے قبل اور اس کے بعد زمین کو جکڑنے میں نہایت کارآمد ہوتا ہے۔ اس کی ایڑھی تک کے لمبے پٹھے اپنی توانائی کو جمع کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو اس کو دور تک چھلانگ لگانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

غوطہ خور اور اوقیانوس کی سورج مچھلی



بحراوقیانوس میں پائی جانے والی یہ ایک بہت بڑی مچھلی ہے جسے مولا مولا (Mola Mola) بھی کہا جاتا ہے۔ نشونما کے ساتھ اس کا وزن 540 پاؤنڈ سے بڑھ کر 2,205 پاؤنڈ تک (247 سے 1000 کلوگرام) تک ہوسکتا ہے جو اس کو بھاری ترین مچھلیوں میں شامل کرتا ہے۔ یہ اپنی بقاء کے لیے معتدل اور مرطوب پانی کو ترجیح دیتی ہیں۔

اسی بنا پر انہیں بحراوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر نومولود مچھلیاں، خول دار کیڑے مکوڑے اور گھونگے کھاتی ہیں۔ دوسری طرف یہ درندہ صفت وہیل مچھلیوں، شارک اور دیو ہیکل سمندری مخلوق کی خوراک بن جاتی ہیں۔ جاپان، تائیوان اور کوریا جیسے ایشیا کے چند ممالک اسے نازک مخلوق گردانتے ہیں۔

برفیلی مہر کی حسیاتِ سماعت



بلی اور چوہوں جیسے جانوروں کی سرگوشیاں محسوس کرنے کی حسیات کا جال تقریباً 200 اعصاب پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس حیرت انگیز طور پر برفیلی مہر کا یہ جال 1500 اعصاب پر مبنی ہوتا ہے۔ اپنی اس خاص حس کی بدولت اپنے شکار کی محض سرسراہٹ کو ہی محسوس کر کے اسے بغیر دیکھے آسانی سے قابو کر لیتی ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق ان کی سرگوشیاں محسوس کرنے والے مختصر ترین لہردار محاس سینٹی میٹر تک بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسرے ممالیہ جانوروں کے دائرے کی شکل کے برعکس اس کے محاس لہردار اور بے ترتیب ہو سکتے ہیں۔

اس کا خاص مقصد تیرنے کے دوران شکار کو بہ آسانی محسوس کرکے گرفت میں لینا ہوتا ہے۔ جب اس کے مُحاس اپنے قریب سرگوشیوں کو محسوس کر تے ہیں تو ان میں غیرمعمولی ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ سیل مچھلی تیرنے کے دوران اپنے شکار سے باخبر رہنے کے لیے ان محاس کو باہر کی جانب پھیلا دیتی ہے۔

میگالوڈون بمقابلہ سفید بڑی شارک



قدیم میگالو ڈون کے بارے میں بعض اوقات یہ اندازہ لگانا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ جسامت میں کتنے دیوہیکل تھے۔ معدوم ہوتی ہوئی میگالوڈون اور موجود ہ دور کی سفید بڑی شارک کا موازنہ ان کی تصویر دیکھ کر بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

یہ ختم ہو جانے والی شارک کی نسل بہت بڑی جسامت کی حامل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ 60 فٹ لمبی اور 40,000 پاؤنڈ سے زیادہ وزنی تھیں۔ سائنس دانوں کے مطابق میگالوڈون کا وجود 2.3 سے 3.6 ملین کے درمیانی دور میں تھا۔

اگرچہ اس کی نسل کے بارے میں سائنس دانوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن غالب رائے کے مطابق اس کی نسل کا تعلق آٹوڈانٹی ڈائے (Otodontidae) سے ہے۔ اس مخلوق کی مخصوص اور دل چسپ ہیئت کے سبب تخلیق کاروں اور لکھاریوں نے اس پر بہت سی کتا بیں ، فلمیں اور ویڈیو گیمز تخلیق کیں۔

زرافے کے پاؤں کی ٹھوکر سے شیر کا دانت سے محروم ہو جانا



یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ شیر ایک زرافے سے خوف زدہ ہو سکتا ہے۔ زرافے کی لات کی ضرب سے شیر اپنے نمایاں نوکیلے دانتوں میں سے ایک سے محروم ہوگیا۔ تصویر میں دانت کے کھو دینے کی وجہ سے شیر کو تکلیف میں مبتلا دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق زرافہ اپنی لمبی ٹانگوں کی ضرب سے 2,000 پاؤنڈ قوت فی مربع انچ (PSI) تک کا اثر پیدا کر سکتا ہے۔ وہ اپنے اطراف میں کسی بھی جانب لات مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہ شیروں پر جواباً وار کرنے کے سبب شہرت رکھتا ہے۔ دوسرے جانوروں کی نسبت زرافوں میں ان کے اونچے قد اور لمبی ٹانگوں کی بدولت بالغ پود کی بقا اور سلامتی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

اگرچہ شیر چھوٹے اور دبلے جانوروں پر حملہ آور ہونے پر مائل ہوتے ہیں لیکن وہ زرافوں کو شکار کرنے سے عام طور پر اجتناب کر تے ہیں۔ تنہا شیر عموماً زرافے پر جوابی حملے کے خطرات کے پیش نظر ان کا پیچھا کرنے سے گھبراتے ہیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں۔

پفر فش بمقابلہ مورے اییل



نیوزی لینڈ کے جنوبی جزائر کوک کے ساحل کا ایک ایسا نایاب منظر جو دیکھنے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس منظر میں پفر فش کا شکار ہونے والی 4 فٹ لمبی مورے اییل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ پفرفش انوکھے انداز سے شکار کرنے کی صفت کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی ہے۔

یہاں حملے کے نتیجے میں پفرفش اییل کے گلے میں پھنسی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ غیرمعمولی طور پر یہ مچھلی ہڈیوں اور کانٹوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ جب کوئی مچھلی اس کا شکار کرتی ہے تو یہ ان تیز اور نوکیلی ہڈیوں اور کانٹوں کی وجہ سے اس کے گلے میں پھنس جاتی ہے اور اس کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ اس طرح یہ شکاری کو اپنا شکار بنالیتی ہے۔

اییل دو جبڑوں کی حامل ہوتی ہے۔ پہلے جبڑے کے ذریعے یہ اپنے شکار کو نوالہ بناتی ہے جب کہ دوسرے جبڑے سے اسے کھینچ کر اپنے حلق سے نیچے اتار لیتی ہے۔ پفرفش کو شکار کرنا اس کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں۔ حملے کے موقع پر لی گئی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس دن اییل سے چوک ہوگئی اور وہ خود شکار ہوگئی۔

شیر کا لقمہ بننے سے بچ جانے والا نازک ہرن



امپالا افریقہ کے جنگلوں میں پایا جانے والا ایک نازک ہرن ہے جس کا شمار چھوٹے سبزی خور جانوروں میں ہوتا ہے۔ اپنی کم زور جسامت کے بنا پر اس کا جنگلی درندوں کے درمیان خود کو محفوظ رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کی اولاد زیادہ تر حملوں کی وجہ سے پیدائش کے بعد چند ہفتے ہی زندہ رہنے میں کام یاب ہوپاتی ہے۔

یہاں شیر کے حملے کے باوجود زندہ بچ جانے والے ایک امپالا کی تصویر ہے۔ حملے کے سبب اس کے جسم پر خراشوں کے واضح نشانات بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔

دوپہر میں شکاری جانوروں کے آرام کے وقت جب سورج اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ واحد جانور ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیدائش میں تقریباً ایک ماہ کی تاخیر کر سکتے ہیں۔ ان میں چھلانگ لگانے کی ناقابل یقین صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ اس صلاحیت کو شکار ہونے سے بچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

بگلا اپنے شکار ہوتے ہوئے ساتھی کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے



بگلوں کے درمیان یک جہتی کی ایک نایاب تصویر میں وہ اپنے ہم جنس کو گنجے عقاب کے حملے سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاید ایک گنجا عقاب دوسرے پرندوں کی طرح بگلے کے لیے بھی شکاری کی ایک بدترین شکل ہے۔

ایک بالغ عقاب جب 17پاؤنڈ کا ہو جاتا ہے تو وہ اپنا شکار خود کرنے کے قا بل ہوجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس عقاب کے گھونسلے کا وزن 2000 پاؤنڈ ہو سکتا ہے۔گنجے عقاب عموماً ہوا میں غوطہ لگا کر پانی میں تیرتی ہوئی مچھلیوں کو شکار کرنے کے ماہر جانے جاتے ہیں لیکن وہ زمین پر چھوٹے جانوروں اور فضاؤں میں اڑتے پرندوں کا بھی شکار کرتے ہیں۔

خوداری کی صفت سے عاری یہ پرندہ اپنے ہم جنس سمیت دوسروں شکاریوں کا شکار شدہ جانور چوری کر کے کھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

ہائنا بمقابلہ جنگلی کُتّے



ہائنا کُتّے کی طرح کا ایک جنگلی جانور ہے جو مختلف علاقوں میں چرخ، لگڑبھگا، تڑس جیسے کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔

ہائنا کُتّے ہمیشہ گروہ کی شکل میں حرکت کرتے ہیں۔ اگر یہ جتھے کی صورت میں ہوں تو شیر کے لیے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔ پھر یہ ممکن ہے کہ زمین پر شیر کا یہ آخری دن ہو۔ جانوروں کے کسی گروہ میں اگر کوئی ایک ہائنا بھی موجود ہو تو وہ جنگلی کتوں کے ٹولوں کے حملوں سے بچنے میں بھرپور تعاون کر سکتا ہے۔ ہائنا میں معاملہ فہمی کی منفرد صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

وہ کوئی آواز پیدا کیے بغیر کسی بھی حکمت عملی کے لیے آپس میں رابطہ کر کے ذہنی آہنگی پیدا کر لیتے ہیں۔ خطرے کے وقت بھوری رنگت کے ہائنا مردہ ہونے کی اداکاری کے لیے بدنام ہیں۔ اس کے برعکس، داغ دار ہائنا کی طرح دوسرے ہائنا خطرناک جنگجو ہیں۔ بہرصورت وہ اپنی بقاء کے لیے ہر حد تک جنگ لڑنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

درخت بمقابلہ کنٹینر



تصویر میں سیلاب کے بعد سامان بردار کنٹینر اپنی بگڑی ہوئی شکل کے ساتھ ایک درخت کے ساتھ الجھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

درخت یقیناً بہت مضبوط ہے جس نے کنٹینر کے ٹکرانے سے محض ایک جھٹکا کھایا لیکن اپنی جگہ سلامت رہا۔ درخت کا کنٹینر سے شدت سے تصادم برداشت کرنا دیکھ کر ماہرنباتات اس بات سے یقیناً اتفاق کریں گے کہ اس کے مضبوط تنے کو ایک وسیع جڑ کے طاقت ور نظام نے سنبھال رکھاہے۔ معلوم ہوتا ہے اس درخت کے تنے کی جڑیں گہرائی میں دور تک مضبوطی سے پھیلی ہوئی ہیں۔ درحقیقت درختوں کے اندر موجود توانائی اس کی جڑوں کی گہرائی سے ہی حاصل ہوکر تنے اور پھیلتی ہوئی شاخوں تک پہنچتی ہے۔

تنوں میں سخت حفاظتی چادریں چھالوں کی صورت میں ہوتی ہیں۔ یہ ان غذائی اجزاء کی حفاظت کرتی ہیں جو انہیں جڑوں سے درخت کے پھیلے ہوئے حصے تک پہنچاتی ہیں۔ روشنی اور غذائی اجزاء کو سورج سے براہ راست حاصل کرنے کے لیے شاخیں اور پتے اسی تنے سے اونچائی کی طرف پہنچ پاتے ہیں۔

جینیاتی عارضے میں مبتلا چوزہ



جب کوئی چوزہ اضافی ٹانگ یاکسی عضو کے ساتھ پیدا ہونے کے بعد زندہ بچ جائے تو وہ پولیملیا (Polymelia) کے عارضے میں مبتلا گردانا جاتا ہے۔

یہ مرغیوں میں دیکھا جانے والا ایک نادر عارضہ ہے۔ یوں وہ قدرتی طور پر دو ٹانگوں والے پرندوں سے ممیز ہوجاتا ہے۔ ان میں موجود عارضہ ان کی نشوونما میں کسی رکاوٹ کا باعث نہیں بنتا اور ان کی بڑھوتری دوسرے پرندوں کی طرح اوسطاً ہوسکتی ہے۔

پولیمیلیا کی ممکنہ وجوہات میں زہریلے مادوں کا ظاہر ہونا، ناخوش گوار ماحول اور جینیاتی حادثات شامل ہیں۔ 2005 میں امریکا کی ریاست پنسلوانیا میں ایک ایسے ہی چوزے کی پیدائش کی خبرمنظر عام پر آئی تھی جس کی چار ٹانگیں تھیں۔ اس چوزے نے معمول کے مطابق زندگی گزاری حالاںکہ اس کی اضافی ٹانگیں 18 ماہ کی عمر میں بھی غیرفعال تھیں۔

مضبوط پٹھوں کا مالک کینگرو



آئیے آسٹریلیا کی پناہ گاہ میں مقیم مضبوط پٹھوں کے حامل کینگرو کے بارے میں جانتے ہیں جو 'راجر' کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ جنگلی جانوروں میں زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھا۔ جب وہ اس پناہ گاہ میں پہنچا تو وہ کافی بڑا ہو چکا تھا لیکن کم خوراکی کی بنا پر بیمار اور لاغر تھا۔ اس کا قد تقریباً 6 فٹ 7 انچ تھا اور اس کا وزن 200 پاؤنڈ کے قریب تھا۔

اس نے اپنے پٹھوں کو اچھا استعمال کیا۔ وہ پناہ گاہ کے مالک کے ساتھ باکسنگ کرنے کے لیے مشہور تھا۔ لمبے قد کا حامل راجر جب اپنے ساتھی باکسر کی قطار میں کھڑا ہوتا تو نمایاں نظر آتا تھا۔ راجر 2018 تک زندہ رہا۔ وہ باقی رہنے والے جانوروں میں پناہ گاہ میں طاقت اور بقا کی علامت رہے گا۔

ستارے جیسی ناک والا مول

اب ہم ایک ایسے انوکھے جانور کا ذکر کریں گے جس کی ناک ستارے کی شکل کی ہے۔ اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

یہ ہے شمالی امریکا میں پایا جانے والا جانور مول۔ اس کی مخصوص شکل کی بنا پر اس کا نام ستارہ ناک والا مول رکھا گیا ہے۔ اس کی غیرمعمولی طور پر 100,000 سے زیادہ حساس اعصابی ریشے ہوتے ہیں جس سے وہ اپنے ارد گرد موجود خوردنی مواد کو بہت جلد نہ صرف سونگھ سکتے ہیں بلکہ سرعت کے ساتھ کھا بھی سکتے ہیں۔

اگرچہ وہ حجم میں بہت بڑے نہیں ہوتے لیکن یہ تقریباً ایک ہمسٹر کے برابر ہوتے ہیں جو چوہے کی طرح کا ایک جانور ہے جس کے گلے میں غذا کو محفوظ کرنے کے لیے تھیلیاں ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق شمالی امریکا کے انتہائی شمال سے ہے۔

خوراک کو برق رفتاری سے کھانے کی خوبی کے علاوہ وہ خشکی اور پانی میں رہنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ہوا میں بلبلے بنا کر انہیں جوڑلیتے ہیں پھر ان بلبلوں میں جمع ہوا کو واپس اپنے پھیپھڑوں میں کھینچ کر سانس لیتے ہیں۔ یوں وہ پانی کے اندر بھی آسانی سے سانس لے سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں