’’مجھے اس جہنم سے نکالو‘‘
تشدد سے ٹوٹے دانتوں والے چہرے، مظلوم سراپے والی عافیہ جیل کے جہنم سے رہائی کی فریاد کرتی رہی
امریکا میں مظلومانہ قید تین بچوں کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنوں سے جدائی کے بیس سال بعد اکتیس مئی کو ملاقات کا موقع دے دیا گیا۔ دنیا کی اس انوکھی ملاقات کا احوال یہ کہ جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں درمیان میں لگے موٹے شیشے کے آرپار فون پر گفتگو... بہن سے گلے ملنے یا ہاتھ ملانے کی پابندی تھی۔ بچوں کی تصاویر یا ویڈیوز دکھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔
جیل کے مخصوص خاکی لباس اور سفید اسکارف زیب تن کیے، تشدد سے ٹوٹے دانتوں والے چہرے، مظلوم سراپے والی عافیہ جیل کے جہنم سے رہائی کی فریاد کرتی رہی۔ ماں کی وفات اور چھوٹے بیٹے کی گمشدگی سے بے خبر بیٹی، ماں اور بچوں کو یاد کرکے تڑپتی رہی۔ اس کی تڑپ کو آسودگی سے بدلنے میں ابھی اور کتنا عرصہ درکار ہے، یہ وقت بتائے گا۔
امریکا کی معروف جامعات میساچیوسٹس اور برینڈیز سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو 2003 میں کراچی سے اغوا کرکے لاپتا کردیا گیا۔ 2008 میں برطانوی صحافی ایوون ریڈلے اور عمران خان کی پریس کانفرنس میں افغانستان میں امریکی عقوبت خانے بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ کی خفیہ قید اور مظالم کا انکشاف کیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو امریکی فوجیوں پر حملے کی کوشش کے الزام میں زخمی حالت میں امریکا منتقل کیا گیا۔
2010 میں اقدام قتل کے مقدمے میں الزام ثابت ہوئے بغیر چھیاسی سال کی قید سنائی گئی۔ امریکی جیل میں غیروں کے ظلم، زیادتی، تشدد کا شکار ڈاکٹر عافیہ ہر دم اپنوں کی مدد اور رہائی کی منتظر ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ملک اور بیرونِ ملک اپنے حمایتیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ عوامی سطح پر مسلسل سرگرم ہیں۔
ان کوششوں کی ایک کڑی 10 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کی پیشی تھی۔ اس موقع پر انسانی حقوق کی معروف سماجی شخصیت اور ڈاکٹر عافیہ کیس کے وکیل و خصوصی معاون کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ نے ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جسمانی و ذہنی مظالم کا تفصیلی بیان پیش کیا۔ مسٹر کلائیو اس سال فروری میں دو پاکستانی بھائیوں (ربانی برادران) کی گوانتانامو بے سے بیس سال بعد رہائی کو ممکن بنانے والے عالمی انسانی حقوق کے معروف وکیل ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ان کا اگلا ہدف ہے۔
کلائیو کے مطابق وہ گوانتاناموبے جیل کے بہت سے قیدیوں کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی ڈاکٹر عافیہ سے زیادہ صبر و استقامت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے جسمانی و ذہنی تشدد کے ریکارڈ کو عافیہ کیس کی سماعت کرنے والی امریکی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق اگر یہ ریکارڈ جیوری کے سامنے پیش کیا جاتا تو کوئی عدالت ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں نہیں ڈال سکتی تھی۔ مسٹر اسمتھ نے معزز عدالت کو ایک خفیہ نوٹ بھی پیش کیا، جس میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جلد از جلد بازیابی کےلیے کیا اقدامات کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام کوششوں کو حکومت کی مسلسل حمایت کی ضرورت ہوگی۔ اس ضمن میں کلائیو اسمتھ نے حکومت پاکستان کو ڈاکٹر عافیہ کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنانے کے ممکنہ ذرائع پیش کیے۔
عدالت نے کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے وزارت خارجہ کے حکام کو عافیہ کیس میں مطلوبہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ مذکورہ عدالتی کوششیں امید کی کرن ثابت ہوئیں اور ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کےلیے ان کی بہن کو امریکی ویزہ جاری کردیا گیا۔
بیس سال بعد دونوں بہنوں کی ملاقات عمل میں آئی۔ پابندیوں کے ساتھ یہ ملاقات تشنہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششوں میں اہم پیش رفت معلوم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کیس کے دیرینہ متحرک ترین کردار پاسبان کے چیئرمین الطاف شکور ہیں، جن کے عافیہ کی فیملی کے ساتھ مسلسل انتھک تعاون کی وجہ سے یہ کیس نہ صرف زندہ ہے بلکہ کامیابی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سنیٹر مشتاق اپنی سیاسی حیثیت کے ساتھ مؤثر کردار ادا کرنے کےلیے پرعزم ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے فعال رکن وکیل کلائیو اسمتھ اپنی کوششوں اور ذرائع کے ساتھ عافیہ رہائی کےلیے قدم بڑھا چکے ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود کی ذاتی دلچسپی اور کوششیں بھی قابل ذکر ہیں، جن کی وجہ ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے بازیاب کروا کے ان کی خالہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی تک بحفاظت پہنچائے گئے۔ اسی طرح کچھ اور مہربان بھی ہیں جو عافیہ رہائی کےلیے آواز بلند کرتے رہے۔
بیرون ممالک سے سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک، کانگریس وومین سنتھیا مکینی، معروف مصنفہ سارہ فلنڈرس، معروف مصنف و انسانی حقوق کے علمبردار موری سلاخن اور اندورن و بیرون ملک انسانی حقوق کے لاتعداد کارکنان۔
ایڈوکیٹ اظہر صدیقی کے مطابق پاکستانی آئین میں ہے کہ کوئی پاکستانی فرد کسی بھی ملک میں ہو اس پر پاکستانی قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ ملزم کو پاکستان لاکر قانون کے مطابق ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے ضمن میں سب سے اہم چیز پاکستان اور امریکا کا حکومتی سطح پر تعلق کا نہ ہونا ہے۔
اسی طرح زیادہ بھاری ذمے داری حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے پوری قوم کی جانب سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کیس کی سرپرستی کریں۔ ڈاکٹر فوزیہ کو اسلام آباد بلا کر عالمی ذرائع ابلاغ کے سامنے پریس کانفرنس کریں۔ اپنی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے دنیا کو آگاہ کریں۔
دوسری اہم ذمے داری اس وقت پی ڈی ایم پر عائد ہوتی ہے جس کی سربراہی وزیرِاعظم شہباز شریف کے پاس ہے۔ موصوف کی میز پر عافیہ رہائی کیس کی فائل موجود ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں، اپنے ماتحتوں کو کیس کو آگے بڑھانے کےلیے ہدایات بھی دیتے رہے ہیں۔
محترم وزیراعظم شہباز شریف صاحب، وزیر خارجہ بلاول بھٹو صاحب! مظلوم عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے آپ کی ضرورت ہے۔ آنسو بھری اداس آنکھوں والی عافیہ کی فریاد ''مجھے اس جہنم سے نکالو'' آپ کے پیچھے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جیل کے مخصوص خاکی لباس اور سفید اسکارف زیب تن کیے، تشدد سے ٹوٹے دانتوں والے چہرے، مظلوم سراپے والی عافیہ جیل کے جہنم سے رہائی کی فریاد کرتی رہی۔ ماں کی وفات اور چھوٹے بیٹے کی گمشدگی سے بے خبر بیٹی، ماں اور بچوں کو یاد کرکے تڑپتی رہی۔ اس کی تڑپ کو آسودگی سے بدلنے میں ابھی اور کتنا عرصہ درکار ہے، یہ وقت بتائے گا۔
امریکا کی معروف جامعات میساچیوسٹس اور برینڈیز سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو 2003 میں کراچی سے اغوا کرکے لاپتا کردیا گیا۔ 2008 میں برطانوی صحافی ایوون ریڈلے اور عمران خان کی پریس کانفرنس میں افغانستان میں امریکی عقوبت خانے بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ کی خفیہ قید اور مظالم کا انکشاف کیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو امریکی فوجیوں پر حملے کی کوشش کے الزام میں زخمی حالت میں امریکا منتقل کیا گیا۔
2010 میں اقدام قتل کے مقدمے میں الزام ثابت ہوئے بغیر چھیاسی سال کی قید سنائی گئی۔ امریکی جیل میں غیروں کے ظلم، زیادتی، تشدد کا شکار ڈاکٹر عافیہ ہر دم اپنوں کی مدد اور رہائی کی منتظر ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ملک اور بیرونِ ملک اپنے حمایتیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ عوامی سطح پر مسلسل سرگرم ہیں۔
ان کوششوں کی ایک کڑی 10 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کی پیشی تھی۔ اس موقع پر انسانی حقوق کی معروف سماجی شخصیت اور ڈاکٹر عافیہ کیس کے وکیل و خصوصی معاون کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ نے ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جسمانی و ذہنی مظالم کا تفصیلی بیان پیش کیا۔ مسٹر کلائیو اس سال فروری میں دو پاکستانی بھائیوں (ربانی برادران) کی گوانتانامو بے سے بیس سال بعد رہائی کو ممکن بنانے والے عالمی انسانی حقوق کے معروف وکیل ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ان کا اگلا ہدف ہے۔
کلائیو کے مطابق وہ گوانتاناموبے جیل کے بہت سے قیدیوں کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی ڈاکٹر عافیہ سے زیادہ صبر و استقامت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے جسمانی و ذہنی تشدد کے ریکارڈ کو عافیہ کیس کی سماعت کرنے والی امریکی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق اگر یہ ریکارڈ جیوری کے سامنے پیش کیا جاتا تو کوئی عدالت ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں نہیں ڈال سکتی تھی۔ مسٹر اسمتھ نے معزز عدالت کو ایک خفیہ نوٹ بھی پیش کیا، جس میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جلد از جلد بازیابی کےلیے کیا اقدامات کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام کوششوں کو حکومت کی مسلسل حمایت کی ضرورت ہوگی۔ اس ضمن میں کلائیو اسمتھ نے حکومت پاکستان کو ڈاکٹر عافیہ کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنانے کے ممکنہ ذرائع پیش کیے۔
عدالت نے کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے وزارت خارجہ کے حکام کو عافیہ کیس میں مطلوبہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ مذکورہ عدالتی کوششیں امید کی کرن ثابت ہوئیں اور ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کےلیے ان کی بہن کو امریکی ویزہ جاری کردیا گیا۔
بیس سال بعد دونوں بہنوں کی ملاقات عمل میں آئی۔ پابندیوں کے ساتھ یہ ملاقات تشنہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششوں میں اہم پیش رفت معلوم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کیس کے دیرینہ متحرک ترین کردار پاسبان کے چیئرمین الطاف شکور ہیں، جن کے عافیہ کی فیملی کے ساتھ مسلسل انتھک تعاون کی وجہ سے یہ کیس نہ صرف زندہ ہے بلکہ کامیابی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سنیٹر مشتاق اپنی سیاسی حیثیت کے ساتھ مؤثر کردار ادا کرنے کےلیے پرعزم ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے فعال رکن وکیل کلائیو اسمتھ اپنی کوششوں اور ذرائع کے ساتھ عافیہ رہائی کےلیے قدم بڑھا چکے ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود کی ذاتی دلچسپی اور کوششیں بھی قابل ذکر ہیں، جن کی وجہ ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے بازیاب کروا کے ان کی خالہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی تک بحفاظت پہنچائے گئے۔ اسی طرح کچھ اور مہربان بھی ہیں جو عافیہ رہائی کےلیے آواز بلند کرتے رہے۔
بیرون ممالک سے سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک، کانگریس وومین سنتھیا مکینی، معروف مصنفہ سارہ فلنڈرس، معروف مصنف و انسانی حقوق کے علمبردار موری سلاخن اور اندورن و بیرون ملک انسانی حقوق کے لاتعداد کارکنان۔
ایڈوکیٹ اظہر صدیقی کے مطابق پاکستانی آئین میں ہے کہ کوئی پاکستانی فرد کسی بھی ملک میں ہو اس پر پاکستانی قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ ملزم کو پاکستان لاکر قانون کے مطابق ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے ضمن میں سب سے اہم چیز پاکستان اور امریکا کا حکومتی سطح پر تعلق کا نہ ہونا ہے۔
اسی طرح زیادہ بھاری ذمے داری حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے پوری قوم کی جانب سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کیس کی سرپرستی کریں۔ ڈاکٹر فوزیہ کو اسلام آباد بلا کر عالمی ذرائع ابلاغ کے سامنے پریس کانفرنس کریں۔ اپنی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے دنیا کو آگاہ کریں۔
دوسری اہم ذمے داری اس وقت پی ڈی ایم پر عائد ہوتی ہے جس کی سربراہی وزیرِاعظم شہباز شریف کے پاس ہے۔ موصوف کی میز پر عافیہ رہائی کیس کی فائل موجود ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں، اپنے ماتحتوں کو کیس کو آگے بڑھانے کےلیے ہدایات بھی دیتے رہے ہیں۔
محترم وزیراعظم شہباز شریف صاحب، وزیر خارجہ بلاول بھٹو صاحب! مظلوم عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے آپ کی ضرورت ہے۔ آنسو بھری اداس آنکھوں والی عافیہ کی فریاد ''مجھے اس جہنم سے نکالو'' آپ کے پیچھے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔