’’بُروں کے ساتھ بھلائی اہلِ کرم کا کام ہے‘‘

خوشحال خان خٹک کی شاعری میں رواداری کا پیغام

فوٹو : فائل

مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر(1605ئ۔1627ئ)کے عہد حکومت میں مئی جون 1613ء میں شہبازخان کے ہاں پیدا ہونے والے صاحب سیف وقلم خوشحال خان خٹک پختونوں کی تاریخ میں صرف خٹک قبیلے کے ایک بہت بڑے سردار یا خان وملک کا نام نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے ان گنت پہلو ہیں۔

وہ ایک جامع الصفات انسان تھے۔ وہ نہ صرف پختونوں کی تاریخ میں ایک قومی شاعر ومفکر کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں بلکہ ایک حکیم، دانا، مؤرخ، محقق، فلسفی، ماہرلسانیات اور ایک بہت بڑے قوم پرست سیاست داں کے طور پر بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ ایک پہلودار شخصیت کے مالک تھے۔

یہ الگ بات کہ ہمارے محققین، دانش ور اور نقادانِ ادب ابھی تک ان کے بیشتر پہلو اسی طرح دریافت اور اجاگر نہ کرسکے جس طرح دریافت اور اجاگر کرنا چاہیے تھے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظر میں بھی خوشحال خان خٹک محض ایک شاعر ہی نہیں تھے علامہ اقبال نے انھیں ملت افغانیہ کا حکیم اور طبیب کہا ہے۔

یعنی خوشحال خان کو افغانوں کے جملہ قومی امراض کا مسیحا قرار دیا ہے۔ میجر راورٹی خوشحال خان کی شاعری کی جامعیت اور تنوع کا ذکر ان الفاظ میں کرتاہے،''بمقابلہ دیگر افغان شعراء کے جن کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے، خوشحال کے کلام میں زیادہ تنوع دکھائی دے گا، کیوںکہ مغرب کے شعراء کی طرح ایسا کوئی مضمون نہیں جو اس کے لیے بیگانہ ہو۔'' اسی طرح پشتو کے معروف شاعر وادیب فضل حق شیدا لکھتے ہیں،''خوشحال خان پشتو شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتا ہے۔

وہ خیال اور تصور کے عالم بالا سے حقیقی دنیا میں نیچے اترآتا ہے۔ اس کے تلخ حقائق کا مزہ چکھتا ہے اور اپنے تاثرات کو سیدھے سادے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

اس لیے اس کی شاعری میں جان ہے جوش اور ولولہ ہے، زندگی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک حیات افروز پیغام ہے۔'' اور اس حیات افروز پیغام میں پھر قابل ذکر اور قابل تعریف موضوع انسان اور انسانیت ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹراقبال نسیم بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں،''خوشحال کی شاعری کا بڑا موضوع ''انسان'' ہے، شخصی لحاظ سے، سماجی لحاظ سے، سیاسی لحاظ سے اور مذہبی لحاظ سے، درحقیقت اس کی شاعری میں انسان اپنے تمام نشیب وفراز کے ساتھ موجود ہے۔

اس کا فلسفہ انسان سے متعلق ہے۔ خدا کی مخلوق کی حیثیت سے بھی ایک باشعور ذی روح کے طور پر بھی، جو اپنے مقدر کا آپ ہی معمار ہے، جو حیوانیت کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی ڈوب سکتا ہے اور جو اپنی روحانی رفعت کی بنا پر اپنی نگاہیں عرش بالا پر بھی جماسکتا ہے۔ جن اخلاقیات کا خوشحال درس دیتا ہے وہ اعلیٰ درجے کے ہیں ایسے اخلاق اس کے پیروکاروں کو حقیقی عظمت کی روح تک پہنچاسکتے ہیں۔''

''جیو اور جینے دو'' کے اصول کو ازمنہ قدیم سے ہر انسانی معاشرے میں ایک سنہرے اصول کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسی اصول پر عمل پیرا ہوکر بہت سارے معاشروں نے امن وآشتی کی منزل حاصل کی ہے۔ ہماری زبانوں کی صوفیانہ شاعری کی روایت تحمل، رواداری اور انسانیت دوستی کی تلقین سے بھری پڑی ہیں جس میں اس قسم کے بیش بہا خزانے موجود ہیں جن سے نہ صرف ہماری نئی نسلیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں بلکہ ان میں ساری انسانیت کے لیے استفادہ کرنے اور فیض اٹھانے کا امکان موجود ہے۔

ہماری پرانی تہذیب کا نظام فکر واحساس وحدت الوجود کے محور پر گھومتا تھا تصوف اور روشنائی تحریک کے اس عقیدے کی رو سے کائنات، حیوان انسان سب جلوہ خداوندی کے مختلف مظاہر ہیں۔ چناںچہ فارسی، پشتو، ہندی، پنجابی اور سندھی غرض یہ کہ سبھی زبانوں کے ادب میں ہمہ اوست کی گونج سنائی دیتی ہے یہی وجہ ہے تمام صوفی شعراء کا خمیر اسی وحدانی تصور سے اٹھا ہے۔

ابراہام لنکن کا قول ہے کہ ''جولوگ دوسروں کی آزادی کی نفی کرتے ہیں وہ خود بھی اس کے مستحق نہیں ہوتے۔''

رواداری ہماری دنیا کی رنگارنگ ثقافتوں، اظہار کے مختلف ذرائع اور زندگی گزارنے کے مختلف طریقوں کو قبول کرنے اور ان کا احترام کا نام ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد اپنے عقائد اور سوچ پر کاربند ہونے کے علاوہ دوسروں کے اس حق کو بھی تسلیم کرتا ہے۔

رواداری اختلافات کے اندر ہم آہنگی پیدا کرنے کانام ہے۔ یہ ایسی ذمے داری ہے جو انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی عمل داری قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

تاہم انسانی حقوق کی پیروی میں رواداری پرکاربند رہنے کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ سماجی ناانصافیوں یاکم زور افراد اور گروہوں کو اپنی سوچ اور عقائد ترک کردینے پر مجبور یا انہیں مغلوب بنانے کے رویوں کو برداشت کیا جائے۔

بلکہ یہ اس حقیقت کانام ہے کہ انسانوں کو اپنی ظاہری وضع قطع صورت حال، بات چیت، رویے اور اقدار میں فطری طور پر رنگارنگی کے حامل ہونے کے ساتھ انہیں امن کے ساتھ جینے اور وہ جیسے بھی ہیں اسی انداز میں زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔

اپنے عقائد، خیالات اور رہن سہن کے طریقے کو حتمی سچائی کے طور پر پیش کرنا اور لوگوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ انہیں نہ صرف تسلیم کریں بلکہ آپ سے اختلاف کی جرأت بھی نہ کریں عدم رواداری کے زمرے میں آتا ہے۔ متعصبانہ رویے، شعور کی کمی، معلوم کا خوف اور بحث مباحثے سے گریز عدم رواداری کا ماحول پیدا کرتا ہے۔

بدقسمتی سے گزشتہ چند دہائیوں میں ہمارے ملک میں عدم رواداری، مذہبی انتہاپسندی، تشددپسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا گراف بہت بڑھ گیا ہے، جس میں ہمارے تعلیمی نصاب نے خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔

عدم رواداری کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا درماں کیا جائے اور کسی بھی امتیاز کے بغیر ہر فرد کے لیے معاشی اور سماجی مواقع کی دست یابی کو یقینی بنایا جائے۔

رواداری کے فروغ کے لیے ذہن کو کھلا رکھنا، ایک دوسرے کو سننا اور ہم آہنگی جیسے اوصاف کو ہر سطح پر پروان چڑھانا ضروری ہے۔

جو لوگ کسی عقیدے پر کاربند ہوتے ہیں وہ اپنے اوپر ایک ڈسپلن (ضابطہ) نافذ کرلیتے ہیں کہ یہ چیز میرے عقیدے کی رو سے مناسب ہے اور یہ چیز میرے عقیدے کی رو سے مناسب نہیں۔ ڈسپلن خواہ کسی بھی قسم کا ہو انسانی زندگی میں اس کے کچھ اچھے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں، اسی طرح اچھے سے اچھے ڈسپلن کے کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں اور ان منفی پہلوؤں کا اقرار کرنا نہ مذہب سے گزیز کی علامت ہے اور نہ ہی تضحیک کے مترادف۔ میرے ایک عزیز اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر تبلیغ کرنے چلے گئے اور قریب نو سال تک انہوں نے اپنے بیوی بچوں کی خبر نہ لی۔

میری ملاقات تبلیغی جماعت کے ایک سرکردہ راہ نما سے ہوئی تو میں نے پوچھا یہ کس مذہب میں روا ہے کہ آپ نے کسی خاتون کا شوہر ہونے کے ناتے سے جو ذمہ داری لی ہے اور بچے پیدا کیے ہیں آپ اس ذمہ داری سے پہلوتہی کریں اور اپنے فرائض سے غافل ہوجائیں؟ انہوں نے کہا ہم نے تو یہ نہیں کہا۔ ہماری جماعت تو یہ نقطہ نظر نہیں رکھتی۔

دراصل آپ کے بھائی صاحب پر ''غلبہ'' ہوگیا ہے۔ غلبے کی اصطلاح جو انہوں نے استعمال کی یہ نہایت عمدہ ہے۔ یعنی کسی کے ذہن پر کسی جذبے یا مقصد کا اس قدرغالب آجانا کہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے قابل نہ رہے۔ مطلب یہ کہ انسان کے ذہن پر کچھ تصورات اس حد تک حاوی ہوجائیں کہ وہ اپنے افعال کے مثبت اور منفی پہلوؤں میں تمیز نہ کرسکے۔

جہاں ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے وہیں سے نارواداری کا آغاز ہوتا ہے۔ اگرچہ کوئی مذہب دوسرے عقیدے کے لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن پھربھی ہم دیکھتے ہیں کہ عقیدے کو ہی عدم برداشت کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ درحقیقت مذہبی عدم برداشت کی ساری تاریخ سیاسی اور ثقافتی محرکات سے مملو ہے۔

انسانی معاشرے کی ابتدا ہی سے تمام بنی نوع انسان پر مذہب کے مقابلے میں ریاست اور ثقافت کا زیادہ اثر رہا ہے۔ بعض ثقافتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب سے ماخوذ ہیں لیکن یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔

ہماری ثقافت میں بھی بہت کم مظاہر مذہب سے اور بہت زیادہ چیزیں اپنے رسوم ورواج سے لی ہیں، جس طرح سے ہم (برصغیرپاک وہند کے باشندے) رہتے چلے آرہے ہیں جس طرح عرب رہتے آئے ہیں جس طرح ایرانی، انڈونیشین اور نائیجیرین زندگی بسر کرتے چلے آئے ہیں۔ ہم اپنی ان تمام عادات کوایک ثقافت میں ڈھال لیتے ہیں۔ اصل میں جھگڑا ثقافت ہے۔

جب کوئی خارجی قوت ہمارے ماحول میں مداخلت کرکے کوئی ایسا عمل شروع کرتی ہے جس سے ہمیں اپنی ثقافت کے غیرمحفوظ ہوجانے کا خدشہ لاحق ہوجائے اس وقت ہم عقیدے کا سہارا لے کر مزاحمت کرتے ہیں اور مزید آگے بڑھ کر ظلم اور زیادتی کی حد میں چلے جاتے ہیں۔ ثقافت کا براہ راست تعلق سیاست سے ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز سے مذہب کے نام پر جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں وہ دراصل سیاسی اقتدار کی جنگیں تھیں۔

اس تناظر میں جب ہم خوشحال خان خٹک کے یہ اشعار پڑھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ رواداری اور صلح کُل کے کتنے بڑے نقیب ہیں:

خپل استاد وماتہ وی سو پندونہ

ھر یو پند ئے ملغرے دی لالعلونہ

وئے ھرہ بدی کڑہ ھغہ بد مہ کڑہ

چہ لہ لاسہ دے ازار شی د چا زرونہ

مجھے اپنے استاد نے چند نصیحتیں کی ہیں، ہر ایک نصیحت لالعل ودر ہے کہا ہر بدی کرو مگر وہ بدی مت کریں جس سے کسی کی دل آزاری ہوجائے۔

دا پند دے ھر سوک سرہ سند کا

اوھیار بہ نہ وی چہ سوک حسد کا

ہمراہ چہ خہ وی بد سڑے خہ کا

ہمراہ چہ بد وی خہ سڑے بد کا

یہ پندونصیحت ہر ایک سند رکھے کہ ہوشیار نہیں ہوگا جو حسد کرتاہ و ہم راہی اگر اچھا ہو تو برا انسان بھی اچھا بن جاتا ہے اگر ہم راہی برا ہو تو اچھا انسان بھی برا ہوجاتا ہے۔

چہ دیار سرہ خپل زان سیزی پہ اور کے

زہ پہ دا رسم مئین یم د ہندوانو

جو اپنے محبوب کی ساتھ اپنی جان بھی جلا ڈالتی ہے میں ہندوؤں کی اس رسم پر شیدا ہوں۔

ہندو چہ بت وتہ ھسے نسکور دے

مومن سر ایخے د کعبے پہ لور دے

دا دواڑہ توکہ رسم عادت دے

اودہ عالمہ مطلب سہ نور دے

یہ جو ہندو بت کے سامنے سربسجود ہے اور مومن نے اپنا رخ کعبے کی طرف کیا ہوا ہے یہ دونوں رسم اور عادت ہیں، سوئے ہوئے لوگوں اس کا مطلب کچھ اور ہے۔

کہ مسجد غواڑے کہ دیر

واڑہ یو دے نشتہ غیر

مسجد ہو یا مندر دونوں میں کوئی غیر نہیں۔

یو ئے دین دے سرہ دوہ اویا مذہبہ

خدایا سہ بنی آدم فریق فریق شہ

ایک ہی دین سے بہتر فرقوں نے جنم لیا۔ خدایا یہ کیا ہوا؟ تیرے انسانوں میں اتنی تفریق؟

نیستی ہستی دہ کہ تہ پوھیگے

لوئی پستی دہ کہ تہ پوھیگے


بدہ تر ھر سہ پہ دا جھان کے

خودپرستی دہ کہ تہ پوھیگے

نیستی ہستی ہے اگر آپ سمجھیں بلندی پستی ہے اگر آپ سمجھیں، بد سے بدتر کام اس جہان میں خودپرستی۔

اوھیار ھغہ دے چہ سخت جنگونہ ترخیرہ راولی پہ فرھنگونہ

نادان ھغہ دے چہ پہ کار دصلحے

گڈ کا دشرفساد رنگونہ

ہوشیار وہ ہے جو سخت جنگیں علم دانش سے خیر تک لے آئے، اور نادان وہ ہے جو صلح صفائی میں شر اور فساد کے رنگ بھردے۔

ھغہ کار چہ پہ نرمئی ترسرہ کیگی

سہ حاجت چہ رساوہ شی ترے جنگونہ

وہ کام جو نرمی سے ہوسکتا ہے کیا ضرورت کہ اس کی نوبت جنگ وجدال تک پہنچے۔

بندوبست دکائنات دے پہ خبرو

یو تر سلو صدقہ شہ سل تر زرو

کائنات کا بندوبست بات چیت اور مکالمے میں مضمر ہے۔ ایک سے ہزار اور ہزار سے سو صدقہ ہوجائیں۔

پہ فتنو ڈکہ تورہ آسمانہ

لا بہ دے کلہ شی دا خونہ ورانہ

چہ یو بل نوے جھان پیدا شی

گوندے سوک بیامومی خلاصے لہ تانہ

اے فتنوں سے سیاہ آسماں (گردش دوران) کب تیرا یہ گھر ویران ہوگا تاکہ ایک نیا جہان پیدا ہوجائے تاکہ آپ سے جان چھوٹ جائے۔

خوشحال خان خٹک، از دوست محمدخان کامل مومند

چہ دخلقو نیک خواہی لرے پہ زڑہ کے

مبارک شہ بادشاہی لرے پہ زڑہ کے

جب آپ مخلوق خدا کے لیے دل میں نیک خواہی رکھتے ہوں تو مبارک ہو آپ دل میں بادشاہی رکھتے ہیں۔

پہ خپل زان پسندنہ نیکہ پہ بل بدہ

دا مذہب د مومنانو مذہب نہ دے

اپنے لیے بھلائی اور دوسرے کے لیے برائی پسند کرنا یہ مومنوں کا مذہب نہیں ہوسکتا۔

چہ لہ دوستہ لہ دخمنہ خہ سلوک کڑہ

دھغو سڑیو خہ زندگانی دہ

جو دوست دشمن سے اچھا سلوک اور برتاؤ کرتے ہیں انھیں کی زندگی بہتر اور اچھی ہے۔

پہ زڑہ د واڑہ خلقو نیک خواہ اوسہ

ہداہت کرونے د ھر گمراہ اوسہ

طمع لہ چا مہ کڑہ سخا پہ ھر چا کڑہ

بے تخت وتاج لکہ بادشاہ اوسہ

دل سے تمام مخلوق خدا کے نیک خواہ رہو اور ہر بھولے بٹھکے کو راستہ دکھاؤ کسی سے طمع نہ کرو اور ہر ایک سے سخاوت کرو، اس طرح بے تخت وتاج بادشاہ ہوجاؤ۔

سوک چہ آشتی غواڑی کہ دے غلیم دے

والصلح خیر زائے د تسلیم دے

عفوہ بہترہ تر انتقام دہ

نیکی پہ بدو کار دکریم دے

اگر تیرا دشمن بھی صلح کا طالب ہو تو والصح خیر۔ مقام تسلیم ہے بُروں کے ساتھ بھلائی اہل کرم کا کام ہے۔

کہ شیرمردان دی ھغہ زوانان دی

چہ دوست دشمن سرہ پہ خوئی خادان دی

تل خوخ لہ دیو یاران دوستان دی

دوست ترے پہ طمعہ لا دشمنان دی

مسلمان رب کے نام کا ورد کرتا ہے اور ہندو رام کا نام جپتا ہے، اگر غور کرو تو دونوں خدا کانام لیتے ہیں۔

اپنا عقیدہ چھوڑو مت دوسرے کا چھیڑو مت۔ ایمان داری اور صحیح رواداری یہی ہے کہ دوسروں کے عقائد سے تعرض نہ کیا جائے اور اعتقاد وعمل میں سرمو فرق نہ آئے۔

زہ خو د زڑہ درد غواڑم پہ ھرہ یو مذہب کے

ستا زدہ ستا خبرے چہ نقلونہ رنگارنگ کڑے

میں تو اپنے دل کے لیے درد مانگتا ہوں ہر ایک مذہب میں، آپ جانے اور آپ کی رنگارنگ باتیں اور نقلیں۔

اوخیار ھغہ دے سخت جنگونہ

تر خیرہ راولی پہ فرہنگونہ

نادان ھغہ دے چہ پہ کار د صلحے

گڈ کا د شر دفساد رنگونہ

دانا وہ ہے جو سخت جنگوں کو اپنی دانائی سے خیر کے نکتے پر لے آتا ہے۔ نادان وہ ہے جو صلح کے کام میں بھی شر وفساد کے رنگ بھر دیتا ہے۔
Load Next Story