کوچہ ٔ سخن

میرے قصے جب پرندوں نے سنے اڑنے لگے؛<br /> کہکشاں کی مثل راہی کو سبھی رستے لگے

فوٹو: فائل

غزل
نم ہیں آنکھیں فریب ِ آتش میں
خواب بھیگے ہوئے ہیں بارش میں
بجھ گئے ہیں ہوا کی شورش سے
دیپ جلتے تھے تیری خواہش میں
وقت خود احتساب کر لے گا
جو ہیں گمراہ جو ہیں سازش میں
میں نے تو یدھ میں تجھ کو جیتا ہے
یوں ہی تو کب ملا ہے بخشش میں
حال ِ دل اس کا پوچھنا زاہد؟
طنز شامل ہے لفظ پرسش میں
(حکیم محبوب زاہد۔ منڈی بہاء ُالدین)


۔۔۔
غزل
میری جانب تو کئی لوگ سفرکرتے ہیں
اور یہ سلسلۂ شام و سحرکرتے ہیں
کتنا سمجھوتہ کریں اب کہ کڑی دھوپ سے ہم
آپ ہی چھاؤں سے محروم شجر کرتے ہیں
تھک گئے ہیں تری تصویر سے باتیں کرکے
اب کے اس دل کی تباہی پہ نظر کرتے ہیں
وقت اک موج ہے آتا ہے گزر جاتا ہے
ڈوبتے لمحے مرے دل میں بسر کرتے ہیں
یوں بھی لگتا ہے تری یاد بہت ہے لیکن
زخم کے ساتھ تری یاد امر کرتے ہیں
اپنی تاریخ نئی نسل پڑھے گی کیسے
خون آلودہ کتابوں کی سطر کرتے ہیں
یہ الگ بات کہ لہجے میں اداسی ہے ولیؔ
ورنہ اظہار تو ہم بارِ دگر کرتے ہیں
(شاہ روم خان ولیؔ۔مردان)


۔۔۔
غزل
زمیں پہ رہتے ہیں پھر بھی زمین بیچتے ہیں
گماں کی اوٹ میں پاگل یقین بیچتے ہیں
عجیب طرز کے واعظ ملے ہوئے ہیں ہمیں
کسی کو سجدہ کسی کو جبین بیچتے ہیں
ہمارے شہر کی سب سے بڑی نشانی ہے
وہاں پہ خوشبو وہاں کے حسین بیچتے ہیں
یہی ہمارا تعارف یہی ہماری شناخت
ادھورے لوگ ہیں مرضی کے سین بیچتے ہیں
اسی لیے تو یہاں زلزلوں کی کثرت ہے
یہاں امانتیں اکثر امین بیچتے ہیں
(اسد رضا سحر۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل
چھونے سے پہلے یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا
شاخ پر پھول تر و تازہ نہیں ہوتا تھا
مل تو لیتا تھا میں اک دن میں کئی لوگوں سے
پھر بھی تنہائی کا خمیازہ نہیں ہوتا تھا
نیند میں شور بہت کرتی تھیں یادیں اس کی
جاگنے پر کبھی آوازہ نہیں ہوتا تھا
چور رستوں سے ہی آتے تھے ہم اس کے دل میں
ایک بھی داخلی دروازہ نہیں ہوتا تھا
چوم کر سرخ کیا کرتا تھا میں گال اس کے
اور مرے پاس کوئی غازہ نہیں ہوتا تھا
(حمزہ یعقوب۔ مظفر گڑھ)


۔۔۔
غزل
جب کسی شاخ بریدہ پہ ثمر لگتا ہے
یار اس شاخ کو کنکر سے بھی ڈر لگتا ہے
تم قدم سوچ کے دہلیز سے باہر رکھنا
منزلِ شوق میں صدیوں کا سفر لگتا ہے
سر فدا یان بھی حیران کھڑے دیکھتے ہیں
بات سر کی نہیں اس بات پہ گھر لگتا ہے
تیرے بیمار کو تنہائی نے یوں گھیر لیا
شور سنتا ہوں تو پھٹتا ہوا سر لگتا ہے
یار آسیب زدہ شہر کی مانند ہوں میں
جس میں ہلکی سی بھی آہٹ ہو تو ڈر لگتا ہے
سایہ ہے حشر کی گرمی میں بھی ٹھنڈا اتنا
یہ تو سادات کے ہاتھوں کا شجر لگتا ہے
(سید حماد حیدر۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
یہ گورے کالے حسین اور مقتدر کھلیں گے
ازل کے لکھے ہوئے سبھی شاستر کھلیں گے
اڑان بھرنے کے وقت آنکھوں میں خوف کیوں تھا
سمجھ میں آئے گا جب کبھی تیرے پر کھلیں گے
ہماری وحشت کو دیکھ کر وہ حسین بازو
کبھی کھلے بھی تو دیکھنا لمحہ بھر کھلیں گے
سبھی مناظر کا عکس پہلے سے ذہن میں تھا
مجھے پتہ تھا کہاں مرے ہمسفر کھلیں گے
نحیف جسموں کو کاٹ کھائیں گی زرد لہریں
ہمارے مرنے کے بعد جا کر بھنور کھلیں گے
انہیں سمجھنے میں کام عجلت سے لیجیے مت
کڑی ریاضت کے بعد میرؔ و جگرؔ کھلیں گے
(مستحسن جامی۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
چلتے ہیں سدا ساتھ اکیلے نہیں چلتے
جسموں سے تو کٹ کر کبھی سائے نہیں چلتے
منظور کسے ہے یہاں دامن پہ کوئی داغ
کم ایک بھی ہندسہ ہو تو پیسے نہیں چلتے
میدانِ محبت میں نئے ہو سو گرو گے


آغاز میں جس طرح سے بچے نہیں چلتے
قدموں میں ہے اسکے کسی دریا کی روانی
چلتے تو سبھی ہیں مگر ایسے نہیں چلتے
خود گر کے اٹھا اور پرندے نے بتایا
اڑنا ہو تو اوروں کے سہارے نہیں چلتے
سونپی اسے جاتیں اگر اونٹوں کی مہاریں
پھر دیکھتا میں قافلے کیسے نہیں چلتے
(سید عون عباس۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
اک جزیرے سے پری نے حسن کی ترسیل کی
اسم پڑھ کر پانیوں میں روشنی تحلیل کی
ایک دن وہ آنکھ چھلکی تھی مرے ہی سامنے
میں نے اس کو چوم کر اک خواب کی تکمیل کی
اِس اداسی کو مٹانے کے ہیں دو حل دوستو
اُس کا مڑ کر دیکھنا یا آیتیں انجیل کی
دیکھنا تو دور اس کے سامنے آتا نہیں
میں نے اس کو چھوڑ کر بھی حکم کی تعمیل کی
اک سنہری جسم نے جب پاؤں کشتی پر دھرا
دیکھنے لائق تھی وہ تصویر روشن جھیل کی
(سیف علی۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
جس دن سے شہر عشق کا ہے روزگار بند
گلشن کا تب سے ہوگیا ہے کاروبار بند
اے کاری گر تو فیس بتا ایسے کام کی
اس کے ہی گھر کے سامنے ہوجائے کار بند
کس غم کدے میں جاکے ترا غم غلط کریں
سگریٹ بھی ملنی ہوگئی ہم کو ادھار بند
یہ دست لمس یار کا ادنیٰ ہے معجزہ
اس دن سے ہوگیا مجھے آنا بخار بند
تم یاد کی کلید سے اسٹارٹ اسے کرو
ہوجاتا ہے دماغ مرا بار بار بند
آنکھوں کی یہ شگاف سے آجاتا ہے نظر
غم دل میں تیرا میں نے کیا تھا حصار بند
اک آدھ بند تم بھی پڑھو، مستند کرو
لکھے ہیں میں نے تم پہ ہی یہ بے شمار بند
ہم کس کے در پہ جاکے دعائے وفا کریں
مجنوں کا بخت نے کیا جب سے مزار بند
تنقید کرنی چھوڑ دی سب ناقدین نے
میں نے کیا قلم سے زبانوں کا وار بند
(کلیم شاداب۔ آکوٹ ،آکولہ، بھارت)


۔۔۔
غزل
میرے قصے جب پرندوں نے سنے اڑنے لگے
کہکشاں کی مثل راہی کو سبھی رستے لگے
ہار کر وہ جان و دل بھی خوش ہیں تیرے شہر میں
عاشقوں کو مہنگے سودے بھی بہت سستے لگے
خود بنے ایندھن چمن میں آگ پھولوں کو لگی
جاگتی آنکھوں کے مجھ کو خواب بھی شعلے لگے
داستاں گو سے شکایت ہی رہے گی عمر بھر
شب نے تو کروٹ نہ بدلی لوگ کیوں سونے لگے
سبز شاخوں پر سلگتے پھول کلیاں دیکھ کر
مندمل جو زخم ہو وہ زخم بھی رسنے لگے
آدمی سب سے مقدم ہے یہی سمجھا ہوں مَیں
عارضی ہر اک ریاضت میں مجھے رشتے لگے
بارہا ایسا ہوا دل سے شہابِ غم اٹھا
دوستوں نے جب سنا پاگل مجھے کہنے لگے
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختون خوا)


۔۔۔
غزل
محل کی ریت، روایت سے تنگ شہزادی
بڑے سکون سے ہے میرے سنگ شہزادی
تو میری مان کبھی کاخِ خسروی سے اتر
تجھے دکھاؤں خدائی کے رنگ شہزادی
زمینِ دل میں گلِ آرزو تو کھلنے دے
مہک اٹھے گا ترا انگ انگ شہزادی
قدم قدم پہ ملیں گے سو احتیاط رہے
یہاں پہ تجھ کو ہوس کے نہنگ شہزادی
مرا نصیب کہ یک جا ہیں اس قلمرو میں
فرازِ مسندِدل اور دبنگ شہزادی
شکست و فتح نہیں، بات اب بقا کی ہے
سو ہارنے کا نہیں میں یہ جنگ شہزادی
بہت دعائیں مری ہیر تیرے مسکن کو
ہرا بھرا رہے تیرا یہ جھنگ شہزادی
ہمارا عشق ہمیں تخت و تاجِ ہفت اقلیم
ہمارا فقر ہمیں نام و ننگ، شہزادی
(رانا غلام محی الدین۔اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل
سہولت مرنے کی، جینے کا چارہ، کچھ نہیں چھوڑا
تمہاری دوستی نے تو ہمارا کچھ نہیں چھوڑا
سرِ محفل تمہارے ظلم کیا گن گن کے بتلائیں
فقط اتنا ہی دیتے ہیں اشارہ، کچھ نہیں چھوڑا
تری جادوئی بستی میں ہوئے پتھر نہیں، لیکن
ہمیں جس نے بھی پیچھے سے پکارا کچھ نہیں چھوڑا
ہماری زندگانی ہے بدن کوئی طوائف کا
کہ جس کو نائکہ نے جب سنوارا، کچھ نہیں چھوڑا
محبت یوں تو اچھی ہے مگر نجم اک رویے نے
ہمیں اس تجربے سے یوں گزاراکچھ نہیں چھوڑا
(جی اے نجم ۔ لاہور)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
Load Next Story