پاکستان میں غذائی قلت پر اقوامِ متحدہ کی رپورٹ تشویشناک ہے پی ایم اے
خوراک کے عالمی پروگرام کی بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ پرپی ایم اے نے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے دو عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کے ذکر اور بھوک اور بیماری کے چیلنج پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چند روز قبل اقوامِ متحدہ کی ذیلی اداروں ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے 'بھوک کے عالمی مراکز' پر اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کو کئی افریقی ممالک کے ساتھ شامل کرتے ہوئے اپنے خطرے اور تشویش کا اظہارکیا تھا۔
ڈبلیو ایف پی اور ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں خوراک کا عدم تحفظ خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے، جس سے پاکستان بھر میں لاکھوں افراد اور خاندانوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس پر پی ایم اے نے کہا ہے کہ غذائی قلت، عوام کی صحت اور بہبود پر سنگین منفی نتائج مرتب کرتی ہے۔ ناکامی غذا سے دماغی نشوونما میں خلل پڑتا ہے جس کے اثرات پوری زندگی بھی رونما ہوسکتے ہیں۔
پی ایم اے نے اس ضمن میں حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شدید غذائی قلت کے تحت دنیا بھر میں نو نمبر پر ہے جہاں کے تین صوبوں کی کم ازکم 86 لاکھ آبادی شدید (اکیوٹ) غذائی قلت کی شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کا معاشی بحران کم ہوجائے تو کچھ بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس ضمن میں 2022 کے سیلاب کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی بدولت لاکھوں افراد اپنے گھر اور خوراک سے محروم ہوئے اور اب بھوک، افلاس اور بیماری کے شکار ہوچکے ہیں۔
'حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتے ہیں کہ وہ سب ملکر اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی پر عمل درآمد کریں۔ اس میں زرعی پیداوار میں اضافہ، ذخیرہ اندوزی اور تقسیم کے نظام کو بڑھانا، جدید کاشتکاری کے طریقوں کو فروغ دینا، اورغریبوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے سماجی تحفظ کے جال کو مضبوط کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔' پی ایم اے نے اپنی پریس میں کہا۔
مزید برآں، پی ایم اے طبی سہولیات اور غذائیت سے متعلق آگاہی کیلئے صحت کے نظام کی ترقی اور مضبوطی کیلئے سرمایہ کاری میں اضافے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وسائل اور مہارت کو متحرک کرنے کے لیے موثر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قائم کی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں عوامی آگہی اور شعوربڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔
حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ فوڈ سیکیورٹی کو قومی ایجنڈے کے طور پر اختیار کے اور وسائل مختص کرے۔ اس ضمن میں جو پالیسیاں اور پروگرام ہیں انہیں فوری طور پر نافذ کیا جائے۔
چند روز قبل اقوامِ متحدہ کی ذیلی اداروں ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے 'بھوک کے عالمی مراکز' پر اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کو کئی افریقی ممالک کے ساتھ شامل کرتے ہوئے اپنے خطرے اور تشویش کا اظہارکیا تھا۔
ڈبلیو ایف پی اور ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں خوراک کا عدم تحفظ خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے، جس سے پاکستان بھر میں لاکھوں افراد اور خاندانوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس پر پی ایم اے نے کہا ہے کہ غذائی قلت، عوام کی صحت اور بہبود پر سنگین منفی نتائج مرتب کرتی ہے۔ ناکامی غذا سے دماغی نشوونما میں خلل پڑتا ہے جس کے اثرات پوری زندگی بھی رونما ہوسکتے ہیں۔
پی ایم اے نے اس ضمن میں حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شدید غذائی قلت کے تحت دنیا بھر میں نو نمبر پر ہے جہاں کے تین صوبوں کی کم ازکم 86 لاکھ آبادی شدید (اکیوٹ) غذائی قلت کی شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کا معاشی بحران کم ہوجائے تو کچھ بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس ضمن میں 2022 کے سیلاب کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی بدولت لاکھوں افراد اپنے گھر اور خوراک سے محروم ہوئے اور اب بھوک، افلاس اور بیماری کے شکار ہوچکے ہیں۔
'حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتے ہیں کہ وہ سب ملکر اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی پر عمل درآمد کریں۔ اس میں زرعی پیداوار میں اضافہ، ذخیرہ اندوزی اور تقسیم کے نظام کو بڑھانا، جدید کاشتکاری کے طریقوں کو فروغ دینا، اورغریبوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے سماجی تحفظ کے جال کو مضبوط کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔' پی ایم اے نے اپنی پریس میں کہا۔
مزید برآں، پی ایم اے طبی سہولیات اور غذائیت سے متعلق آگاہی کیلئے صحت کے نظام کی ترقی اور مضبوطی کیلئے سرمایہ کاری میں اضافے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وسائل اور مہارت کو متحرک کرنے کے لیے موثر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قائم کی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں عوامی آگہی اور شعوربڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔
حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ فوڈ سیکیورٹی کو قومی ایجنڈے کے طور پر اختیار کے اور وسائل مختص کرے۔ اس ضمن میں جو پالیسیاں اور پروگرام ہیں انہیں فوری طور پر نافذ کیا جائے۔