ظلِ الٰہی کا دور
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت اور مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہیں
برصغیر ہندوستان میں اشوکا کے دور سے بہادر شاہ ظفر کے دور تک بادشاہتیں قائم رہیں۔ قدیم زمانہ کے ہندو بادشاہوں، پھر مسلمان بادشاہوں حتیٰ کہ مغل دور میں انسانی حقوق کا کوئی تصور نہ تھا۔ رعایا کا مقدس فریضہ ظلِ الٰہی کے احکامات کی تابعداری کرنا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا بنیادی مقصد ہندوستان پر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا تھا۔ اس بناء پر عام آدمی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا کوئی تصور نہ تھا مگر برطانوی ہند حکومت نے جب جدید انتظامی اور عدالتی نظام نافذ کیا اور پولیس ایکٹ نافذ کیا تو شہریوں کی گرفتاری کے چوبیس گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے اور ملزمان کو اپنے دفاع میں وکیل کرنے کا حق حاصل ہوا۔
برطانوی ہند حکومت نے عام شہریوں کو تو چند حقوق دیے مگر سیاسی کارکنوں خاص طور پر آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لیے مختلف نوعیت کے قوانین نافذ کیے گئے۔
ان قوانین میں 1923 میں نافذ ہونے والا سیکریٹ ایکٹ، ڈپٹی کمشنرکا دفعہ 144 کے نفاذ کا اختیار، امن و امان سے متعلق M.P.O کے تحت کسی فرد کی آزادی کو سلب کرنے، سیاسی اجتماع پر پابندی،کسی فرد کی گرفتاری کو عدالتوں میں چیلنج کرنے سے روکنے، سویلین افراد کا ملٹری ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے، کسی فرد کو غیر معینہ مدت تک نظربند رکھنے، اخبارات کی آزادی کو محدود کرنے اور ایڈیٹر کے اختیارات سلب کرنے کے بارے میں قوانین شامل تھے۔ آج کل ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ظلِ الٰہی کا دور واپس آرہا ہے۔
پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح جب کانگریس میں شامل تھے تو انھوں نے ہمیشہ بنیادی شہری آزادیوں پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ بیرسٹر جناح نے رولڈ ایکٹ کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے انڈین لیجسلیٹو کونسل سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا۔
بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نئی ریاست میں مذہب، جنس اور طبقہ کی بنیاد پرکوئی امتیاز نہیں ہوگا بلکہ تمام شہریوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
10 دسمبر 1948 کو اقوام عالم نے انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کیا۔ اس منشور کے تحت ہر فرد کو زندگی کے تحفظ، عقیدہ کے تحفظ، ہر شخص کو آنے جانے کی آزادی، کسی جرم کی صورت میں کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے، آزادئ اجتماع، سیاسی جماعت بنانے، آزادئ صحافت کی ضمانت دی گئی۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جن ممالک نے انسانی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کیے تھے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے سول وپولیٹیکل رائٹس کنونشنز کی بھی توثیق کی۔ 1973 کے آئین بنانے والے اکابرین نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو بنیادی اہمیت دی اور اس منشور کی تمام شقیں نئے آئین میں شامل کی گئیں مگر آئین کے نفاذ کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئین کے انسانی حقوق کے باب کو معطل کیا۔
جنرل ضیاء الحق کی غیر سول حکومت نے 10 سال تک مارشل لاء نافذ کیے رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں صرف 1973 کے آئین کی بحالی کے مطالبہ کو سنگین جرم قرار دیا گیا تھا۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ہزاروں سیاسی کارکنوں کو آئین کے نفاذ کا مطالبہ کرنے پر قیدوبند کی صعوبتیں اورکوڑے برداشت کرنے پڑے۔ 80ء کی دہائی کے آخری برسوں میں خطہ میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سوویت یونین نے جنیوا معاہدہ کے بعد افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا، سرد جنگ ختم ہوئی۔
وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے 1973 کا آئین بحال کیا اور آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور اجتماع کی آزادی وغیرہ پر عائد پابندیاں ختم کردیں۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں (سوائے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے) صورتحال مجموعی طور پر بہتر رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بلوچستان میں آپریشن سے انسانی حقوق پر قدغن لگی۔
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت اور مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں بھی حکمران برطانوی نظامِ حکومت کی تعریف کرتے رہے مگر ان کے دورِ اقتدار میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن فخر سے یہ اعلان کیا کہ فرد کو لاپتہ کرنے کا جرم فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ سینیٹ سے لاپتہ ہوگیا ہے۔
اس دور میں سیاسی کارکنوں کو نیب کے ذریعہ گرفتاری کے طریقہ تلاش کرنے ، نامعلوم افراد کے صحافیوں پر حملے، صحافیوں کو اغواء کرنے اور ایڈیٹروں کو دھمکیاں دینے کی ایک نئی روایت شروع ہوئی۔ پھر سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ سابق حکمران اب کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی کے حکم پر ہوا۔
امید تھی کہ پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کے بعد صورتحال بہتر ہوجائے گی مگر حکومت کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں واضح یقین دہانی کے بعد بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ اب بھی اس بارے میں شکایات کی گونج سنائی دے رہی ہیں۔ انگریزوں کے نافذ کردہ امن و امان سے متعلقہ M.P.O کے فرسودہ قانون کے ذریعہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں اور جیل مینوئل کے مطابق گرفتار افراد کو ملنے والی قانونی مراعات نہ دینے سے صورتحال خاصی خراب ہوگئی۔
ایک وقت تھا کہ جب تمام سیاسی جماعتیں مختلف جرائم میں ملوث سیاسی کارکنوں کی غیر سول عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کی مخالف تھیں۔ جب لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہیں تو ان کے اور ریاست کے درمیان فاصلے گہرے ہوجاتے ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا بنیادی مقصد ہندوستان پر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا تھا۔ اس بناء پر عام آدمی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا کوئی تصور نہ تھا مگر برطانوی ہند حکومت نے جب جدید انتظامی اور عدالتی نظام نافذ کیا اور پولیس ایکٹ نافذ کیا تو شہریوں کی گرفتاری کے چوبیس گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے اور ملزمان کو اپنے دفاع میں وکیل کرنے کا حق حاصل ہوا۔
برطانوی ہند حکومت نے عام شہریوں کو تو چند حقوق دیے مگر سیاسی کارکنوں خاص طور پر آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لیے مختلف نوعیت کے قوانین نافذ کیے گئے۔
ان قوانین میں 1923 میں نافذ ہونے والا سیکریٹ ایکٹ، ڈپٹی کمشنرکا دفعہ 144 کے نفاذ کا اختیار، امن و امان سے متعلق M.P.O کے تحت کسی فرد کی آزادی کو سلب کرنے، سیاسی اجتماع پر پابندی،کسی فرد کی گرفتاری کو عدالتوں میں چیلنج کرنے سے روکنے، سویلین افراد کا ملٹری ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے، کسی فرد کو غیر معینہ مدت تک نظربند رکھنے، اخبارات کی آزادی کو محدود کرنے اور ایڈیٹر کے اختیارات سلب کرنے کے بارے میں قوانین شامل تھے۔ آج کل ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ظلِ الٰہی کا دور واپس آرہا ہے۔
پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح جب کانگریس میں شامل تھے تو انھوں نے ہمیشہ بنیادی شہری آزادیوں پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ بیرسٹر جناح نے رولڈ ایکٹ کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے انڈین لیجسلیٹو کونسل سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا۔
بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نئی ریاست میں مذہب، جنس اور طبقہ کی بنیاد پرکوئی امتیاز نہیں ہوگا بلکہ تمام شہریوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
10 دسمبر 1948 کو اقوام عالم نے انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کیا۔ اس منشور کے تحت ہر فرد کو زندگی کے تحفظ، عقیدہ کے تحفظ، ہر شخص کو آنے جانے کی آزادی، کسی جرم کی صورت میں کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے، آزادئ اجتماع، سیاسی جماعت بنانے، آزادئ صحافت کی ضمانت دی گئی۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جن ممالک نے انسانی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کیے تھے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے سول وپولیٹیکل رائٹس کنونشنز کی بھی توثیق کی۔ 1973 کے آئین بنانے والے اکابرین نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو بنیادی اہمیت دی اور اس منشور کی تمام شقیں نئے آئین میں شامل کی گئیں مگر آئین کے نفاذ کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئین کے انسانی حقوق کے باب کو معطل کیا۔
جنرل ضیاء الحق کی غیر سول حکومت نے 10 سال تک مارشل لاء نافذ کیے رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں صرف 1973 کے آئین کی بحالی کے مطالبہ کو سنگین جرم قرار دیا گیا تھا۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ہزاروں سیاسی کارکنوں کو آئین کے نفاذ کا مطالبہ کرنے پر قیدوبند کی صعوبتیں اورکوڑے برداشت کرنے پڑے۔ 80ء کی دہائی کے آخری برسوں میں خطہ میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سوویت یونین نے جنیوا معاہدہ کے بعد افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا، سرد جنگ ختم ہوئی۔
وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے 1973 کا آئین بحال کیا اور آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور اجتماع کی آزادی وغیرہ پر عائد پابندیاں ختم کردیں۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں (سوائے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے) صورتحال مجموعی طور پر بہتر رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بلوچستان میں آپریشن سے انسانی حقوق پر قدغن لگی۔
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت اور مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں بھی حکمران برطانوی نظامِ حکومت کی تعریف کرتے رہے مگر ان کے دورِ اقتدار میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک دن فخر سے یہ اعلان کیا کہ فرد کو لاپتہ کرنے کا جرم فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ سینیٹ سے لاپتہ ہوگیا ہے۔
اس دور میں سیاسی کارکنوں کو نیب کے ذریعہ گرفتاری کے طریقہ تلاش کرنے ، نامعلوم افراد کے صحافیوں پر حملے، صحافیوں کو اغواء کرنے اور ایڈیٹروں کو دھمکیاں دینے کی ایک نئی روایت شروع ہوئی۔ پھر سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ سابق حکمران اب کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی کے حکم پر ہوا۔
امید تھی کہ پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کے بعد صورتحال بہتر ہوجائے گی مگر حکومت کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں واضح یقین دہانی کے بعد بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ اب بھی اس بارے میں شکایات کی گونج سنائی دے رہی ہیں۔ انگریزوں کے نافذ کردہ امن و امان سے متعلقہ M.P.O کے فرسودہ قانون کے ذریعہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں اور جیل مینوئل کے مطابق گرفتار افراد کو ملنے والی قانونی مراعات نہ دینے سے صورتحال خاصی خراب ہوگئی۔
ایک وقت تھا کہ جب تمام سیاسی جماعتیں مختلف جرائم میں ملوث سیاسی کارکنوں کی غیر سول عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کی مخالف تھیں۔ جب لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہیں تو ان کے اور ریاست کے درمیان فاصلے گہرے ہوجاتے ہیں۔