سیاسی داؤ پیچ
یہ جو کچھ پنجاب کی سیاست میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ صرف پی ٹی آئی کے لیے ہی سیاسی تشویش کا باعث نہیں
سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ،سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی ، قیادت کو تبدیل کرنا، نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل یا کسی کی حمایت اور مخالفت میں حکمت عملیوں کو ترتیب دینے کا عمل اگر فطری اور سیاسی بنیادوں پر نہ ہو تو اس سے سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوتا ہے۔
کیونکہ اگر ہم نے غیر سیاسی اور غیرجمہوری انداز میں سیاسی جماعتوں میں تقسیم یا توڑ کر ایک خاص سیاسی مقاصد کو بنیاد بنا کرجماعتوں کی تشکیل کرنی ہے تو اس سے مسائل حل نہیں بلکہ اور زیادہ گھمبیر ہوتا ہے۔یہ جو ہمارے مفادات پر مبنی کھیل ہوتا ہے اس میں جو بھی سیاسی مہم جوئی اختیار کی جائے گی وہ سیاسی طور پر پائیدار نہیں ہوسکتی۔
آج کل کہا جارہا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کی تشکیل سامنے آرہی ہے اور یہ نئی جماعت آنے والے نئے انتخابات میں بالخصوص پنجاب کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ پنجاب کی سیاست میں اس وقت دو بڑے سیاسی حریف ہیں۔
اول مسلم لیگ ن اور دوئم پاکستان تحریک انصاف اور ان ہی دو جماعتوں کے درمیان پنجاب کی سطح پر بڑا انتخابی سطح کا معرکہ یا پانی پت کی جنگ کا ماحول ہے۔پی ٹی آئی 9مئی کے واقعات کے بعد کافی بڑے سیاسی دباؤ میں ہے۔ بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے چھوڑنے والے ہیں۔
ایسے میں پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل سیاسی قوت کو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اول پی ٹی آئی کے سابق راہنما اور جنوبی پنجاب کی ایک بڑی سیاسی شخصیت جہانگیر ترین سامنے آئے ہیں۔ ان کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل قیادت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔پی ٹی آئی کے ناراض ارکان یا وہ لوگ جو پارٹی چھوڑ چکے ہیں ان کا نیا سیاسی ٹھکانہ جہانگیر ترین کی پارٹی کو بنانے کی کوشش ہورہی ہے ۔
جہانگیر ترین عدالت سے تاحیات نااہل ہیں مگر وہ اپنی نااہلی بھی ختم کروانا چاہتے ہیں اور اپنے لیے نئے سیاسی کردار کی تلاش میں ہیں۔ ان کے ساتھ عبدالعلیم خان بھی ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ ق ہے جس میں نئے سیاسی کرداروں کو شامل کیا جارہا ہے اور اس میں سابق گورنر پنجاب جو اب مسلم لیگ ق کا حصہ ہیں کافی متحرک نظر آتے ہیں ۔
جہانگیر ترین ہوں یا چوہدری شجاعت یا چوہدری سرور اس موجودہ سیاسی حالات میں ان کے پاس کوئی بڑا ووٹ بینک موجود نہیں ، ان کی بڑی سیاسی حمایت یا تو پنجاب کے بعض سیاسی خاندان ہیں یا وہ خود کو کسی قوت کے حمایت یافتہ کے طورپر پیش کررہے ہیں۔
منطق یہ دی جارہی ہے کہ اگر ہم پر بالائی قوت کی شفقت کا ہاتھ رہتا ہے تو ہم پنجاب میں کافی حد تک متبادل قیادت کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین اور چوہدری سرور دونوں کافی فعال ہیں۔
جہانگیر ترین کی حیثیت محض جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع تک محدود ہے۔ بہت سے لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ جہانگیر ترین جنوبی پنجاب میں جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔
ان کے حق میں دلیل 2018 کے انتخابات اور بڑے ناموں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی دی جاتی ہے۔ حالانکہ جو کچھ بھی 2018کے انتخابات اور انتخابات کے بعد جوڑ توڑ میں جہانگیر ترین نے کیا وہ ان سے زیادہ بالائی قوت کی حمایت سے جڑا ہوا تھا ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پنجاب میں عام انتخابات سے قبل نئی سیاسی صف بندی یا نئے سیاسی جوڑ توڑ یا نئی سیاسی جماعتوں یا گروپوں کی صورت کو بنیاد بنا کر سیاسی جنگ لڑی جائے گی۔ ایک منطق یہ دی جارہی ہے کہ پیپلزپارٹی ، جہانگیر ترین اور مسلم لیگ ق کی مدد سے پنجاب میں اس حد تک عددی تعداد حاصل کرلی جائے کہ یہ تینوں فریق مل کر حکومت سازی میں کوئی بڑا کردار ادا کرسکیں۔
اس کھیل میں ان کو سندھ سے ایم کیو ایم، بلوچستان سے بلوچستان نیشنل پارٹی ، کے پی کے سے عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہو تاکہ مرکز میں جو بھی حکومت بنے اس میں ان کی سیاسی طاقت کا بڑا حصہ ہو۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کو کم کیا جائے اور اس میں توڑ پھوڑ کرکے طاقت سے جڑے مضبوط خاندانوں کو نئی جماعت میں شامل کیا جائے تاکہ یہ نئی جماعت پنجاب کے انتخابی معرکہ میں پی ٹی آئی کی عددی تعداد کو نقصان پہنچائے ۔
اس کا بڑا دائرہ کار جنوبی پنجاب ہو جب کہ مسلم لیگ ق کو سینٹرل اور شمالی پنجاب میں پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے ۔
یہ جو کچھ پنجاب کی سیاست میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ صرف پی ٹی آئی کے لیے ہی سیاسی تشویش کا باعث نہیں بلکہ خود حکومت کی سطح پر مسلم لیگ ن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن خود کو پنجاب میں ایک بڑی سیاسی طاقت سمجھتی ہے اور وہ ہی پی ٹی آئی کے مقابلے میں متباد ل قیادت ہے۔
ایسے میں مسلم لیگ ن میں یہ فکر مندی ہے کہ کون لوگ ہیں جو جہانگیر ترین کی نئی جماعت یا مسلم لیگ ق میں ان کے مقابلے میں ہوا بھرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بظاہر انتخابات سے قبل ایک لہر کسی بھی جماعت کی حمایت اور مخالفت میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
اسی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر انتخابات میں بڑے خاندان اپنی سیاسی ہواوں کے رخ کا تعین کرتے ہیں۔
اس ہوا کے رخ میں یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ کون انتخابات جیتے گا اور کون ہارے گا یا کون کس کا فیورٹ ہے اور کسی کی مخالفت کا فیصلہ ہوا ہے۔مسلم لیگ ن کی پوری کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابی معرکہ میں پنجاب کے اقتدار کو اپنی سیاست کا محور بنائے۔طاقت ور جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی پہلے بھی نتیجہ خیز نہیں ثابت ہوسکی تھی اور نہ ہی یہ آج نتیجہ خیز ہوگی۔
کیونکہ اگر ہم نے غیر سیاسی اور غیرجمہوری انداز میں سیاسی جماعتوں میں تقسیم یا توڑ کر ایک خاص سیاسی مقاصد کو بنیاد بنا کرجماعتوں کی تشکیل کرنی ہے تو اس سے مسائل حل نہیں بلکہ اور زیادہ گھمبیر ہوتا ہے۔یہ جو ہمارے مفادات پر مبنی کھیل ہوتا ہے اس میں جو بھی سیاسی مہم جوئی اختیار کی جائے گی وہ سیاسی طور پر پائیدار نہیں ہوسکتی۔
آج کل کہا جارہا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کی تشکیل سامنے آرہی ہے اور یہ نئی جماعت آنے والے نئے انتخابات میں بالخصوص پنجاب کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ پنجاب کی سیاست میں اس وقت دو بڑے سیاسی حریف ہیں۔
اول مسلم لیگ ن اور دوئم پاکستان تحریک انصاف اور ان ہی دو جماعتوں کے درمیان پنجاب کی سطح پر بڑا انتخابی سطح کا معرکہ یا پانی پت کی جنگ کا ماحول ہے۔پی ٹی آئی 9مئی کے واقعات کے بعد کافی بڑے سیاسی دباؤ میں ہے۔ بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے چھوڑنے والے ہیں۔
ایسے میں پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل سیاسی قوت کو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اول پی ٹی آئی کے سابق راہنما اور جنوبی پنجاب کی ایک بڑی سیاسی شخصیت جہانگیر ترین سامنے آئے ہیں۔ ان کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل قیادت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔پی ٹی آئی کے ناراض ارکان یا وہ لوگ جو پارٹی چھوڑ چکے ہیں ان کا نیا سیاسی ٹھکانہ جہانگیر ترین کی پارٹی کو بنانے کی کوشش ہورہی ہے ۔
جہانگیر ترین عدالت سے تاحیات نااہل ہیں مگر وہ اپنی نااہلی بھی ختم کروانا چاہتے ہیں اور اپنے لیے نئے سیاسی کردار کی تلاش میں ہیں۔ ان کے ساتھ عبدالعلیم خان بھی ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ ق ہے جس میں نئے سیاسی کرداروں کو شامل کیا جارہا ہے اور اس میں سابق گورنر پنجاب جو اب مسلم لیگ ق کا حصہ ہیں کافی متحرک نظر آتے ہیں ۔
جہانگیر ترین ہوں یا چوہدری شجاعت یا چوہدری سرور اس موجودہ سیاسی حالات میں ان کے پاس کوئی بڑا ووٹ بینک موجود نہیں ، ان کی بڑی سیاسی حمایت یا تو پنجاب کے بعض سیاسی خاندان ہیں یا وہ خود کو کسی قوت کے حمایت یافتہ کے طورپر پیش کررہے ہیں۔
منطق یہ دی جارہی ہے کہ اگر ہم پر بالائی قوت کی شفقت کا ہاتھ رہتا ہے تو ہم پنجاب میں کافی حد تک متبادل قیادت کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین اور چوہدری سرور دونوں کافی فعال ہیں۔
جہانگیر ترین کی حیثیت محض جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع تک محدود ہے۔ بہت سے لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ جہانگیر ترین جنوبی پنجاب میں جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔
ان کے حق میں دلیل 2018 کے انتخابات اور بڑے ناموں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی دی جاتی ہے۔ حالانکہ جو کچھ بھی 2018کے انتخابات اور انتخابات کے بعد جوڑ توڑ میں جہانگیر ترین نے کیا وہ ان سے زیادہ بالائی قوت کی حمایت سے جڑا ہوا تھا ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پنجاب میں عام انتخابات سے قبل نئی سیاسی صف بندی یا نئے سیاسی جوڑ توڑ یا نئی سیاسی جماعتوں یا گروپوں کی صورت کو بنیاد بنا کر سیاسی جنگ لڑی جائے گی۔ ایک منطق یہ دی جارہی ہے کہ پیپلزپارٹی ، جہانگیر ترین اور مسلم لیگ ق کی مدد سے پنجاب میں اس حد تک عددی تعداد حاصل کرلی جائے کہ یہ تینوں فریق مل کر حکومت سازی میں کوئی بڑا کردار ادا کرسکیں۔
اس کھیل میں ان کو سندھ سے ایم کیو ایم، بلوچستان سے بلوچستان نیشنل پارٹی ، کے پی کے سے عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہو تاکہ مرکز میں جو بھی حکومت بنے اس میں ان کی سیاسی طاقت کا بڑا حصہ ہو۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کو کم کیا جائے اور اس میں توڑ پھوڑ کرکے طاقت سے جڑے مضبوط خاندانوں کو نئی جماعت میں شامل کیا جائے تاکہ یہ نئی جماعت پنجاب کے انتخابی معرکہ میں پی ٹی آئی کی عددی تعداد کو نقصان پہنچائے ۔
اس کا بڑا دائرہ کار جنوبی پنجاب ہو جب کہ مسلم لیگ ق کو سینٹرل اور شمالی پنجاب میں پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے ۔
یہ جو کچھ پنجاب کی سیاست میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ صرف پی ٹی آئی کے لیے ہی سیاسی تشویش کا باعث نہیں بلکہ خود حکومت کی سطح پر مسلم لیگ ن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن خود کو پنجاب میں ایک بڑی سیاسی طاقت سمجھتی ہے اور وہ ہی پی ٹی آئی کے مقابلے میں متباد ل قیادت ہے۔
ایسے میں مسلم لیگ ن میں یہ فکر مندی ہے کہ کون لوگ ہیں جو جہانگیر ترین کی نئی جماعت یا مسلم لیگ ق میں ان کے مقابلے میں ہوا بھرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بظاہر انتخابات سے قبل ایک لہر کسی بھی جماعت کی حمایت اور مخالفت میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
اسی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر انتخابات میں بڑے خاندان اپنی سیاسی ہواوں کے رخ کا تعین کرتے ہیں۔
اس ہوا کے رخ میں یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ کون انتخابات جیتے گا اور کون ہارے گا یا کون کس کا فیورٹ ہے اور کسی کی مخالفت کا فیصلہ ہوا ہے۔مسلم لیگ ن کی پوری کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابی معرکہ میں پنجاب کے اقتدار کو اپنی سیاست کا محور بنائے۔طاقت ور جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی پہلے بھی نتیجہ خیز نہیں ثابت ہوسکی تھی اور نہ ہی یہ آج نتیجہ خیز ہوگی۔