غفلت اور خامیوں سے بھرپور متنازع ڈیجیٹل مردم شماری

سیاسی جماعتوں کی جانب سے غلط گنتی اور آبادی کو کم ظاہر کرنے کا شکوہ کیا جارہا ہے


کامران سرور June 03, 2023
ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کو غفلت اور خامیوں نے متازع بنادیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ساتویں خانہ و مردم شماری کے غیر حتمی نتائج کے مطابق 25 مئی تک پاکستان کی مجموعی آبادی 25 کروڑ 54 لاکھ 66 ہزار تھی۔ سندھ کی آبادی 5 کروڑ 79 لاکھ 25 ہزار 802 اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ 91 لاکھ 24 ہزار 812 ہے۔


پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے غلط گنتی اور آبادی کو کم ظاہر کرنے کا شکوہ کیا جارہا ہے۔ سندھ کی آبادی میں 21.6 فیصد اور کراچی میں 19.23 فیصد اضافے کے باوجود پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی سمیت دیگر صوبائی جماعتوں نے ساتویں مردم شماری کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے متنازع بنادیا ہے۔


آئین پاکستان میں آرٹیکل 51 کی شق 5 کے تحت تمام صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں حلقہ بندیوں کےلیے خانہ و مردم شماری کو ضروری امر قرار دیا گیا ہے تاکہ عوام کی افرادی قوت، معاشی حیثیت اور ذاتی شناخت سے متعلق کوائف جمع کیے جاسکیں اور پھر اسی ڈیٹا کی بنیاد پر وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے عوام کی فلاح وبہبود اور ملک کی ترقی کےلیے جامع منصوبہ بندی کی جاسکے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں خانہ و مردم شماری کا عمل ہر 10 برس بعد باقاعدگی سے دہرایا جاتا ہے لیکن افسوس پاکستان میں ایسی روایت دکھائی نہیں دیتی۔


اسلام کیو اے نامی ویب سائٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ احادیث کے مطابق حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ شہر میں پہلی بار مردم شماری کا عمل کروایا گیا تھا تاکہ صاحب حیثیت افراد سے زکوٰۃ و خیرات وصول کرکے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جاسکے۔ جب کہ اسلام میں مردم شماری کا باقاعدہ آغاز خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطابؓ کے دور حکومت میں ہوا۔


انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق ایران، مصر اور چین کے مختلف تہذیبی ادوار میں بھی مردم شماری کا عمل باقاعدگی سے کیا جاتا تھا اور اگر ہم جدید دور کی بات کریں تو سب سے پہلی مردم شماری امریکا میں 1790 میں کروائی گئی جس کے بعد برطانیہ میں یہ عمل 1801 میں کیا گیا اور تب سے ہی ان ممالک میں مردم شماری کا عمل ہر 10 سال بعد دہرایا جاتا ہے، تاہم امریکا میں 1890 میں ہونے والی مردم شماری ہر لحاظ سے منفرد تھی کیوں کہ اس میں ڈیجیٹل میپنگ جیوگرافک ریفرنس کا استعمال کرتے ہوئے مردم شماری کے عمل کو نئی جدت دی جس کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک میں اس طریقہ کار کو اپنایا جاتا ہے۔





وطن عزیز میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک 1951، 1961، 1972، 1981، 1998 اور 2017 میں مردم شماری ہوچکی ہے لیکن 1998 سے 2017 تک ہونے والی مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق نہ ہوسکا۔ 1998 میں پانچویں مردم شماری کے بعد 2017 میں چھٹی مردم شماری سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ہوئی لیکن پاک فوج کی نگرانی میں ہونے والا یہ عمل بھی سیاست کی نذر ہوگیا۔ ادارہ شماریات کی ویب سائٹ کے مطابق 2017 میں کی جانے والی مردم شماری 'ڈی جیورو' بنیاد پر ہوئی یعنی جن کا شناختی کارڈ جہاں کا تھا انھیں وہاں شمار کیا گیا لیکن ڈیجیٹل مردم شماری سے متعلق ادارہ شماریات کے ترجمان نے بتایا کہ جو فرد جس شہر یا ضلع میں 6 ماہ سے مقیم ہوگا، اس کا شمار اسی شہر کے رہائشی کے طور پر ہوگا، چاہے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ کسی دوسرے شہر کا ہی درج کیوں نہ ہو، حتیٰ کہ گھر کے سربراہ سمیت جو افراد قومی شناختی کارڈ نہ بھی رکھتے ہوں، انھیں بھی اس مردم شماری میں گنا جائے گا۔

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کےلیے حکومت نے شمار کنندگان کو ایک لاکھ 21 ہزار سے زائد ٹیبلیٹس فراہم کیے اور کوائف کے اندراج کےلیے ایک سافٹ ویئر بھی بنایا۔ بعد ازاں ادارہ شماریات کے ماہرین نے شمار کنندگان کو ٹریننگ دی۔ ڈیجیٹل مردم شماری کے پہلے مرحلے میں شہریوں کو یہ موقع بھی دیا گیا کہ وہ پاکستان ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر ازخود اپنا اندراج کرسکیں۔ جس کا طریقہ اندراج انتہائی آسان رکھا گیا اور دوسرے مرحلے میں شمار کنندگان نے گھر گھر جاکر شہریوں کے کوائف جمع کیے جو ادارہ شماریات کے بنائے گئے سافٹ ایئر پر آن لائن جمع ہوتے رہے۔

محکمہ شماریات کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ساتویں مردم شماری کےلیے ایک لاکھ 85 ہزار 509 بلاکس بنائے گئے ہیں جن میں پنجاب کو 93 ہزار 746، سندھ کو 43 ہزار 838، خیبرپختونخوا کو 28 ہزار 868، بلوچستان کو 11 ہزار 857، پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کو 4 ہزار 124، اسلام آباد کو ایک ہزار 737، گلگت بلتستان کو ایک ہزار 339 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شمار کنندہ کو دو بلاکس سے معلومات جمع کرنے کا انچارج بنایا گیا۔ شمار کنندگان کی ٹیبلٹس میں ان کے بلاک گراف کی صورت میں موجود تھے جنہیں جی پی ایس سے منسلک کیا گیا، دراصل بلاک مردم شماری کےلیے جغرافیائی اکائی ہے اور ہر بلاک 200 سے 250 گھروں پر مشتمل تھا، جب کہ کراچی میں کل 16 ہزار بلاکس بنائے گئے۔

ڈیجیٹل مردم شماری کے پہلے مرحلے یعنی آن لائن اندراج کےلیے عوام کو 20 فروری سے 3 مارچ تک کا وقت دیا گیا تھا۔ دوسرے مرحلے کا آغاز یکم مارچ سے کیا گیا جس کی ابتدائی ڈیڈ لائن 4 اپریل تھی، تاہم اس عمل میں 5 بار توسیع کی گئی۔ آن لائن مشق میں ایک کروڑ سے بھی کم شہریوں نے حصہ لیا۔ پی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً 16 کروڑ ہے لیکن مردم شماری کے اس عمل میں عوام کی جانب سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک کی بڑی اکثریت اس عمل سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔

اس حوالے سے ادارہ شماریات کے حکام نے بتایا کہ ادارے کی جانب سے اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھرپور تشہیر کی گئی تھی لیکن پھر بھی ہمیں جتنی امید تھی اتنے لوگوں نے آن لائن رجسٹریشن نہیں کی۔ تقریباً 80 سے 90 لاکھ لوگوں نے سیلف رجسٹریشن والے عمل میں حصہ لیا۔

مردم شماری کے نتائج :

رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت وفاقی ادارہ شماریات کے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات میں ساتویں خانہ ومردم شماری کے غیرحتمی نتائج کے مطابق 25 مئی تک پاکستان کی مجموعی آبادی 25 کروڑ 54 لاکھ 66 ہزار تھی۔ سندھ کی آبادی 5 کروڑ 79 لاکھ 25 ہزار 802 اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ 91 لاکھ 24 ہزار 812 ہے۔ خیال رہے کہ 2017 میں ہونے والی مردم شماری میں سندھ کی آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 54 ہزار 510 تھی اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار 894 تھی۔

ڈیجیٹل مردم شماری پر گہری نظر رکھنے والے صحافی عبدالجبار ناصر کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سندھ میں ایک کروڑ 2 لاکھ 77 ہزار 778 گھر شمار ہوئے جن میں سے ایک کروڑ 2 لاکھ 45 ہزار 169 گھروں کی مردم شماری میں 5 کروڑ 79 لاکھ سے زائد افراد شمار ہوئے، جن میں سے 3 کروڑ 3 لاکھ 73 ہزار 953 مرد، 2 کروڑ 70 لاکھ 23 ہزار 422 خواتین اور 3871 خواجہ سرا ہیں، جو پچھلی مردم شماری کے مقابلے میں 30 فیصد کم ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں صوبہ سندھ میں خواجہ سراؤں کی تعداد 5954 تھی، جب کہ کراچی میں خواجہ سراؤں کی تعداد 2017 کی مردم شماری میں 2174 تھی اور اب 2289 ہے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کےلیے کام کرنے والے کراچی کے خواجہ سرا نیشا نے بتایا کہ کراچی میں خواجہ سراؤں کی تعداد جان بوجھ کر کم دکھائی گئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں خواجہ سراؤں کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے اور 5 ہزار سے زیادہ خواجہ سراؤں کا ڈیٹا تو میرے پاس موجود ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سیلف رجسٹریشن کا زیادہ لوگوں کو علم نہیں تھا اور چونکہ میرے پاس ابھی زیادہ معلومات نہیں، اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کن علاقوں سے ہمیں شمار نہیں کیا گیا۔ ڈائریکٹر ادارہ شماریات سندھ منور گھانگرو نے کہا کہ اگر کراچی میں 10 ہزار خواجہ سرا مقیم ہیں تو وہ کہاں ہیں؟ ہم نے اگر 3 ہزار کو ریکارڈ کیا ہے تو ہم 10 ہزار کو بھی کرلیتے لیکن چونکہ وہ ایک مخصوص جگہ پر نہیں رہتے جہاں سے انہیں ٹریس کیا جائے، اس لیے ہمیں جو ڈیٹا ملا وہ اکھٹا کرلیا۔ سماجی کارکن نسیم شیخ نے بتایا کہ کراچی میں بسنے والے زیادہ تر خواجہ سراؤں کا تعلق ملک کے دیگر حصوں سے ہے جس کی وجہ سے شاید انہوں نے اپنا شمار وہیں پر کروایا ہوگا اور چونکہ ہمارے معاشرے نے اب تک انہیں تسلیم نہیں کیا، اس لیے وہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے بجائے مرد والے خانے میں اپنا اندراج کرواتے ہیں۔


مردم شماری کی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے کراچی کے صحافی عبدالجبار ناصر کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس عمل کے آغاز سے ہی کچھ جماعتوں نے مسائل کی نشاندہی کرنا شروع کردی تھی جس کی وجہ سے تاریخ میں توسیع کرنی پڑی، نتیجتاً سندھ اور کراچی کی آبادی میں بڑی تعداد میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی ایک قومی اسمبلی (ضلع ملیر سے) اور ایک صوبائی اسمبلی (ضلع جنوبی سے) نشست اندرون سندھ منتقل ہوجائے گی۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ عوام نے اس عمل میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا اور شمار کنندگان سے تعاون نہیں کیا، جس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے مناسب تشہیر نہ کرنا تھی، جب کہ کسی بھی بڑے میڈیا گروپ نے مردم شماری کو مسلسل کوریج نہیں دی۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کی آبادی 3 کروڑ کا دعویٰ کرنے سے متعلق عبدالجبار ناصر نے بتایا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں، لوگ صرف اندازہ لگاتے ہیں لیکن اس حوالے سے عملی کام کسی نے بھی نہیں کیا۔ جماعت اسلامی سمیت کسی بھی جماعت نے شمار گنندگان کی جانب سے بے ضابطگیوں سے متعلق کسی قسم کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن سندھ کو لکھی گئی آر ٹی آئی تو موصول نہیں ہوئی البتہ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ جب تک ادارہ شماریات مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کرتا تب تک ہم کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے، البتہ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں اگر کراچی کی آبادی میں اس تناسب سے اضافہ نہ ہوا تو ایک یا دو نشستیں کم ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت کی پوزیشن کے مطابق عام انتخابات پچھلی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی ہوں گے کیوں کہ نئی مردم شماری کے نتائج آنے کے بعد حلقہ بندیوں کےلیے وقت درکار ہوگا۔

شمارکنندگان کے مسائل

ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران مسائل جاننے کےلیے میں نے کراچی کے تمام ڈسٹرکٹ میں فرائض انجام دینے والے شمارکنندگان سے رابطہ کیا، جنہوں نے سہولیات کی عدم فراہمی، سیکیورٹی سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنے کا شکوہ کیا۔

ایک شمار کنندہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹریننگ کے آغاز سے ہی مسائل شروع ہوگئے تھے کہ ہمیں ٹریننگ دینے والے خود بھی غیرتربیت یافتہ تھے، حتیٰ کہ ٹریننگ کے آخری دن ہمیں ٹیبلیٹس فراہم کیے گئے اور اس پر بھی بہت سے شمار کنندگان کی آئی ڈی نہیں چل رہی تھی۔

ٹیکنیکل مسائل: مردم شماری کے دوران میرے گھر پر آنے والی شمارکنندہ نے بتایا کہ آپ نے خود بھی دیکھا کہ میں نے ٹیبلیٹ کو ری اسٹارٹ کیا، کیوں کہ جی پی ایس کے مسائل کی وجہ سے دوسرے بلاک کا ڈیٹا دکھائی دیتا ہے اور اکثر انٹرنیٹ بھی غائب ہوجاتا ہے۔

ڈائریکٹر ادارہ شماریات سندھ منور گھانگرو نے اس بات کو تسلیم کیا کہ لوگوں کی ٹریننگ ہونے کے باوجود آغاز میں ٹیبلیٹ اور سافٹ ویئر میں مسائل سامنے آئے تھے، لیکن ہم نے ہر تحصیل میں سپورٹ سینٹر قائم کیے تھے جس میں نادرا کے افسران موجود رہتے تھے۔

سیکیورٹی خدشات: ایک شمار کنندہ نے بتایا کہ کچھ دن تک ہمیں کسی قسم کی سیکیورٹی نہیں دی گئی۔ اکثر اہلکار وقت پر نہیں پہنچتے تھے اور چھٹیاں کرتے تھے، پوچھنے پر ہمیں بتایا جایا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی دوسری جگہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے اور ہمارے پاس ٹیم نہیں ہے لہٰذا آپ کو کام روکنا پڑے گا۔

اس حوالے سے ڈائریکٹر ادارہ شماریات سندھ منور گھانگرو کا کہنا تھا کہ شمار کنندگان کی جانب سے ہمیں پولیس والوں یا پھر اسسٹنٹ کمشنرز کے خلاف کسی قسم کی شکایات موصول نہیں ہوئیں اور جب ہمارے پاس شکایات ہی نہیں آئیں تو ہم کیسے کسی کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔


خواتین شمارکنندگان کا کہنا تھا کہ ہمیں عوام کی جانب سے ہراساں کیا جاتا تھا لیکن ہم شکایت کس کو کرتے، ہمارے ساتھ جو سیکیورٹی پر مامور تھے وہ خود ہمیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے تھے۔


مردم شماری میں شامل شمار کنندہ خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق سوال پر سماجی کارکن نسیم شیخ نے بتایا کہ یہ بات چند ایک خواتین کی جانب سامنے ضرور آئی ہے لیکن اس حوالے سے ریکارڈ پر شکایات موجود نہیں۔ اگر انہیں واقعی مسائل کا سامنا تھا تو وہ پہلے متعلقہ فورم کو بتائیں، اس کے بعد کوئی ایکشن لیا جاسکتا ہے ورنہ ان کی شکایات کو درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔


لوگوں کی لاعلمی: خاتون شمار کنندہ نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ اپنا ڈیٹا دینے سے گریز کررہے تھے اور کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر غلط بیانی کی اور اپنے بچوں کی تعداد کم بتائی۔ ایک شمار کنندہ نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کوئی تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اور شمار کنندہ نے بتایا کہ ایک گھر میں خانہ ومردم شماری کا عمل مکمل کرنے کے بعد جب میں اٹھنے لگا تو پوچھا گیا کہ ہمیں پیسے کب سے ملنا شروع ہوں گے؟ یعنی وہ ہمیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ٹیم سمجھ رہے تھے۔


حکومتی عدم تعاون: شمار کنندگان کا کہنا تھا کہ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر 2 لیٹر پٹرول یا پھر ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن وہ ہمیں نہیں ملا اور نہ ہی کھانا فراہم کیا گیا۔ ایک خاتون شمار کنندہ نے بتایا کہ جب ہمیں ٹرانپسورٹ اور کھانے کا الاؤنس نہیں دیا گیا تو ہم نے احتجاج کیا، جس پر ہمیں دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ اگر ہماری شکایات آگے پہنچائیں تو تم لوگوں کی نوکریاں ختم ہوجائیں گی۔


ڈسٹرک سینٹرل کی ایک شمار کنندہ نے بتایا کہ اندرون سندھ میں ٹیموں کو بہت پیسے دیے گئے، البتہ کراچی کے کچھ ڈسٹرکٹ میں معمولی رقم دی گئی لیکن ہمیں ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا اور کہا گیا کہ ہم نے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا تھا، آپ لوگوں نے وہ بسیں استعمال نہیں کیں۔


ڈائریکٹر ادارہ شماریات سندھ منور گھانگرو نے بتایا کہ ہم نے ملک بھر میں شمارکنندگان کےلیے ایک جتنی رقم مختص کی تھی البتہ پہاڑی علاقوں کےلیے ٹرانسپورٹ کی مد میں الگ الاؤنس رکھا گیا تھا اور شمارکنندگان کے 25 یا 32 ہزار میں ٹرانسپورٹ اور کھانے کے پیسے بھی شامل تھے۔ ٹرانسپورٹ کی سہولت صرف سپروائزرز کےلیے تھی۔ دراصل ہم نے ہر سپروائزر کے نیچے ایک یونٹ بنایا تھا جس میں پولیس والے اور شمارکنندگان شامل تھے اور ہر سپروائزر کےلیے ایک گاڑی دستیاب تھی اور وہ فرد واحد کےلیے نہیں تھی بلکہ سپروائزر کے ساتھ پولیس والے اور شمارکنندگان بھی شامل تھے۔


جعلسازی: کراچی کی ایک یونین کونسل کے سیکریٹری نے مجھے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت کی جانب سے جن شمار کنندگان کی باقاعدہ ٹریننگ دے کر ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں انہوں نے صرف پیسے کی خاطر ہامی بھرلی اور پھر پرائیوٹ لوگوں کو چند پیسے دے کر شمار کنندگان بنایا، جس کی وجہ سے مردم شماری کے دوران بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔


ڈائریکٹر ادارہ شماریات سندھ منور گھانگرو نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ پرائیوٹ لوگوں کو بھرتی کرنے کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی کہ فلاں بندے کی ڈیوٹی تھی اور اس کی جگہ کسی اور نے فرائض انجام دیے۔


غفلت کا مظاہرہ: ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی شکایت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے کچھ شہریوں سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر مردم شماری کی ٹیم نہیں آئی۔ جب کہ کچھ نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں مردم شماری والے آئے لیکن ہمارے گھر پر نہیں آئے۔ بعد ازاں علاقے کے نمائندگان کو شکایت کرنے کے بعد کچھ گھروں کو شمار کرلیا گیا تھا۔


اعتراضات


ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیموگرافر ڈاکٹر مہتاب کریم نے کہا کہ کراچی کی آبادی ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ 1998 اور 2017 کی مردم شماریوں میں کراچی کی آبادی کو کم رپورٹ کیا گیا۔ پاکستان ادارہ شماریات کے مرتب کردہ سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1951 اور 1961 میں ہونے والی مردم شماری میں کراچی کی آبادی بالترتیب 10 لاکھ 70 ہزار اور 10 لاکھ 91 ہزار تھی جب کہ 1972 میں 30 لاکھ 51 ہزار، 1981 میں 50 لاکھ 22 ہزار اور 1998 میں 90 لاکھ 34 ہزار تک پہنچ گئی تھی، تاہم 2017 میں 16 لاکھ کو عبور کرچکی تھی۔ ڈاکٹر مہتاب کریم نے دعویٰ کیا کہ 2017 کی مردم شماری سے قبل نادرا نے کراچی کے تمام 20 قومی اسمبلی کے حلقوں میں ایک مشق کی تھی اور مجموعی طور پر 2 کروڑ 14 لاکھ افراد کی گنتی کی تھی۔


ڈاکٹر مہتاب کریم نے ڈیجیٹل مردم شماری سے متعلق بتایا کہ شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سے یہ خدشہ تو اب نہیں رہا کہ شہریوں کو جان بوجھ کر نہیں گنا گیا، البتہ اب بھی بہت سے لوگ رپورٹ کررہے ہیں کہ ان کے گھروں کو شمار نہیں کیا گیا۔ میرے علاقے میں ٹیمیں تو آئیں لیکن یہاں بھی بہت سے گھروں میں شمارگنندگان نہیں گئے تاہم ان شکایات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت ڈیجیٹل مردم شماری کو متنازع نہیں بنانا چاہتی تو ساتویں مردم شماری کی درستی کو یقینی بنانے کےلیے کسی تھرڈ پارٹی سے پوسٹ مردم شماری سروے کروالے، جس سے تصویر واضح ہوجائے گی اور تمام جماعتوں کے خدشات بھی دور ہوجائیں گے۔


پوسٹ مردم شماری کے حوالے سے ترجمان ادارہ شماریات محمد سرور گوندل نے کہا کہ ہم مردم شماری مانیٹرنگ کمیٹی کو پوسٹ مردم شماری کا پرپوزل بھیجیں گے اور پھر کمیٹی تمام معاشی ودیگر معاملات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو تجویز دے گی، جس کے بعد حتمی فیصلہ حکومت کی جانب سے کیا جائے گا۔


ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر کنوینئر سید مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ کراچی میں 8 لاکھ 47 ہزار گھروں کو کم گنا گیا اور 40 لاکھ 96 ہزار افراد کو گنا ہی نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں کل 16 ہزار بلاکس بنائے گئے اور ایک بلاک میں 198 گھر شمار کیے گئے، جب کہ اس کے برعکس لاڑکانہ میں ایک بلاک 254 اور شہید بے نظیر آباد میں ایک بلاک میں 270 گھر شمار کیے گئے۔


ترجمان ادارہ شماریات محمد سرور گوندل نے بتایا کہ اگر ایم کیو ایم کا دعویٰ درست ہے تو متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو ان گھروں کی تفصیلات فراہم کردیں اور ایک کاپی ہمیں بھی بھیج دیں۔ ہم ان گھروں کی گنتی کروادیں گے تو جھگڑا ہی ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جن گھروں کو شمار نہیں کیا گیا اور جب وہ ہمارے علم میں آئے تو اس حوالے سے ہم نے ان علاقوں کے اسسٹنٹ کمشنر کو لکھ کر چیک کرنے کا کہا اور وہ فیلڈ میں گئے بھی ہیں اور ہماری بتائی گئی تعداد سے زیادہ شمار کروا کر واپس آئے ہیں۔


ڈائریکٹر ادارہ شماریات سندھ منور گھانگرو نے بتایا کہ 100 سے لے کر ایک ہزار گھروں والے بلاکس بھی ملیں گے لیکن ان سب کو ملاکر پورے ملک میں اوسطاً 250 گھروں کے بلاک بنتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے دعویٰ کو دیکھا جائے تو سندھ کے مقابلے میں کراچی میں ایریا کا فرق ہے جس کی وجہ سے کراچی میں ایک بلاک میں گھر کم آئے ہیں۔ کراچی میں اگر ایک پلازہ میں 250 سے زائد گھر موجود ہیں تو وہ دو بلاک پر تقسیم ہوگا، جس سے ایک بلاک میں 150 گھر بھی آسکتے ہیں۔


بلاک سے متعلق جب میں نے شمار کنندگان سے تفصیلات طلب کی تھی تو اس میں بتایا گیا کہ نقشے کی کٹنگ کی وجہ سے کچھ شمار کنندگان کے پاس 350، 380 اور 400 تک گھروں کے بلاکس بھی دیے گئے ہیں حالانکہ ایک بلاک میں زیادہ سے زیادہ 250 گھر ہونے چاہیے تھے جب کہ کچھ کے پاس بلاک میں 200 سے کم گھر بھی شامل تھے۔ جیسا کہ خاتون شمار کنندہ نے بتایا کہ میرے ایک بلاک میں 272 تو دوسرے بلاک میں 204 گھر شامل تھے۔


امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ مردم شماری اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک اس کے نتائج کے الیکٹرک اور نادرا کے ڈیٹا کے مطابق نہیں آجاتے۔ ان تینوں اداروں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہے، اگر مردم شماری میں ماضی کی طرح جعل سازی یا دھاندلی کی تو ہم عدالتوں سے رجوع کریں گے۔


ڈائریکٹر ادارہ شماریات سندھ منور گھانگرو نے بتایا کہ جماعت اسلامی والوں کے ساتھ ہماری ملاقاتیں ہوئیں تو ان سے کہا کہ جتنے بھی گھر یا علاقے رہ گئے ہیں وہ ہمیں بتائیں، ہمارے پاس جیسے ہی کوئی شکایت آتی، ہم اپنی ٹیم بھیج کر وہاں کی گنتی کروا لیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دعویٰ کررہا ہے کہ فلاں گھر یا علاقہ نہیں ہوا تو ہمیں اس کا ثبوت چاہیے ہوگا تاکہ ہم اس کو بھی شمار کروالیں اور ہماری ٹیمیں گھر گھر گئی ہیں جبھی تو کراچی میں ایک کروڑ 92 لاکھ کی آبادی سامنے آئی ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔