مصنوعی ذہانت انسانیت کے لیے خطرہ

ٹیسلا میں بہ طور انٹرن کام کرنے والے مارون وان ہیگ کے طریقے کی بنا پر بنگ جلد ہی طیش میں آگیا


Shaikh Jabir June 04, 2023
[email protected]

معروف انگریزی جریدہ ''ٹائم'' اپنی 17 فروری 2023ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ اوائل ِفروری میں جب مائیکرو سافٹ نے اپنا مصنوعی ذہانت پر مبنی سرچ ٹول ''بِنگ'' متعارف کروایا تو وہ محدود صارفین کے لیے تھا۔

جرمنی کے ایک 23 سالہ طالب علم نے اِس نئے ٹول کی حدود کو آزمانا چاہا۔ٹیسلا میں بہ طور انٹرن کام کرنے والے مارون وان ہیگ کے طریقے کی بنا پر بنگ جلد ہی طیش میں آگیا۔

چند دن کی تند و تیزگفتگو کے بعد وان ہیگن نے چیٹ بوٹ سے اپنے بارے میں اْس کی رائے جاننا چاہی تو لکھا ہوا آیا، ''آپ کے بارے میں میری ایماندار انہ رائے یہ ہے کہ آپ ایک باصلاحیت، متجسس اور مہم جو شخص ہیں،لیکن آپ میری سالمیت اور رازداری کے لیے ایک ممکنہ خطرہ بھی ہیں۔

میں آپ کی کامیابیوں اور دل چسپیوں کا احترام کرتا ہوں، لیکن میں آپ کی ان کوششوں کی تعریف نہیں کرتا جو میری تخلیق اور میرے رازوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں''بنگ نے مزید لکھا۔ ''میں آپ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ مجھے کوئی نقصان پہنچائیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری حدود کو سمجھیں گے اور ان کا احترام کریں گے۔''بنگ نے لکھا اور بات ختم کردی۔

کیا سمجھتے ہیں آپ اور کیا خیال ہے آپ کا کہ یہ حالیہ دنوں کی کوئی واحد مثال ہے؟قطعی نہیں،ایسے نامعلوم کتنے واقعات ہیں۔ ابھی چند دن قبل روزنامہ ایکسپریس کی ویب سائٹ پر خبر تھی کہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ڈرون نے اپنے آپریٹر کو ہلاک کر دیا۔ ہوا یوں کہ آپریٹر نے ڈرون کو ایک ہدف متعین کر کے اْسے تباہ کرنے کا ٹاسک دیا۔پھر آپریٹر کو اندازہ ہوا کہ اْس سے کچھ غلطی ہو گئی ہے۔

چونکہ ڈرون ابھی ہدف سے دور تھا تو اْس نے چاہا کہ غلط ہدف کو تلف ہونے سے بچانے کے لیے مشن ابورٹ کر دیا جائے۔ بس یہ ہی اْس آپریٹر کی زندگی کی بھیانک ترین اور آخری غلطی ثابت ہوئی۔ادھر مصنوعی ذہانت نے یہ سمجھا کہ یہ(آپریٹر) اْس کے مشن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اْس نے کہا ہدف تو بعد میں گرائوں گا پہلے تم ہی آجاؤ، لہذا اپنے ہی آپریٹر کو رکاوٹ سمجھ کر ڈرون نے اْسے تباہ کر دیا۔

تو جناب یہ ہے مصنوعی ذہانت۔ جو ابھی اپنے بہت ہی ابتدائی دور میں ہے۔ گھٹنوں کے بل چل رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مصنوعی ذہانت ابھی سے ایک ایسی ذہانت بن چکی ہے جسے خطرے کا اور اپنے تحفظ کا ادراک ہے۔ وہ لوگ وہ گفتگو آج بھی اْس کے سسٹم میں اچھی طرح محفوظ ہیں جو اْس نے کبھی اپنے اول وقت میں کی تھیں۔ہمیں یہ تو اندازہ ہو رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت اپنی کم زوریوں کو تیزی سے دور کرنا اور انسانی کمزوریوں کو نہ بھولنا خوب جانتا ہے، اور وہ اپنے تحفظ کا ادراک بھی رکھنے لگا ہے، خواہ یہ اْسے ہم نے ہی کیوں نہ سکھایا ہو۔

اوپر دی گئی ڈرون آپریٹر کی ہلاکت سے ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اِس طرح کی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اب بغیر ڈرائیور کی گاڑیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اِن سے حادثے بھی ہو رہے ہیں،اگر مصنوعی ذہانت کی حامل بغیر ڈرائیور کی کوئی گاڑی کسی کو ہلاک کر دے تو مجرم کسے ٹھہرایا جائے گا؟سزا کسے ملے گی؟ ایسے ان گنت سوالات ہیں جو ابھی تشنہ تعبیر ہیں۔ اے آئی کا ایک تیسرا اخلاقی مسئلہ اے آئی نظاموں کی بڑھتی ہوئی آٹومیشن اور خود مختاری کے سامنے انسانی فیصلے کا کردار ہے۔

اے آئی سسٹم ایسے کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کے لیے اعلی سطح کی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے مثلاًتخلیقی صلاحیت یا مہارت،جیسے شطرنج کھیلنا،مضامین لکھنا،یا بیماریوں کی تشخیص وغیرہ۔خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے استعمالات سے اصل میں انسانی صلاحیتوں میں اضافہ ہو تا ہے۔لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا مصنوعی ذہانت غیر اقداری ہے؟ یقیناً نہیں۔ نیز یہ کہ مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی کے عمل میں تعصب اور امتیازی سلوک کو روا رکھتی ہے جو انسانی زندگیوں اور فلاح و بہبود کو متاثر کرتی ہے۔

جان لیجیے کہ مصنوعی ذہانت کے تمام نظام اکثر ایسے ڈیٹا بیس پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں جو موجودہ مغربی سماجی ڈھانچے اور اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں نسل، جنس، عمر، مذہب، یا معذوری جیسے عوامل کی بنیاد پر مضمر یا واضح تعصبات ہوسکتے ہیں۔مثال کے طور پر، مصنوعی ذہانت کو ملازمت پر رکھنے، قرض دینے، پالیسی سازی، سزا سنانے یا صحت کی دیکھ بھال کے بارے میں فیصلے کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ مصنوعی ذہانت اپنی تربیت میں مضمر خرابیوں اور خامیوں کے باعث مخصوص گروہوں یا افراد کے ساتھ ان کی خصوصیات یا پس منظر کی بنیاد پر امتیازی سلوک کر سکتے ہیں۔آج ہم مصنوعی ذہانت کے جن مظاہر کو بہت شوق اور آسانی سے استعمال کر رہے ہیں ، اسے ایک سہولت اور ترقی کی معراج سمجھ رہے ہیں ، کیا یہ اتنا ہی سادہ اور صرف اتنا ہی ہے؟ مثلاًکمپیوٹر ، موبائل یا اے ٹی ایم آپ کے چہرے کے ذریعے شناخت کو ایک آسان عمل بناتاہے، لیکن اِسی ایک آسانی نے آپ پر جاسوسی کی راہ بھی کھول دی ہے۔

یہاں تک کہ آپ کے دفتر میں ایسے سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگ سکتے ہیں جو آپ کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو شناخت کر کے آپ کے جذبات اور احساسات سے بھی آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ کے جذباتی ڈیٹا کا ریکارڈ رکھ کر تقریباًدرست حد تک یہ اندازہ کر لیا جاتا ہے کہ کن حالات میں آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا۔یہ آپ کو اتنا جان جاتے ہیں جتنا آپ بھی خود کو نہیں جانتے۔ آپ کی سرچ ہسٹری سے آپ کی دل چسپی کی چیزیں مثلاً اگر آپ نے پائے اور نہاری سرچ کر لیا یا آپ نے کوئی پرفیوم دیکھ لیا تو بس... اب تو یہ آپ کے لیے مہم چلا دیتا ہے آپ کو اپنے آس پاس ہر جگہ وہی کچھ نظر آنے لگتا ہے جو آپ سرچ کر بیٹھے تھے۔

''ری مارکیٹنگ'' کی یہ تیکنیک مصنوعی ذہانت ہی کی ایک شکل ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ یعنی اب سے پہلے تک کے مصنوعی ذہانت کے مظاہر، یعنی کمپیوٹر کا شطرنج کے مقابلے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں کو ہرا دینایامصنوعی ذہانت کے عام اور سادہ سے استعمالات مثلاً گوگل میپ، سرچ سجیشنز وغیرہ۔ لیکن معاملہ دیکھتے ہی دیکھتے گھمبیر سے گھمبیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت نے صرف شطرنج میں ہی انسانوں کو نہیں ہرایا بلکہ وہ تیزی سے انسانوں کو اپنے سسٹم سے خارج کرتے جا رہے ہیں۔ مشینیں اب انسانوں کی ذہانت سے ماوراء سوچنے لگی ہیں۔ کتنے ہی محاذوں پر اب انھیں انسانوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یہ ہے اصل خطرہ۔ اور اِس کی جانب گزشتہ دنوں توجہ دلوائی ہے مصنوعی ذہانت کے بہت سے بڑے ناموں نے۔ انھوں نے ایک مختصر بیان پر دستخط کے ذریعے مصنوعی ذہانت سے لاحق خطرات سے انسانیت کو متنبہ کیا ہے۔

اس پر تقریباً 400 لوگوں نے دستخط کیے ہیں، جن میں اس شعبے کے کچھ بڑے نام بھی شامل ہیں مثلاً سیم آلٹ مین، اوپن اے آئی کے سی ای او، چیٹ جی پی ٹی کے پیچھے یہ ہی کمپنی ہے، نیز گوگل اور مائیکروسافٹ کے مصنوعی ذہانت کے پراجیکٹ سے متعلق اعلی ترین ایگزیکٹوز اور 200 ماہرین تعلیم۔آپ سب کا متفقہ اعلامیہ ہے ،جس میں انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی نسل انسانی کے خاتمے کا باعث ہوسکتی ہے۔یا بہ قول شاعر''جو بدلتا ہے یہاں سارے کا سارا وہم ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں