عافیہ کی رہائی کی کنجی
قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کیس میں حکومتیں اپنا کردار ادا کرنے میں بے حس اور مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں
امریکا میں مقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 20 سال بعد اپنی بہن فوزیہ صدیقی سے ملاقاتیں ہوئیں، ملاقات میں ڈاکٹر فوزیہ کے ہمراہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور انسانی حقوق کے وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ بھی موجود تھے۔
ملاقات کے لیے عافیہ کو ایک چھوٹے سے کمرے میں لایا گیا درمیان میں ایک شیشے کی دیوار حائل تھی اس دوران ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی جا رہی تھی وہ کافی کمزور اور خوفزدہ نظر آ رہی تھی، چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے وہ التجا کر رہی تھی مجھے اس جہنم سے نکالو۔ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے عافیہ کو سماعت میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ ملاقات کے اختتام پر اسے زنجیروں سے جکڑ کر واپس لے جایا گیا۔
ملاقات کے دوران جیل کی بھاری کنجیوں کی آوازیں پس منظر موسیقی کی طرح وقفے وقفے سے بج رہی تھیں۔ عافیہ کو اس کے بچوں کی تصاویر بھی نہیں دکھانے دی گئیں جو اب 20 سال کے ہو چکے ہیں۔ اسے ماں کے انتقال کی خبر بھی نہیں دی گئی، عافیہ کا کہنا تھا کہ میں روزانہ ماں بہن اور بچوں کو یاد کرتی ہوں۔
اسٹفورڈ اسمتھ انسانی حقوق کے علم بردار وکیل ہیں جو اس سے قبل سیف اللہ پراچہ کو گوانتاناموبے جیل سے رہا کرا چکے ہیں، اس ملاقات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ ملاقات کے دوران انھوں نے فوزیہ صدیقی کو تلقین کی کہ اپنی بہن سے اہلخانہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باتیں کریں۔
ملاقات کے بعد ڈاکٹر فوزیہ تبصرہ کرنے سے قاصر تھیں اور گاڑی میں بیٹھ کر روتی رہیں، کلائیو اسٹفورڈ نے کہا کہ وہ آیندہ دو دنوں میں اس کیس پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے کہ عافیہ کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے انھوں نے کہا کہ'' یہ ملاقات انتہائی افسردہ کرنے والی تھی لیکن اس جذباتی ملاقات کے لیے حاضر ہونا ایک اعزاز تھا۔ ''
کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ امریکی نژاد برطانوی ہیں جو انسانی حقوق کے علم بردار اور یوکے ہیومن رائٹس این جی او تھری ڈی سی کے ڈائریکٹر ہیں جو امریکی عقوبت خانوں سے کئی بے گناہوں کو رہائی دلوا چکے ہیں۔ انھوں نے پچھلے ماہ کے اوائل میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کہا تھا کہ ''عافیہ کے ساتھ بہت ظلم و ناانصافی کی گئی ہے۔
فوزیہ میری بہن ہے میں عافیہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا'' اس موقع پر ڈاکٹر فوزیہ نے خطاب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا کہ ''پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے۔''
اس موقع پر سوال و جواب کے دوران ایک مندوب نے بہت معنی خیز جملہ کہا کہ ''کلائیو اسٹفورڈ اس وقت ساری پاکستانی قوم کی نظریں آپ پر لگی ہیں اور ساری توقعات آپ سے وابستہ ہیں۔'' اسٹفورڈ نے کہا تھا کہ میں بحیثیت ایک امریکی اس مقدمے پر بڑا شرمسار ہوں۔ اس ملاقات میں شامل سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ عافیہ کی رہائی حکومت پاکستان کی ایمانداری کی مرہون منت ہے اور عافیہ کی رہائی کی کنجی اسلام آباد میں ہے۔
انھوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ عافیہ کو فی الفور ایف ایم سی کارزویلسے کسی دوسری جیل منتقل کرانے کے لیے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔عدالتیں حکمرانوں کو عافیہ کے مسئلے پر وقتاً فوقتاً مختلف ہدایات اور احکامات جاری کرتی رہی ہیں یہاں تک کہ عافیہ کی واپسی کے لیے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے کی ہدایت دے چکی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عافیہ سے اہل خانہ کی ملاقات اور ہر ہفتے خیریت سے آگاہ کرنے کا پابند کیا تھا اور وزیر اعظم کو دورہ امریکا میں اس مسئلے کو اٹھانے کی ہدایت کی تھی، سینیٹ عافیہ کی سزا کی مذمت اور اسے واپس لانے کی قرارداد پاس کرچکی ہے۔
عافیہ کی قید کے اس عرصے کے دوران آٹھ حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں کسی نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ سینیٹر طلحہ محمود نے عافیہ سے ملاقات کے بعد بیان دیا تھا کہ حکومت اس کی رہائی کے لیے مخلص نہیں ہے۔
امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر کا کہنا ہے کہ وکلا نے عافیہ کے حق میں موجود ثبوت و شواہد کو ضایع کیا لگتا ہے کہ حکومت نے ان کی خدمات عافیہ کو مجرم قرار دلوانے کے لیے حاصل کی تھیں۔ عافیہ کے اہل خانہ نے بھی حکومت کو وکلا کرنے سے منع کیا تھا جنھیں پانچ ملین ڈالر کی فیس ادا کی گئی ہے۔ عافیہ کے لیے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہرے کیے اور انھیں ''صدی کی خاتون'' کے خطاب سے نوازا گیا۔
صدر جارج ڈبلیو بش اعتراف کرچکے ہیں کہ جیلوں میں ہونے والے مظالم امریکا کی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ نیویارک کے ریٹائر جج رچرڈ برمین کا کہنا ہے کہ مقدمے میں کہیں ثابت نہیں ہوا کہ عافیہ کا کسی تنظیم سے تعلق ہے امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے کبھی عافیہ کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔
قیدی نمبر 650 (عافیہ صدیقی) کی قید کا انکشاف کرنے والی نو مسلم صحافی مریم ایون ریڈلے بھی یہی کہتی ہیں کہ پاکستانی حکومت نے عافیہ کی رہائی کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ حکمران عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں انھیں اداکاری کا آسکر ایوارڈ دینا چاہیے۔ امریکی سینیٹر اور سابق صدارتی امیدوار مائیک گریلو عافیہ کو معصوم اور قید کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔
سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک بھی عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں انھوں نے کراچی ہائیکورٹ بار سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ ایک پاکستانی بیٹی کو بچانے پاکستان آئے ہیں جس میں حکومت پاکستان کی شرکت ضروری ہے۔ انھوں نے برملا اعتراف کیا تھا کہ امریکی مقدمہ بے بنیاد اور غیر قانونی تھا جس سے خود انھیں اور امریکی عوام کو دھچکا لگا ہے۔
قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کیس میں حکومتیں اپنا کردار ادا کرنے میں بے حس اور مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں اگر حکومت چاہے اور اس معاملے میں دلچسپی لے کر اپنا کردار کماحقہ ہو کر ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ عافیہ کی رہائی ممکن نہ ہو سکے اس پر حکومت وقت کو نیک نیتی اور سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
ملاقات کے لیے عافیہ کو ایک چھوٹے سے کمرے میں لایا گیا درمیان میں ایک شیشے کی دیوار حائل تھی اس دوران ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی جا رہی تھی وہ کافی کمزور اور خوفزدہ نظر آ رہی تھی، چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے وہ التجا کر رہی تھی مجھے اس جہنم سے نکالو۔ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے عافیہ کو سماعت میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ ملاقات کے اختتام پر اسے زنجیروں سے جکڑ کر واپس لے جایا گیا۔
ملاقات کے دوران جیل کی بھاری کنجیوں کی آوازیں پس منظر موسیقی کی طرح وقفے وقفے سے بج رہی تھیں۔ عافیہ کو اس کے بچوں کی تصاویر بھی نہیں دکھانے دی گئیں جو اب 20 سال کے ہو چکے ہیں۔ اسے ماں کے انتقال کی خبر بھی نہیں دی گئی، عافیہ کا کہنا تھا کہ میں روزانہ ماں بہن اور بچوں کو یاد کرتی ہوں۔
اسٹفورڈ اسمتھ انسانی حقوق کے علم بردار وکیل ہیں جو اس سے قبل سیف اللہ پراچہ کو گوانتاناموبے جیل سے رہا کرا چکے ہیں، اس ملاقات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ ملاقات کے دوران انھوں نے فوزیہ صدیقی کو تلقین کی کہ اپنی بہن سے اہلخانہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باتیں کریں۔
ملاقات کے بعد ڈاکٹر فوزیہ تبصرہ کرنے سے قاصر تھیں اور گاڑی میں بیٹھ کر روتی رہیں، کلائیو اسٹفورڈ نے کہا کہ وہ آیندہ دو دنوں میں اس کیس پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے کہ عافیہ کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے انھوں نے کہا کہ'' یہ ملاقات انتہائی افسردہ کرنے والی تھی لیکن اس جذباتی ملاقات کے لیے حاضر ہونا ایک اعزاز تھا۔ ''
کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ امریکی نژاد برطانوی ہیں جو انسانی حقوق کے علم بردار اور یوکے ہیومن رائٹس این جی او تھری ڈی سی کے ڈائریکٹر ہیں جو امریکی عقوبت خانوں سے کئی بے گناہوں کو رہائی دلوا چکے ہیں۔ انھوں نے پچھلے ماہ کے اوائل میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کہا تھا کہ ''عافیہ کے ساتھ بہت ظلم و ناانصافی کی گئی ہے۔
فوزیہ میری بہن ہے میں عافیہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا'' اس موقع پر ڈاکٹر فوزیہ نے خطاب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا کہ ''پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے۔''
اس موقع پر سوال و جواب کے دوران ایک مندوب نے بہت معنی خیز جملہ کہا کہ ''کلائیو اسٹفورڈ اس وقت ساری پاکستانی قوم کی نظریں آپ پر لگی ہیں اور ساری توقعات آپ سے وابستہ ہیں۔'' اسٹفورڈ نے کہا تھا کہ میں بحیثیت ایک امریکی اس مقدمے پر بڑا شرمسار ہوں۔ اس ملاقات میں شامل سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ عافیہ کی رہائی حکومت پاکستان کی ایمانداری کی مرہون منت ہے اور عافیہ کی رہائی کی کنجی اسلام آباد میں ہے۔
انھوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ عافیہ کو فی الفور ایف ایم سی کارزویلسے کسی دوسری جیل منتقل کرانے کے لیے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔عدالتیں حکمرانوں کو عافیہ کے مسئلے پر وقتاً فوقتاً مختلف ہدایات اور احکامات جاری کرتی رہی ہیں یہاں تک کہ عافیہ کی واپسی کے لیے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے کی ہدایت دے چکی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عافیہ سے اہل خانہ کی ملاقات اور ہر ہفتے خیریت سے آگاہ کرنے کا پابند کیا تھا اور وزیر اعظم کو دورہ امریکا میں اس مسئلے کو اٹھانے کی ہدایت کی تھی، سینیٹ عافیہ کی سزا کی مذمت اور اسے واپس لانے کی قرارداد پاس کرچکی ہے۔
عافیہ کی قید کے اس عرصے کے دوران آٹھ حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں کسی نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ سینیٹر طلحہ محمود نے عافیہ سے ملاقات کے بعد بیان دیا تھا کہ حکومت اس کی رہائی کے لیے مخلص نہیں ہے۔
امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر کا کہنا ہے کہ وکلا نے عافیہ کے حق میں موجود ثبوت و شواہد کو ضایع کیا لگتا ہے کہ حکومت نے ان کی خدمات عافیہ کو مجرم قرار دلوانے کے لیے حاصل کی تھیں۔ عافیہ کے اہل خانہ نے بھی حکومت کو وکلا کرنے سے منع کیا تھا جنھیں پانچ ملین ڈالر کی فیس ادا کی گئی ہے۔ عافیہ کے لیے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہرے کیے اور انھیں ''صدی کی خاتون'' کے خطاب سے نوازا گیا۔
صدر جارج ڈبلیو بش اعتراف کرچکے ہیں کہ جیلوں میں ہونے والے مظالم امریکا کی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ نیویارک کے ریٹائر جج رچرڈ برمین کا کہنا ہے کہ مقدمے میں کہیں ثابت نہیں ہوا کہ عافیہ کا کسی تنظیم سے تعلق ہے امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے کبھی عافیہ کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔
قیدی نمبر 650 (عافیہ صدیقی) کی قید کا انکشاف کرنے والی نو مسلم صحافی مریم ایون ریڈلے بھی یہی کہتی ہیں کہ پاکستانی حکومت نے عافیہ کی رہائی کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ حکمران عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں انھیں اداکاری کا آسکر ایوارڈ دینا چاہیے۔ امریکی سینیٹر اور سابق صدارتی امیدوار مائیک گریلو عافیہ کو معصوم اور قید کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔
سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک بھی عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں انھوں نے کراچی ہائیکورٹ بار سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ ایک پاکستانی بیٹی کو بچانے پاکستان آئے ہیں جس میں حکومت پاکستان کی شرکت ضروری ہے۔ انھوں نے برملا اعتراف کیا تھا کہ امریکی مقدمہ بے بنیاد اور غیر قانونی تھا جس سے خود انھیں اور امریکی عوام کو دھچکا لگا ہے۔
قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کیس میں حکومتیں اپنا کردار ادا کرنے میں بے حس اور مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں اگر حکومت چاہے اور اس معاملے میں دلچسپی لے کر اپنا کردار کماحقہ ہو کر ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ عافیہ کی رہائی ممکن نہ ہو سکے اس پر حکومت وقت کو نیک نیتی اور سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔