شادی خانہ آبادی نہیں خانہ بربادی کہیے
آج دُنیا اپنے علم و عمل میں کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم اب تک گاؤں کے گنوار بنے ہوئے ہیں
ہمارے معاشرے میں بہت دھوم دھام سے شادی کی روایت عام ہے، اگرکسی کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے تو وہ قرض یا اپنی جائیداد وائیداد بیچ کر اپنی بیٹی/ بیٹے کا بیاہ اُسی شان سے کرنا چاہتا ہے، جس شان سے اس کے کسی عزیز یا پڑوسی نے اپنی اولاد کی شادی خانہ آبادی کی تھی، جس دِین کے ہم پَیرو ہونے کے مدعی ہیں اُس میں تو شادی کی دھوم دھام کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتی، بس نکاح پر زور اور صرف ولیمے کی تاکید ہے جس میں سَو آدمی مدعوکیے جائیں یا ہزار آدمی اس کی کوئی تاکید نہیں۔
برِصغیر ہندوپاک کے (مسلم) معاشرے میں لڑکی کی شادی پورے خاندان والوں کے لیے ایک مسئلہ سمجھی جاتی ہے،اس کے برعکس لوگ بتاتے ہیں کہ جہاں سے اسلام آیا ہے یعنی عرب میں آج بھی لڑکی والے نہیں بلکہ جس عرب زادے کا گھر بس رہا ہے یا جس لڑکے کا نکاح ہو رہا ہے وہ ضرور اپنی ہونے والی شریک ِحیات اور نئے گھر کے لیے ضروری سازوسامان مہیا کرنے میں لگ جاتا ہے۔
ہمارے دین کو چودہ سَو برس گزر گئے جس میں زندگی کے نہایت معمولی معمولی معاملات کے لیے بھی رہنمائی ہے مگر ہم ہیں کہ ایک دوسرے سے معمولی باتوں پر الجھتے اور تبصرہ بھی کرنے میں نہیں چوکتے ۔ حال ہی میں ہمارے قریبی حلقے میں ایک نئے جوڑے کی شادی ''خانہ آبادی'' کی رو داد سنی تو دل بہت دُکھا کہ ہمیں اسلام قبول کر کے تو صدیاں گزر رہی ہیں لیکن ہم اسلام کی تعلیمات پر کب عمل کرنا سیکھیں گے ۔
عام معاشرتی رواج کے مطابق نہایت شاندار طریقے سے شادی ہوئی، مہمانوں کو انواع و اقسام کے کھانے کھِلائے گئے اور جہیز کے نام پر لڑکے والوں کو بہت کچھ دیا گیا مگر ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ پتہ چلا کہ لڑکی اپنے شوہرکو پسند نہیں کرتی اور وہ اپنے مائیکے چلی گئی، جس کو اب دو برس ہونے کو ہیں، ہندوستان میں اِس وقت بعض قوانین ایسے بن گئے ہیں کہ جن میں لڑکی یا لڑکی والوں کے لیے بہت سی رعایتیں ہیں جس کا جائز یا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
مختصر یہ کہ مذکورہ جوڑے کے مالدار لڑکی والوں نے پولیس کو اپنے ساتھ لیا اور لڑکے والوں کے گھر دھاوا بول کر نہ صرف دِیا ہوا جہیز کا ایک ایک سامان اٹھایا بلکہ لڑکی کی خوابگاہ کی جو آرائش وغیرہ کی گئی تھی وہ سب کھُرپی سے کھُرچ ڈالی اور اب یہ معاملہ عدالت میں پہنچا دِیا گیا ہے۔
اسی طرح الہ آباد کا ایک واقعہ بیان کیا گیا کہ لڑکی MBBS ڈاکٹر تھی، اس کے والدین بہت کھاتے پیتے لوگ تھے نہایت شاندار، نہایت شاندار، نہایت شاندار انداز سے شادی کی گئی، ایک ہزار سے زائد مہمانوں کی ( 'نہایت شاندار' کو پھِر تین بار پڑھیے) ضیافت کی گئی، شادی گاہ میں ضیافت کے لیے مامور کارِندے اعلیٰ درجے کے خشک میوہ جات کا تھال ہر مہمان کے سامنے کر رہے تھے، بعض بھائی لوگ آنکھ بچا کر دو دو مُٹھّی بادام جیبوں میں بھر رہے تھے خیر جانے دِیجیے کہ یہ تو ''ہم'' نے بھی کیا۔
اب آئیے! اصل موضوع پر، صرف پانچ دن گزرے تھے کہ یہاں بھی لڑکی نے نوشے کے بارے میں وہی رویہ اپنایا اور نہایت حقارت سے لڑکے کو ناپسند کردیا۔ خاندان کے لوگوں نے سمجھایا بجھایا مگر لڑکی اپنے رویے میں ٹس سے مس نہ ہوئی اور یہ نیا جوڑا اب معلق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس تحریر کے بعض پڑھنے والے تبصرہ کریں کہ جب لڑکی کو لڑکا ناپسند تھا تو آخر لڑکی کے گھر والوں بالخصوص لڑکی کی ماں نے شادی کیوں ہونے دی۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ لڑکی کے گھر والوں کا... 'عقیدہ '... تھا کہ شادی کے بعد ناپسند، پسند بن جائے گی مگر ہوا اِس کے بر عکس۔ لڑکی کوئی سنہ اُنیس سَو بیس کے زمانے کی تو تھی نہیں، باقاعدہ اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھی وہ اپنا شریکِ حیات خود پسند نا پسند کرنا چاہتی اور جانتی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ یہ حق تو دین ِاسلام نے بھی اسے دے رکھا ہے مگر والدین کی انا کہ ''ہم نے تمھیں پڑھایا لکھایا تو تم اس کا ہمیں یہ پھل دو گی۔'' نتیجہ، اس کا یہ نکلا کہ تمام دُنیا کے سامنے والدین کی نہ صرف انا کا محل مسمار ہوا بلکہ پورا خاندان ذلیل و خوار بھی ہوا۔
برسوں پہلے کا پڑھا ہوا ایک واقعہ آموختہ ہوا چاہتا ہے، پڑھے لکھے اکثر مسلمان مصر کے (مقتول) صدر انور سادات اور ایران کے رضا شاہ پہلوی سے ضرور واقف ہونگے ان کے بچوں کی آپس میں شادی ہوئی اور چند ماہ ہی میں پتہ چلا کہ لڑکے لڑکی کے گھر والوں کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا، دونوں طرف کے بزرگ بیٹھے، معاملے کی نزاکت کو سمجھا گیا اور پھر رِشتے کو آن کی آن ختم کر دیا گیا، کوئی فتنہ کوئی فساد نہیں ہوا۔
تاریخ ہے کہ رضا شاہ پہلوی کو جب انقلابِ ایران کے نتیجے میں اپنا تخت وتاج چھوڑ کر ایران سے فرار ہونا پڑا تو روایت ہے کہ انہیں مصرکے صدر انور سادات ہی نے اپنے ملک میں پناہ دِی تھی۔ اب ذرا سوچیے کہ اگر یہ ہمارے ہاں ہوتا تو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کیسا رویہ اختیارکرتے ہوئے کس قدر ایک دوسرے کو ذلیل کرتے۔
آج دُنیا اپنے علم و عمل میں کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم اب تک گاؤں کے گنوار بنے ہوئے ہیں۔ پیسہ تو اس قدر آگیا ہے کہ اس بارے میں کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر ذہنیت نہیں بدلی، ہم تمام رشتے ناتے اور رواداری کو کنارے کرکے صرف اورصرف اپنی امارت کے پرستار بنے ہوئے ہیں۔ ہزار بارہ سَو اسکوائر فٹ کا فلیٹ تو خرید لیا مگر دیہاتی پن نہیں چھوڑ سکے۔ اس شاندار فلیٹ کے ڈرائنگ روم میں بکرے اور بکری پال رکھی ہیں جن کے بول و براز سے پورا فلیٹ''معطر'' رہتا ہے۔
شادی دو انسانوں کے ملاپ کا نام ہے مگر ہم نے اپنی جھوٹی انا اور بے جا شان و افتخار اور جہل کے سبب اسے شادی خانہ بربادی بنا دیا ہے اور افسوس تو اس کا ہے کہ ہمارے دِینی سربراہ تک کے رویے ( استثنیٰ سے الگ) عموماً ایسے ہی ہیں البتہ کسی کی قلعی کھلتی ہے کسی کی نہیں۔ ادب میں شادی کے بارے میں بہت سے اشعار ہیں ،چند نذر قارئین ہیں۔
شاعروں کے واسطے لازم ہے شادی دوستو
بیگم اچھی مل گئی تو زندگی ہوگی کمال
اور اگر اْلٹا بھی ہوجاتا ہے تو نقصان کیا
زندگی جیسی سہی، پر شاعری ہوگی کمال
آگے سنئیے۔
ہکلا گیا جو شادی میں دولہا تو کیا ہوا
زیادہ خوشی میں سانس اٹکتی ضرور ہے
خوش ہو رہا تھا دولہا تو قاضی نے یوں کہا
''بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے''
برِصغیر ہندوپاک کے (مسلم) معاشرے میں لڑکی کی شادی پورے خاندان والوں کے لیے ایک مسئلہ سمجھی جاتی ہے،اس کے برعکس لوگ بتاتے ہیں کہ جہاں سے اسلام آیا ہے یعنی عرب میں آج بھی لڑکی والے نہیں بلکہ جس عرب زادے کا گھر بس رہا ہے یا جس لڑکے کا نکاح ہو رہا ہے وہ ضرور اپنی ہونے والی شریک ِحیات اور نئے گھر کے لیے ضروری سازوسامان مہیا کرنے میں لگ جاتا ہے۔
ہمارے دین کو چودہ سَو برس گزر گئے جس میں زندگی کے نہایت معمولی معمولی معاملات کے لیے بھی رہنمائی ہے مگر ہم ہیں کہ ایک دوسرے سے معمولی باتوں پر الجھتے اور تبصرہ بھی کرنے میں نہیں چوکتے ۔ حال ہی میں ہمارے قریبی حلقے میں ایک نئے جوڑے کی شادی ''خانہ آبادی'' کی رو داد سنی تو دل بہت دُکھا کہ ہمیں اسلام قبول کر کے تو صدیاں گزر رہی ہیں لیکن ہم اسلام کی تعلیمات پر کب عمل کرنا سیکھیں گے ۔
عام معاشرتی رواج کے مطابق نہایت شاندار طریقے سے شادی ہوئی، مہمانوں کو انواع و اقسام کے کھانے کھِلائے گئے اور جہیز کے نام پر لڑکے والوں کو بہت کچھ دیا گیا مگر ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ پتہ چلا کہ لڑکی اپنے شوہرکو پسند نہیں کرتی اور وہ اپنے مائیکے چلی گئی، جس کو اب دو برس ہونے کو ہیں، ہندوستان میں اِس وقت بعض قوانین ایسے بن گئے ہیں کہ جن میں لڑکی یا لڑکی والوں کے لیے بہت سی رعایتیں ہیں جس کا جائز یا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
مختصر یہ کہ مذکورہ جوڑے کے مالدار لڑکی والوں نے پولیس کو اپنے ساتھ لیا اور لڑکے والوں کے گھر دھاوا بول کر نہ صرف دِیا ہوا جہیز کا ایک ایک سامان اٹھایا بلکہ لڑکی کی خوابگاہ کی جو آرائش وغیرہ کی گئی تھی وہ سب کھُرپی سے کھُرچ ڈالی اور اب یہ معاملہ عدالت میں پہنچا دِیا گیا ہے۔
اسی طرح الہ آباد کا ایک واقعہ بیان کیا گیا کہ لڑکی MBBS ڈاکٹر تھی، اس کے والدین بہت کھاتے پیتے لوگ تھے نہایت شاندار، نہایت شاندار، نہایت شاندار انداز سے شادی کی گئی، ایک ہزار سے زائد مہمانوں کی ( 'نہایت شاندار' کو پھِر تین بار پڑھیے) ضیافت کی گئی، شادی گاہ میں ضیافت کے لیے مامور کارِندے اعلیٰ درجے کے خشک میوہ جات کا تھال ہر مہمان کے سامنے کر رہے تھے، بعض بھائی لوگ آنکھ بچا کر دو دو مُٹھّی بادام جیبوں میں بھر رہے تھے خیر جانے دِیجیے کہ یہ تو ''ہم'' نے بھی کیا۔
اب آئیے! اصل موضوع پر، صرف پانچ دن گزرے تھے کہ یہاں بھی لڑکی نے نوشے کے بارے میں وہی رویہ اپنایا اور نہایت حقارت سے لڑکے کو ناپسند کردیا۔ خاندان کے لوگوں نے سمجھایا بجھایا مگر لڑکی اپنے رویے میں ٹس سے مس نہ ہوئی اور یہ نیا جوڑا اب معلق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس تحریر کے بعض پڑھنے والے تبصرہ کریں کہ جب لڑکی کو لڑکا ناپسند تھا تو آخر لڑکی کے گھر والوں بالخصوص لڑکی کی ماں نے شادی کیوں ہونے دی۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ لڑکی کے گھر والوں کا... 'عقیدہ '... تھا کہ شادی کے بعد ناپسند، پسند بن جائے گی مگر ہوا اِس کے بر عکس۔ لڑکی کوئی سنہ اُنیس سَو بیس کے زمانے کی تو تھی نہیں، باقاعدہ اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھی وہ اپنا شریکِ حیات خود پسند نا پسند کرنا چاہتی اور جانتی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ یہ حق تو دین ِاسلام نے بھی اسے دے رکھا ہے مگر والدین کی انا کہ ''ہم نے تمھیں پڑھایا لکھایا تو تم اس کا ہمیں یہ پھل دو گی۔'' نتیجہ، اس کا یہ نکلا کہ تمام دُنیا کے سامنے والدین کی نہ صرف انا کا محل مسمار ہوا بلکہ پورا خاندان ذلیل و خوار بھی ہوا۔
برسوں پہلے کا پڑھا ہوا ایک واقعہ آموختہ ہوا چاہتا ہے، پڑھے لکھے اکثر مسلمان مصر کے (مقتول) صدر انور سادات اور ایران کے رضا شاہ پہلوی سے ضرور واقف ہونگے ان کے بچوں کی آپس میں شادی ہوئی اور چند ماہ ہی میں پتہ چلا کہ لڑکے لڑکی کے گھر والوں کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا، دونوں طرف کے بزرگ بیٹھے، معاملے کی نزاکت کو سمجھا گیا اور پھر رِشتے کو آن کی آن ختم کر دیا گیا، کوئی فتنہ کوئی فساد نہیں ہوا۔
تاریخ ہے کہ رضا شاہ پہلوی کو جب انقلابِ ایران کے نتیجے میں اپنا تخت وتاج چھوڑ کر ایران سے فرار ہونا پڑا تو روایت ہے کہ انہیں مصرکے صدر انور سادات ہی نے اپنے ملک میں پناہ دِی تھی۔ اب ذرا سوچیے کہ اگر یہ ہمارے ہاں ہوتا تو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کیسا رویہ اختیارکرتے ہوئے کس قدر ایک دوسرے کو ذلیل کرتے۔
آج دُنیا اپنے علم و عمل میں کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم اب تک گاؤں کے گنوار بنے ہوئے ہیں۔ پیسہ تو اس قدر آگیا ہے کہ اس بارے میں کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر ذہنیت نہیں بدلی، ہم تمام رشتے ناتے اور رواداری کو کنارے کرکے صرف اورصرف اپنی امارت کے پرستار بنے ہوئے ہیں۔ ہزار بارہ سَو اسکوائر فٹ کا فلیٹ تو خرید لیا مگر دیہاتی پن نہیں چھوڑ سکے۔ اس شاندار فلیٹ کے ڈرائنگ روم میں بکرے اور بکری پال رکھی ہیں جن کے بول و براز سے پورا فلیٹ''معطر'' رہتا ہے۔
شادی دو انسانوں کے ملاپ کا نام ہے مگر ہم نے اپنی جھوٹی انا اور بے جا شان و افتخار اور جہل کے سبب اسے شادی خانہ بربادی بنا دیا ہے اور افسوس تو اس کا ہے کہ ہمارے دِینی سربراہ تک کے رویے ( استثنیٰ سے الگ) عموماً ایسے ہی ہیں البتہ کسی کی قلعی کھلتی ہے کسی کی نہیں۔ ادب میں شادی کے بارے میں بہت سے اشعار ہیں ،چند نذر قارئین ہیں۔
شاعروں کے واسطے لازم ہے شادی دوستو
بیگم اچھی مل گئی تو زندگی ہوگی کمال
اور اگر اْلٹا بھی ہوجاتا ہے تو نقصان کیا
زندگی جیسی سہی، پر شاعری ہوگی کمال
آگے سنئیے۔
ہکلا گیا جو شادی میں دولہا تو کیا ہوا
زیادہ خوشی میں سانس اٹکتی ضرور ہے
خوش ہو رہا تھا دولہا تو قاضی نے یوں کہا
''بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے''