جسٹس حاذق الخیری کی یاد میں
جسٹس حاذق الخیری صاحب کے اگر حالات زندگی مختصر درج کیے جائیں تو اس طرح حقائق سامنے آتے ہیں
قائد اعظم رائٹرز گلڈ ایک فعال تنظیم ہے،اس کے روح رواں جلیس سلاسل ہیں، وہ کئی اہم کتابوں کے مصنف اور ممتاز صحافی ہیں، اپنی دیانت داری، شرافت و تہذیب کے حوالے سے اپنی خصوصی شناخت رکھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں انھوں نے اپنے ادارے قائد اعظم رائٹرزگلڈ کی طرف سے جسٹس (ر) حاذق الخیری کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا، اس تقریب میں کراچی کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
صدارت جسٹس (ر) ضیا پرویز کی تھی، مہمانان خصوصی کے اعتبار سے بیرسٹر شاہدہ جمیل، مہتاب اکبر راشدی، کشور زہرہ، مقررین میں محمد حلیم انصاری،شاعرہ پروفیسر شاہین حبیب اور راقم السطور کے نام قابل ذکر ہیں، نظامت کے فرائض پروفیسر شازیہ ناز عروج نے انجام دیے اورآرگنائزر سیکریٹری ارشاد راحت نے خوش اسلوبی سے اپنی ذمے داریوں کو نبھایا۔
شرکا نے جسٹس حاذق الخیری سے اپنے تعلقات اور ان کے اعلیٰ اخلاق و کردار کا تذکرہ عزت و احترام کے ساتھ کیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس ضیا پرویز نے کہا کہ جسٹس حاذق الخیری نہایت نفیس انسان تھے انھوں نے فیڈرل شریعت کورٹ میں جو فیصلے کیے وہ آج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
سابق وفاقی وزیر قانون وانصاف پروفیسر بیرسٹر شاہدہ جمیل نے امریکا سے وڈیو لنک کے ذریعہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''میرے نانا حسین شہید سہروردی کے خاندان اور علامہ راشد الخیری کے خاندان کے گہرے تعلقات تھے ،ان دونوں خاندانوں کا مسلم انڈیا کی اہمیت کو بحال کرنے میں اہم کردار تھا۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری کی بہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد نے اپنے پیارے بھائی اور نانا کی یادوں کو تازہ کیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔دوران تکلم جسٹس صاحب کی بہنیں اور دوسرے قریبی رشتے داروں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں، بے شک خون کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں جن کی گزری باتیں اور یادیں سوہان روح بن جاتی ہیں، جانے والوں کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔
مہتاب اکبر راشدی نے دوران ملازمت کے کئی واقعات جسٹس حاذق الخیری مرحوم کے حوالے سے بیان کیے، رکن قومی اسمبلی محترمہ کشور زہرہ نے بھی ان کی راست بازی، جذبہ حب الوطنی اور ملک و قوم سے ان کی محبت کا ذکر کیا۔ بیرسٹر شاہدہ جمیل اور جسٹس (ر) حاذق الخیری کی صاحبزادی حنا خیری (امریکا) نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔
صفوریٰ خیری اور زائرہ خیری نے بہترین مضامین نذر سامعین کرکے اپنے بھائی سے محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ تعزیتی ریفرنس کے بارے میں خاص، خاص امور پر روشنی ڈالنے کے بعد اب میں اپنا وہ مضمون قلم بند کروں گی جو میں نے بحیثیت مقررہ تعزیتی مجلس میں پیش کیا تھا۔
تاریخ 8 اکتوبر اور سن 2016 میرے لیے بڑا یادگار اور خوشگوار دن تھا، اس روز میری تحقیقی کتاب '' فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ'' کی تقریب پذیرائی تھی، اس کتاب کی صدارت جسٹس (ر) حاذق الخیری کر رہے تھے اور اس کا اہتمام جلیس سلاسل کے مرہون منت تھا۔
اس دن جسٹس حاذق الخیری سے میری پہلی ملاقات تھی، ان سے ملکر اس بات کا اندازہ مجھے اچھی طرح ہوگیا کہ بے شک پھل دار درخت جھک جاتے ہیں، ان کے اپنے اخلاق و عادات، علم و بصیرت نے انھیں شجر سایہ دار بنا دیا تھا، جس کی چھاؤں میں علم کے طالب اپنی پیاس بجھانے ذرا دیر ٹھہر جاتے ہیں، اس دن کے بعد میری ان سے فون پر اور علمی و ادبی مجالس میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں جو میرے لیے فخر اور خوشی کا باعث بنیں۔
29 جنوری 2011 کی اہمیت بھی مسلم تھی، اس روز قائد اعظم رائٹرز گلڈ کے عہدیداران کا حلف وفاداری کا دن تھا اور حلف قابل قدر شخصیت حاذق الخیری نے لیا تھا۔ عہدیداروں میں پروفیسر خیال آفاقی، رضوان صدیقی اور دوسرے تمام اراکین تھے جن میں احقر کا نام بھی شامل تھا، خطبہ استقبالیہ راقم نے پیش کیا تھا۔ پھر بہت سے مواقع آئے جن میں جسٹس حاذق الخیری کو عزت و احترام سے بلایا جاتا اور وہ تقریب کو رونق بخشتے۔
جسٹس حاذق الخیری صاحب کے اگر حالات زندگی مختصر درج کیے جائیں تو اس طرح حقائق سامنے آتے ہیں۔ ان کی جنم بھومی دہلی اور تاریخ پیدائش 5 نومبر 1931 ہے، ان کے دادا تاریخ ادب کے ممتاز اسکالر اور مصنف علامہ راشدی الخیری تھے، وہ اپنی موثر تحریروں کے باعث '' مصورِ غم '' کہلائے، وہ تقریباً 100 کتابوں کے مصنف تھے، دادا کے اثرات ان پر اور ان کے خاندان پر مرتب ہوئے کہ خون میں ہی علم و ادب شامل تھا۔
حاذق الخیری مرحوم نے اپنی یادوں پر مشتمل آپ بیتی لکھی جس کا عنوان تھا '' جاگتے لمحے۔'' یہ کتاب ان کے مشاہدوں اور تجربات اور سیاسی و معاشرتی حقائق پر مبنی ہے، دوسری کتاب ''وہ آدمی'' ڈراموں پر مشتمل ہے چند ڈرامے پی ٹی وی پر نشر ہو چکے ہیں، '' گزرتی شب'' افسانوں کا مجموعہ ہے ، ان کے تخلیق کیے ہوئے تمام افسانے ماضی کے تلخ و سنگین واقعات، سماجی ناانصافی اور رشتوں ناتوں کی مہک سے رچے بسے ہیں۔ دو کتابیں انھوں نے مجھے بھی مرحمت فرمائیں۔ ''وہ آدمی'' اس کتاب کے تمام ڈرامے دلچسپ اور تحیر آمیز ہیں۔
جسٹس حاذق الخیری نے اپنی تمام عمر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے بسر کی۔ وہ سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان، سابق محتسب اعلیٰ سندھ اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن تھے۔
جس وقت پاکستان وجود میں آیا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر (سری نگر) میں تبدیلی آب و ہوا کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ان کا خاندان ہر سال موسم گرما میں کسی پرفضا مقام کی سیر کے لیے جایا کرتا تھا۔ انھوں نے تقسیم ہند کا اعلان سری نگر میں ہی سنا، ان کے والد علامہ رازق الخیری نے حالات کے پیش نظر پاکستان جانے کا فیصلہ کرلیا، لیکن مشرقی پاکستان سے آگے جانا ناممکن ہوگیا، بلوائیوں نے قتل و غارت شروع کردیا تھا اور وہ ریل گاڑیاں جو پاکستان جانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں، انھیں نفرت اور تعصب کی بنا پر قتل کر دیا گیا۔
مسافروں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا، ان خونی واقعات کے بعد جسٹس حاذق الخیری کا گھرانہ مونا باؤ کے راستے پاکستان پہنچا۔ انھوں نے پاکستان آکر بہت سی مشکلات اٹھائیں لیکن صبرکا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا بلکہ اپنے ہم وطنوں کے لیے مددگار و معاون ثابت ہوئے۔ انھوں نے تعلیم جیکب لائن کراچی اور پھر ایس ایم لا کالج سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ کراچی سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی۔
یہ بات بھی حیران کن اور خوش کن ہے کہ جسٹس حاذق الخیری نے قائد اعظم کی محبت میں قانون کی ڈگری حاصل کی اور اسی کو پیشہ بنایا۔ 1958 میں انھوں نے باقاعدہ وکالت شروع کردی، 1981 میں وہ ایس ایم لا کالج کے پرنسپل بنا دیے گئے، 1988 سے 1993 تک ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز رہے، انھوں نے اپنی تمام پیشہ ورانہ ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھائیں کہ ان کے کردار میں چار چاند لگ گئے۔
ان کے بعد ان کے نواسے بیرسٹر اسد رضوان، نواسیاں زارہ یوسف اور فاطمہ نقوی نے بڑے عزم کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے نانا کے نام کو زندہ رکھیں گے، اپنے علم وعمل کے حوالے سے۔
گزشتہ دنوں انھوں نے اپنے ادارے قائد اعظم رائٹرزگلڈ کی طرف سے جسٹس (ر) حاذق الخیری کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا، اس تقریب میں کراچی کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
صدارت جسٹس (ر) ضیا پرویز کی تھی، مہمانان خصوصی کے اعتبار سے بیرسٹر شاہدہ جمیل، مہتاب اکبر راشدی، کشور زہرہ، مقررین میں محمد حلیم انصاری،شاعرہ پروفیسر شاہین حبیب اور راقم السطور کے نام قابل ذکر ہیں، نظامت کے فرائض پروفیسر شازیہ ناز عروج نے انجام دیے اورآرگنائزر سیکریٹری ارشاد راحت نے خوش اسلوبی سے اپنی ذمے داریوں کو نبھایا۔
شرکا نے جسٹس حاذق الخیری سے اپنے تعلقات اور ان کے اعلیٰ اخلاق و کردار کا تذکرہ عزت و احترام کے ساتھ کیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس ضیا پرویز نے کہا کہ جسٹس حاذق الخیری نہایت نفیس انسان تھے انھوں نے فیڈرل شریعت کورٹ میں جو فیصلے کیے وہ آج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
سابق وفاقی وزیر قانون وانصاف پروفیسر بیرسٹر شاہدہ جمیل نے امریکا سے وڈیو لنک کے ذریعہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''میرے نانا حسین شہید سہروردی کے خاندان اور علامہ راشد الخیری کے خاندان کے گہرے تعلقات تھے ،ان دونوں خاندانوں کا مسلم انڈیا کی اہمیت کو بحال کرنے میں اہم کردار تھا۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری کی بہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد نے اپنے پیارے بھائی اور نانا کی یادوں کو تازہ کیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔دوران تکلم جسٹس صاحب کی بہنیں اور دوسرے قریبی رشتے داروں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں، بے شک خون کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں جن کی گزری باتیں اور یادیں سوہان روح بن جاتی ہیں، جانے والوں کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔
مہتاب اکبر راشدی نے دوران ملازمت کے کئی واقعات جسٹس حاذق الخیری مرحوم کے حوالے سے بیان کیے، رکن قومی اسمبلی محترمہ کشور زہرہ نے بھی ان کی راست بازی، جذبہ حب الوطنی اور ملک و قوم سے ان کی محبت کا ذکر کیا۔ بیرسٹر شاہدہ جمیل اور جسٹس (ر) حاذق الخیری کی صاحبزادی حنا خیری (امریکا) نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔
صفوریٰ خیری اور زائرہ خیری نے بہترین مضامین نذر سامعین کرکے اپنے بھائی سے محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ تعزیتی ریفرنس کے بارے میں خاص، خاص امور پر روشنی ڈالنے کے بعد اب میں اپنا وہ مضمون قلم بند کروں گی جو میں نے بحیثیت مقررہ تعزیتی مجلس میں پیش کیا تھا۔
تاریخ 8 اکتوبر اور سن 2016 میرے لیے بڑا یادگار اور خوشگوار دن تھا، اس روز میری تحقیقی کتاب '' فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ'' کی تقریب پذیرائی تھی، اس کتاب کی صدارت جسٹس (ر) حاذق الخیری کر رہے تھے اور اس کا اہتمام جلیس سلاسل کے مرہون منت تھا۔
اس دن جسٹس حاذق الخیری سے میری پہلی ملاقات تھی، ان سے ملکر اس بات کا اندازہ مجھے اچھی طرح ہوگیا کہ بے شک پھل دار درخت جھک جاتے ہیں، ان کے اپنے اخلاق و عادات، علم و بصیرت نے انھیں شجر سایہ دار بنا دیا تھا، جس کی چھاؤں میں علم کے طالب اپنی پیاس بجھانے ذرا دیر ٹھہر جاتے ہیں، اس دن کے بعد میری ان سے فون پر اور علمی و ادبی مجالس میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں جو میرے لیے فخر اور خوشی کا باعث بنیں۔
29 جنوری 2011 کی اہمیت بھی مسلم تھی، اس روز قائد اعظم رائٹرز گلڈ کے عہدیداران کا حلف وفاداری کا دن تھا اور حلف قابل قدر شخصیت حاذق الخیری نے لیا تھا۔ عہدیداروں میں پروفیسر خیال آفاقی، رضوان صدیقی اور دوسرے تمام اراکین تھے جن میں احقر کا نام بھی شامل تھا، خطبہ استقبالیہ راقم نے پیش کیا تھا۔ پھر بہت سے مواقع آئے جن میں جسٹس حاذق الخیری کو عزت و احترام سے بلایا جاتا اور وہ تقریب کو رونق بخشتے۔
جسٹس حاذق الخیری صاحب کے اگر حالات زندگی مختصر درج کیے جائیں تو اس طرح حقائق سامنے آتے ہیں۔ ان کی جنم بھومی دہلی اور تاریخ پیدائش 5 نومبر 1931 ہے، ان کے دادا تاریخ ادب کے ممتاز اسکالر اور مصنف علامہ راشدی الخیری تھے، وہ اپنی موثر تحریروں کے باعث '' مصورِ غم '' کہلائے، وہ تقریباً 100 کتابوں کے مصنف تھے، دادا کے اثرات ان پر اور ان کے خاندان پر مرتب ہوئے کہ خون میں ہی علم و ادب شامل تھا۔
حاذق الخیری مرحوم نے اپنی یادوں پر مشتمل آپ بیتی لکھی جس کا عنوان تھا '' جاگتے لمحے۔'' یہ کتاب ان کے مشاہدوں اور تجربات اور سیاسی و معاشرتی حقائق پر مبنی ہے، دوسری کتاب ''وہ آدمی'' ڈراموں پر مشتمل ہے چند ڈرامے پی ٹی وی پر نشر ہو چکے ہیں، '' گزرتی شب'' افسانوں کا مجموعہ ہے ، ان کے تخلیق کیے ہوئے تمام افسانے ماضی کے تلخ و سنگین واقعات، سماجی ناانصافی اور رشتوں ناتوں کی مہک سے رچے بسے ہیں۔ دو کتابیں انھوں نے مجھے بھی مرحمت فرمائیں۔ ''وہ آدمی'' اس کتاب کے تمام ڈرامے دلچسپ اور تحیر آمیز ہیں۔
جسٹس حاذق الخیری نے اپنی تمام عمر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے بسر کی۔ وہ سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان، سابق محتسب اعلیٰ سندھ اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن تھے۔
جس وقت پاکستان وجود میں آیا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر (سری نگر) میں تبدیلی آب و ہوا کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ان کا خاندان ہر سال موسم گرما میں کسی پرفضا مقام کی سیر کے لیے جایا کرتا تھا۔ انھوں نے تقسیم ہند کا اعلان سری نگر میں ہی سنا، ان کے والد علامہ رازق الخیری نے حالات کے پیش نظر پاکستان جانے کا فیصلہ کرلیا، لیکن مشرقی پاکستان سے آگے جانا ناممکن ہوگیا، بلوائیوں نے قتل و غارت شروع کردیا تھا اور وہ ریل گاڑیاں جو پاکستان جانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں، انھیں نفرت اور تعصب کی بنا پر قتل کر دیا گیا۔
مسافروں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا، ان خونی واقعات کے بعد جسٹس حاذق الخیری کا گھرانہ مونا باؤ کے راستے پاکستان پہنچا۔ انھوں نے پاکستان آکر بہت سی مشکلات اٹھائیں لیکن صبرکا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا بلکہ اپنے ہم وطنوں کے لیے مددگار و معاون ثابت ہوئے۔ انھوں نے تعلیم جیکب لائن کراچی اور پھر ایس ایم لا کالج سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ کراچی سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی۔
یہ بات بھی حیران کن اور خوش کن ہے کہ جسٹس حاذق الخیری نے قائد اعظم کی محبت میں قانون کی ڈگری حاصل کی اور اسی کو پیشہ بنایا۔ 1958 میں انھوں نے باقاعدہ وکالت شروع کردی، 1981 میں وہ ایس ایم لا کالج کے پرنسپل بنا دیے گئے، 1988 سے 1993 تک ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز رہے، انھوں نے اپنی تمام پیشہ ورانہ ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھائیں کہ ان کے کردار میں چار چاند لگ گئے۔
ان کے بعد ان کے نواسے بیرسٹر اسد رضوان، نواسیاں زارہ یوسف اور فاطمہ نقوی نے بڑے عزم کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے نانا کے نام کو زندہ رکھیں گے، اپنے علم وعمل کے حوالے سے۔