نئے بجٹ میں ویلتھ ٹیکس لگانے کی تجویز
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام افورڈ ایبل نہیں ہے
تجزیہ کار شہباز رانا نے کہاہے کہ بجٹ سے متعلق چیزیں اب فائنل تیاری کی طرف چلی گئی ہیں،سب سے بڑی چیز جوسامنے آئی ہے وہ ویلتھ ٹیکس ہے یہ پہلے بھی تھا جسے پرویزمشرف کے دورمیں ختم کردیا تھا۔
حکومت یہ ٹیکس انکم سپورٹ لیوی کے طورپرلگانا چاہتی ہے، یہ پہلے 2013میں بھی اسحاق ڈار نے لگائی تھی لیکن کورٹس نے ا س لیوی کو ا پ ہولڈ نہیں کیا تھا اور یہ سٹرائیک ڈائون ہوگئی تھی، پرپوزل یہ ہے اس وقت کہ جتنے بھی اثاثے ہیں کسی کے چاہے وہ زرعی زمین ہے یا دیگر جائیدادیں اس پر0.25سے 2فیصد تک ٹیکس لگانے کی تجویزہے۔
یہ تمام اثاثوں پرنہیں بلکہ اس میں ایک حد مقررکی جائے گی جس سے زائد اثاثوں پریہ ٹیکس لگے گا،یہ وہ ریونیو ہوگا جسے صوبوں کے ساتھ شیئرنہیں کیاجائے گا۔
ایکسپریس نیوزکے پروگرام دی ریویومیں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ فروری میں 113فیصد اضافہ کیا گیاتھا گیس کی قیمتوں میں اب گزشتہ روز اوگرا کی طرف سے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن میں 50فیصد اضافہ منظور کیاگیاہے جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی کیلئے گیس کی قیمتوں میں 45فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔
اس کے بعد معاملہ ای سی سی اوروفاقی کابینہ میں جائے گا، اگرحکومت نے 40دن کے اندر فیصلہ نہ کیاتویہ اضافہ خودبخود لاگوہوجائے گا۔
انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ان افورڈ ایبل ہوگیاہے۔ تجزیہ کارکامران یوسف نے کہاکہ اگرویلتھ ٹیکس جو منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد پرلگتاہے تواس کامطلب ہے یہ ایک سالانہ ٹیکس ہوگااس پرآپ کو کچھ پرسنٹیج دینی پڑے گی خواہ آپ کی تنخواہ جو بھی ہو۔
انھوں نے کہاکہ ہمیں اپنی پوری ٹیکس کی مشینری کو اوورہال کرنے کی ضرورت ہے ،وہ ایریاز جہاں پرہم ٹیکس نہیں لیتے اگر ان ایریاز کو ٹارگٹ کرلیاجائے توایک ہزارارب سے زیادہ پوٹینشل ہے ،فروری میں بھی گیس کی قیمتوں میں ہوش ربااضا ہوا تھااوراب پھر اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔
کامران یوسف نے کہاکہ ایک طرف پاکستان کی معیشت کے برے حالات ہیں تودوسری طرف لگتاہے حکومت نے الیکشن سے پہلے قومی خزانے کے منہ کھول دیئے ہیں، حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا فیصلہ کیاہے جوموجود ہ معاشی حالات میں ہم افورڈ نہیں کرسکتے۔
حکومت یہ ٹیکس انکم سپورٹ لیوی کے طورپرلگانا چاہتی ہے، یہ پہلے 2013میں بھی اسحاق ڈار نے لگائی تھی لیکن کورٹس نے ا س لیوی کو ا پ ہولڈ نہیں کیا تھا اور یہ سٹرائیک ڈائون ہوگئی تھی، پرپوزل یہ ہے اس وقت کہ جتنے بھی اثاثے ہیں کسی کے چاہے وہ زرعی زمین ہے یا دیگر جائیدادیں اس پر0.25سے 2فیصد تک ٹیکس لگانے کی تجویزہے۔
یہ تمام اثاثوں پرنہیں بلکہ اس میں ایک حد مقررکی جائے گی جس سے زائد اثاثوں پریہ ٹیکس لگے گا،یہ وہ ریونیو ہوگا جسے صوبوں کے ساتھ شیئرنہیں کیاجائے گا۔
ایکسپریس نیوزکے پروگرام دی ریویومیں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ فروری میں 113فیصد اضافہ کیا گیاتھا گیس کی قیمتوں میں اب گزشتہ روز اوگرا کی طرف سے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن میں 50فیصد اضافہ منظور کیاگیاہے جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی کیلئے گیس کی قیمتوں میں 45فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔
اس کے بعد معاملہ ای سی سی اوروفاقی کابینہ میں جائے گا، اگرحکومت نے 40دن کے اندر فیصلہ نہ کیاتویہ اضافہ خودبخود لاگوہوجائے گا۔
انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ان افورڈ ایبل ہوگیاہے۔ تجزیہ کارکامران یوسف نے کہاکہ اگرویلتھ ٹیکس جو منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد پرلگتاہے تواس کامطلب ہے یہ ایک سالانہ ٹیکس ہوگااس پرآپ کو کچھ پرسنٹیج دینی پڑے گی خواہ آپ کی تنخواہ جو بھی ہو۔
انھوں نے کہاکہ ہمیں اپنی پوری ٹیکس کی مشینری کو اوورہال کرنے کی ضرورت ہے ،وہ ایریاز جہاں پرہم ٹیکس نہیں لیتے اگر ان ایریاز کو ٹارگٹ کرلیاجائے توایک ہزارارب سے زیادہ پوٹینشل ہے ،فروری میں بھی گیس کی قیمتوں میں ہوش ربااضا ہوا تھااوراب پھر اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔
کامران یوسف نے کہاکہ ایک طرف پاکستان کی معیشت کے برے حالات ہیں تودوسری طرف لگتاہے حکومت نے الیکشن سے پہلے قومی خزانے کے منہ کھول دیئے ہیں، حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا فیصلہ کیاہے جوموجود ہ معاشی حالات میں ہم افورڈ نہیں کرسکتے۔