زباں فہمی نمبر187 اردو اور بلوچی کا باہمی تعلق حصہ اوّل

بلوچی کا اردو سے تعلق، فارسی سے بکثرت استفادے کی وجہ سے بھی اہم ہے

زباں فہمی نمبر 187؛ اردو اور بلوچی کا باہمی تعلق (حصہ اوّل) فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

اردو کی ہم رشتہ زبانوں میں ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے۔ بلوچی کا اردو سے تعلق، فارسی سے بکثرت استفادے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور کسی بھی اردو داں یا اردو گو شخص کے لیے بلوچی سیکھنا چنداں مشکل نہیں، حتیٰ کہ خالص ہندوستانی آوازوں کے استعمال کی گنجائش کے ساتھ، یہ زبان کہیں سے نامانوس نہیں لگتی۔اسے ایک شیریں یعنی میٹھی زبان کہاجاسکتا ہے۔

یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مضمون درحقیقت "اردو،بلوچی، بلوچستان اور کراچی" کے وسیع تناظر میں لکھا جارہا ہے اور ایسا ہر زبان کے ضمن میں ہونا لازم نہیں۔یہاں ڈاکٹر انعام الحق کوثر مرحوم کی تحقیق سے خوشہ چینی بھی کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے'بلوچستان میں اردو' کے پیش لفظ میں ارشاد فرمایا کہ "اردو کی ماہیت اور صلاحیت ِ اظہار،قابل ِ داد ہے کہ یہ برصغیر کے ہر اُس خطے کو رَاس آگئی جو براہ ِ راست حاملین ِ اسلام سے فیض یاب ہوا تھا،لہٰذا بلوچستان جو برصغیر میں سب سے پہلے آفتاب ِ اسلام کی ضیا باریوں سے منور ہوا، اردو زبان کیونکر بے بہرہ ہوسکتا تھا؟"



محقق موصوف کی تحریر پر صاد کرتے ہوئے، ایک ضروری تصحیح بھی کرتاہوں: مشہور تصورات کے برعکس، برعظیم (برصغیر کہنا رَوا ہے، مگر تکنیکی لحاظ سے بہتریہی)پاک وہند میں اسلام کی اشاعت کی ابتداء تو نبی کریم (کروڑوں درودوسلام) کے حین حیات ہی ہوچکی تھی اور اس سلسلے میں اولیت کا شرف،جنوبی ہند کے علاقے کیرلا (کیرالاغلط مشہور۔Kerala)کوحاصل ہوا تھا جہاں کے راجا چیرامَن پِیرومَل[Cheraman Perumal] نے مکہ معظمہ میں حاضرہوکر،اسلام قبول کیا اور شرف ِ صحابیت سے سرفراز ہوئے۔روایت کے مطابق اُن کی وفات وطن واپس جاتے ہوئے راستے میں ہوئی اور اُن کی وصیت کے مطابق،اُن کے ساتھی حضرت مالک بن دِینار نے اُن کے علاقے Kodungallur(کودُونگالُور) میں،سرکارکی اجازت سے"چیرامِن جمعہ مسجد" قائم کی۔یہ واقعہ حضور اکرم کے وصال سے تقریباً دو برس پہلے پیش آیا یعنی سن 9ہجری(629 CE)میں۔خطہ ہند کی قدیم ترین مسجد متعدد بار کی تعمیر نو اور توسیع کے بعد، آج تک موجودہے۔



اس تفصیل سے قطع نظر، بلوچستان میں خلافت ِ فاروقی میں اسلام پہنچا، جبکہ ماقبل، تھانہ (اب تھانے:Thane،نز د بمبئی)،دیبل اور کچھ دیگر علاقے، (تاریخی فتح سندھ سے کوئی چھہتر سال قبل) 636 ء میں فتح ہوچکے تھے۔بہرحال زمانہ ماقبل ظہورِ اسلام، عربوں کی صدیوں سے اس خطے میں آمدورفت،عربی کی قدیم ترین اور ابتدائی شکل کی یہاں پرداخت اور پھر ظہورِاسلام کے فوری بعد یہاں عرب مسلمانوں کے آنے سے اردو زبان کی باقاعدہ تشکیل کی راہ بھی ہموار ہوئی جو صدیوں پہلے مقامی طور پر کسی پنیری کی طرح جنم لے چکی تھی۔

جب ہم بلوچی کی بطورزبان نشو نَما کا باب دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی پرداخت کے ساتھ ہی، اردو کے شانہ بشانہ بھی چلتی اور پلتی رہی۔یہ اہم نکتہ بہرحال لائق ذکرو ستائش ہے کیونکہ بلوچستان کو آج سے نہیں، صدیوں سے،ہرلحاظ سے پسماندہ رکھا گیا ہے۔بلوچی بھی اردو کی طرح آریازبانوں کے لسانی گروہ میں شامل ہے اور ایک بلوچ محقق ڈاکٹرشاہ محمدمری کے خیال میں اگر محض چھے سو سال کی منضبط تاریخ سے ماوَراء تحقیق کی جائے تو سلسلہ مہر گڑھ کے آثارِ قدیمہ تک جاپہنچتاہے، جہاں کی قدیم تحریر اَبھی تک پوری طرح پڑھی نہیں جاسکی،ورنہ ممکن ہے کہ اس زبان اور اس قوم کی اصل اور قدامت کے متعلق رائج تصورات تبدیل ہوجائیں۔



موصوف کا خیال ہے کہ فرینچ ماہرین آثارِ قدیمہ کی دریافت کی رُوسے بلو چ قوم کا اسی خطے اور اسی خاص علاقے میں قیام کوئی گیارہ ہزار برس سے ثابت ہے، کوئی کہیں سے آیا نہ گیا۔فاضل مصنف نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ مہر گڑھ کی تہذیب 'مادرسری' [Matriarchy]تھی(یعنی وہاں مائیں ہی سربراہ ہواکرتی تھیں) اور شہرِ سوختہ (جلاہوا شہر: ایران)، مندیگک(قندھار، افغانستان)،میسوپوٹیمیا(قدیم عراق) اور موئن جو دَڑو (سندھ) اُسی کے بیٹے اور پوتے ہیں۔یہاں راقم زباں فہمی ہی میں کہی ہوئی اپنی ایک بات دُہراتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اگر آپ ابوجلال ندوی کی تحقیق کو مِن وَعَن قبول کرلیں تو معلوم ہوگا کہ اس پورے خطے کی قدیم ترین زبان، عربی(کی ابتدائی شکل) تھی جو (کسی بھی قسم کے حروف تہجی کی ایجاد سے قبل)،اشکال میں رقم کی جاتی تھی۔یہی صورت تھی موئن جودَڑٰو، ہڑپہ اور بعض دیگرمقامات ِ پاک وہند کی۔جب یہ بات مان لیں تو پھر تحقیق کا سفر اس نہج پر آگے بڑھائیں کہ بلوچی اور براہوئی میں کون کون سے ایسے قدیم الفاظ موجود ہیں جن کا مادّہ یا ماخذ،قدیم عربی ہے۔

بلوچی زبان، آریا زبانوں کی شاخ 'ہند آریائی' کی ذیلی شاخ'ہنداِیرانی' میں شامل ہے۔ایرانی شاخ کے تین اَدوار میں ایک ہزارسال قبل از مسیح کی میدک[Medic]، اَوِستا، پہلوی اور قدیم فارسی شامل ہیں۔دوسرے دور (331ق م) میں وسطی ایرانی زبانیں بشمول پہلوی، سُغدی اور بلخی، جبکہ تیسرے دورمیں جدید فارسی، پشتو، کُردی اور بلوچی کا ظہور ہوا۔یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قدیم ایران کے تابع، بلوچستان میں بھی آتش پرستی عام تھی اور اس سے متعلق الفاظ، محاورات، ضرب الامثال اور غیر شرعی رسوم آج تک کسی نہ کسی شکل میں بلوچ معاشرے میں زندہ ہیں۔



بلوچی ادب میں لوک ادب خصوصاً رومان کا بہت بڑا حصہ شامل ہے جسے کسی حد تک مدوّن اور اُردومیں ترجمہ بھی کیا جاچکا ہے، تمام کا منتقل ہونا ابھی باقی ہے۔اس ضمن میں رومانی داستانوں کے کردار، ہانی و شہ مرید، گوہر وگوہرام،شہزاذ وماہناز،بیورغ وگراں ناز، للّہ وگرناز،کےّا وصذو،حمل ماہ گنج، دوستین وشیرین،سیمک ونتھا، مست و سمو،پیرک وگراناز کی حکایتیں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔معروف بلوچ محقق محترم پناہ بلوچ کی تحقیق کے مطابق، شیر یں فرہاد کے وطن کے متعلق ایک دعویٰ (اور وہ بھی بہت وثوق سے)بلوچستان کے باشندوں کا بھی ہے۔یہ تفصیل بھی بشرط ِ گنجائش آگے چل کر مختصراً پیش کرسکتا ہوں۔

آن لائن مواد میں شامل ومنقول، یہ 'انکشاف' ناقابل یقین ہے کہ چونکہ انگریزکے عہد اقتدارمیں خطہ بلوچستان میں فارسی اور اردو کا چلن عام تھا، مگر بلوچی کی تحریری صورت بہت تاخیر سے، یعنی 1940ء کے بعد نظر آئی،لہٰذا اس زبان میں کتاب لکھنے کا رواج بھی بہت دیرسے ہوا;ماقبل یہ زبان بول چال تک محدودتھی اور عوام الناس کو اپنی دفتری وسرکاری ضروریات کے لیے فارسی واردو کا سہارا لینا پڑتا تھا۔




آغاگُل صاحب بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔خاکسار کے ادبی حلقے میں شامل،بلوچی زبان کی ممتاز محقق اور اردو شاعرہ آنسہ زاہدہ رئیس راجیؔ صاحبہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچی تحریر اٹھارویں صدی کے آغاز میں بھی موجود تھی۔اُن کے انکشاف کے مطابق 1763ء میں، ہاتھ سے لکھی ہوئی، بلوچی کتاب "لفظ بلوچی" اس بات کا ثبوت ہے جس میں بلوچی زبان فارسی میں سکھائی گئی ہے۔اس کتاب کا مصنف،اُتمان کلمتی رِند نامی شخص تھا۔یہ کتاب برطانیہ کے ایک عجائب گھر کی زینت ہے۔آکسفرڈیونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی بیگم نے وہاں عجائب گھر میں 1861ء میں یہ مخطوطہ جمع کروایاتھا۔

کتاب"لفظ بلوچی" کا عکس،میرعاقل خان مینگل نے اپنی تحقیق کے سلسلے میں، لندن سے حاصل کیا۔ایسی ہی ایک اور کتاب کمالان گِچکی کی لکھی ہوئی ہے جو1885ء میں وہاں جمع کروائی گئی تھی۔یہ کتابیں بلوچی اکیڈمی، کوئٹہ کے زیراہتمام شایع ہوچکی ہیں۔موصوف نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اٹھارویں صدی کے ابتدائی دورکے ایسے کئی بلوچی مخطوطات وہاں عجائب گھر کی زینت ہیں۔زاہدہ صاحبہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی باتیں اُن مستشرقین نے پھیلائی ہیں جو اُنیسویں صدی میں اپنے مخصوص ومذموم مقاصد کے لیے بلوچی اور بلوچستان کے جملہ امورمیں دخیل ہوئے جن میں عیسائیت کی تبلیغ بھی شامل ہے۔



اس مذموم فضاء میں جب علمائے کرام نے اپنی شرعی وسماجی ذمے داری محسوس کی تواس موقع پرایک سرہندی عالم نے شال کوٹ (کوئٹہ) پہنچ کر اس بابت علما ء کو متوجہ کیا اور کہا کہ عیسائیت کاپرچار کرنے والوں نے نرم زبان اختیار کی ہے اور ہرمسئلے پر کتابیں شایع کرکے پھیلارہے ہیں تو کیوں نہ ہم اپنی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کریں،نیز اسلامی تعلیمات کی کتابی شکل میں اشاعت کا اہتمام کریں تاکہ عام مسلمان ان کے جھانسے میں نہ آئیں۔ایسے میں مولانا فاضل دُرخانی رئیسانی نے عیسائی مبلغین کے خلاف عملی مزاحمت کا آغاز کرتے ہوئے،"مکتبہ دُرخانی" نامی مطبع [Printing Press]قائم کیا اور اس تحریک میں بلوچستان کے علماء، مفتیان وطلبہ کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا، سیکڑوں کتب شایع کی گئیں، جن میں زیادہ حصہ بلوچی اور براہوئی کا تھا۔پشتو کی کتب بھی کوئی پچاس کے لگ بھگ ہوں گی۔

یہاں ایک تاریخی انکشاف یہ بھی ہے کہ اس دورِ اِبتلاء میں جب صدفی صد بلوچ مسلمان تھے،اُن کا رسم الخط یہی عربی۔فارسی (نستعلیق) تھا، (رسم الخط کے فروغ میں بھی مولانا فاضل جیسے علماء کا کردار نمایاں رہا)مگرجب 1828ء سے مابعداَدوارتک، عیسائی مبلغین کے پرچار کے سبب، ارتداد پھیلا اور لوگوں نے اسلام ترک کیاتو اُنھی کے پرچارکے زیرِ اثر بہت سے لوگ رومن رسم الخط میں لکھنا بہتر سمجھنے لگے اور آج بھی ایسے لوگ،(بقول ہماری فاضل محقق دوست)،"عیسائیوں کے چہیتے" مل جاتے ہیں جو رومن رسم الخط ہی بہتر سمجھتے ہیں،انھوں نے بلوچی کی مخصو ص اَصوات کو " ہَوّا" بناکر اس بارے میں گمرہی پھیلائی۔(ابتدائی تحریری دورمیں جب رسم الخط کی مشکلات درپیش تھیں تو بلوچ کئی الفاظ اپنے اندازے سے لکھ دیا کرتے تھے۔



سید ظہورشاہ ہاشمی سے قبل یہ سلسلہ تھا کہ لوگ بلوچی لکھتے ہوئے عربی،فارسی،اردو اور پشتو کی تقلید کیا کرتے تھے، مگر پھر باقاعدہ معیاری رسم الخط کی تحریک کامیاب ہوئی، اور اَب ایسا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا)۔ اردو ہی کی طرح یہ بات بلوچی کے حق میں بھی زہر ِ قاتل ہے۔ہم اردو اور بلوچی میں خواب لکھتے، خاب پڑھتے، خواہش لکھتے، خاہش پڑھتے، خواجہ لکھتے، خاجہ پڑھتے، عنبر لکھتے، عمبر پڑھتے ہیں (علیٰ ہٰذاالقیاس)تو پھر ایک نامانوس وغیرملکی رسم الخط میں کیسے سب کچھ ٹھیک ٹھاک، حسب ِمنشاء ہوجائے گا؟.....بلوچوں کی اکثریت پاکستان، ایران اور کچھ افغانستان (نیز خلیجی ممالک سمیت دنیا بھر)میں مقیم ہے۔افغانستان میں بلوچوں کی جداگانہ علاقائی شناخت مِٹ چُکی ہے یعنی وہاں کوئی بلوچستان نہیں، البتہ اُن کے شہروں کے ناموں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ بلوچوں کا مسکن ہیں۔اسی طرح اُن کا رسم الخط بھی پشتو سے کچھ کچھ متأثر ہوگیا ہے۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اُردو رَسم الخط بدلنے کی تحریک کے پیچھے بھی ایسے ہی عناصر کا ہاتھ ہونا عین ممکن ہے۔یار لوگ یہ بات سمجھے بغیر، تقلید کرنا چاہتے ہیں۔

جب ہم بلوچستان میں بلوچی اور اردو کے شانہ بشانہ سفرکی بات کرتے ہوئے اہل زبان بلوچ اہل قلم کی تحریریں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی اہل قلم خصوصاً شعراء بشمول صوفیہ کرام کے یہاں تو زبان خالص رہی، مگر دوسرے دورسے زبان وبیان پر عربی وفارسی غالب آنے لگی،اس وجہ سے بھی کہ ان میں عربی وفارسی میں فاضل کی سند حاصل کرنے والے علماء شامل تھے۔1951ء میں ماہنامہ 'عُمان' [Oman]کے اجراء کے وقت، بلوچ اہل قلم اپنے اپنے علاقے کی نسبت سے، عربی وفارسی واردو سے متأثر نظرآتے تھے۔

فارسی کا ا ثر ایران اور ہندوستان دونوں کے طفیل آیا۔تیسرے دورمیں تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ تقریباً سبھی، فارسی اور اُردو کے زیرِاثر نظرآنے لگے، حتیٰ کہ اُن کے یہاں تحریرمیں قواعد تک مغلوب ِ اردو ہوگئے۔میر گل خان نصیر ؔ کی ابتدائی غزلیں،بقول کسے غالبؔ کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں، مگر مابعداُن کا اپنا اسلوب نمایاں ہوگیااور پھر وہ فیض احمد فیض ؔ کے دوست ہوئے تو دونوں شاعروں نے ایک دوسرے کا اثر قبول کیا، حتیٰ انھوں نے فیض ؔ کا کلام بلوچی میں منتقل کیا۔تفصیل میں جائیں تو ایک طویل فہرست ایسے بلوچ اہل قلم خصوصاً شعراء کے اسماء ملتے ہیں عطا شادؔ سے لے کر جناب سلیمان رئیسؔ (والدِ زاہدہ رئیس)تک، جنھوں نے اپنی ادبی تحریرکا آغاز ہی اردو سے کیا۔سلیمان رئیس صاحب نے اردو کالج میں اپنے محترم استاد،ممتاز اردو شاعر ساقی ؔ جاوید مرحوم کے زیرِ اثر، اردو میں طبع آزمائی شروع کی جن کا مشہور ِ زمانہ قومی نغمہ ہے: چاند میری زمیں، پھول میرا وطن۔

ایک بلوچ محقق،داؤ د کیف صاحب کا کہنا ہے کہ "اردو میں علاقائی زبان و ادب کو سمونے کی جو تھوڑی بہت کوششیں ہوئی ہیں وہ بھی زیادہ تر پشتو، پنجابی اور سندھی میں ہوئیں، بلوچی پر زیادہ توجہ، بلوچستان کی نسبتاً کم آبادی اور وہ بھی تعلیمی اور ادبی پسماندگی کا شکار ہونے جیسے قدرتی حقائق کے سبب نہ دی جا سکی۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ٹھوس ہے کہ بلوچی ایک مکمل، قدیم اور میٹھی زبان ہے۔ اگر چہ ناگزیر حقائق کے سبب تحریری ادبی سرمایہ زیادہ نہیں لیکن بذات خود بلوچی اتنی وسیع زبان ہے کہ ہر انسانی کیفیت، ہر چیز کی شکل اور اس کی مختلف ارتقائی حالتوں کے بارے میں بھی الگ الگ الفاظ موجود ہیں۔ مثلاً کھجور کی قسموں اور غذاؤں کے نام چھوڑ کر بھی اس کے پکنے، کچا ہونے اس کی رنگت وغیرہ اور دوسری حالتوں کے بارے میں چالیس الگ اور مخصوص مفہوم کے الفاظ موجود ہیں۔ اسی طرح گائے، بھینس، گھوڑے، بکری وغیرہ بلکہ ہر جانور کے بچے کی عمر کے مختلف مرحلوں پر مختلف نام ہیں اور ہر نام ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ جانور کس عمر، کس نسل اور کس حالت کا ہے۔

غرضیکہ بلوچی بڑی فصیح و بلیغ زبان ہے، اگر اس کے الفاظ بھی اردو جیسی کشادہ دل زبان میں روشناس کرائے جائیں تو وہ انہیں بھی اپنائیت سے سینے لگائے گی"۔ ("اُردو اور بلوچی کا سنگم")۔اس اقتباس پر کوئی تبصرہ بھی اضافی محسوس ہوتا ہے، مگر فقط ایک قدرے غیرمتعلقہ بات یہ ہے کہ بلوچستان میں کم وبیش ڈیڑھ سو اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں، جبکہ کراچی میں پورے ملک اور دیگر ممالک سے (بظاہر) درآمدہ، فقط پانچ سات قسمیں ہی دستیاب ہوتی ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں ہمارے ہی قدرتی وسائل اور نعمتوں سے محروم کرنے اور مسلسل محروم رکھنے کے لیے کس حد تک شعوری کدوکاوش کی جاتی ہے۔

غور طلب نکتہ یہ بھی ہے کہ برطانوی سامراج کی بلوچستان پر خصوصی نظر ِ کرم کی کیا وجہ تھی۔بقول آغاگُل صاحب،برطانیہ اپنے زیر تسلط ہندوستان کی جغرافی (جغرافیائی غلط) حدود بڑھا کر،ہرقسم کی امکانی پیش قدمی کاراستہ روکتے ہوئے، اُن چھے شمالی درّوں کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا تھا،لہٰذا اُس نے، لورالائی (سابق لوری) کو ڈیورنڈ لائن کے ذریعے افغانستان سے کاٹ کر، بلوچستان میں شامل کیا "کیونکہ تاجر، حملہ آور دروں کے ذریعے ہی آگے بڑھتے ہیں"۔

انگریز شروع شروع میں ڈیرہ غازی خان سے ہوتے ہوئے،لورالائی، ژوب (سابق فورٹ سنڈیمن) اور پشین جاپہنچے۔یہ اُن کا پہلا مستقل اڈہ یا مستقر تھا، 1884ء میں کوئٹہ چھاؤنی کے قیام کے بعد، "برٹش بلوچستان" کا مرکز وہی قرارپایا اور اس اثناء میں چونکہ فارسی کے بعد اردوزبان ہی شعروسخن کی مقبول زبان تھی، لہٰذا سرکار انگلشیہ نے بھی اس بابت توجہ دی۔لورالائی ہی وہ جگہ ہے جہاں بلوچستان کا اولین اردومشاعرہ منعقد ہواتھا۔
Load Next Story