پاکستان میں پہلی بار سراغ رساں کتوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد اڈاپٹ کیا جائیگا
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیم ان بوڑھے کتوں اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کرے گی
پاکستان میں پہلی بار سرکاری اداروں کے زیر استعمال سراغ رساں کتوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد پرسکون موت دینے کے بجائے ان کی اڈاپشن کی جائیگی جبکہ گھوڑوں کو شیلٹر ہوم میں رکھا جائے گا۔
جانوروں سے محبت کرنے والے شہری ان بوڑھے کتوں کو گود لے سکیں گے جبکہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیم ان بوڑھے کتوں اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کرے گی۔ رواں سال ستمبر تک 6 کتے ریٹائرڈ ہوں گے جن کے لیے ابھی سے فیملیز کو تلاش کر لیا گیا ہے۔
ہمسایہ ملک بھارت کے بعد اب پاکستان میں بھی پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے لیے کام کرنے والے سراغ رساں کتوں کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد گود دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پنجاب پولیس نے اس حوالے سے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم جے ایف کے اینیمل ریسکیو اینڈ شیلٹر کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت پنجاب پولیس کے سراغ رساں کتوں کو مارنے کی بجائے غیرسرکاری تنظیم کے سپرد کیا جائے گا جو ان کی دیکھ بھال کرے گی اور پھر ایسے افراد جو ان کتوں کو گود لینا چاہیں ان کے حوالے کیا جائے گا۔
اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، گلبرگ لاہور سیدہ شہربانو نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ کتوں کو یوتھنائز کرنے کے بجائے ان کی اڈاپشن کی خیال اس وقت آیا جب لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا میلہ سجا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چونکہ قذافی اسٹیڈیم میں سیکیورٹی کی نگراں تھیں تو یہاں سرچنگ کے لیے اسپیشل برانچ کے کتے بھی لائے جاتے تھے۔ انہوں نے ایک دن ایک بوڑھے کتے کو دیکھا اور اس کے ٹرینر سے پوچھا کہ آپ نے اس کو برش تک نہیں کیا اس کی ایسی حالت کیوں ہے تو ٹرینر نے ہنستے ہوئے بتایا کہ میڈم اس کی دیکھ بھال کیا کرنی ہے اس نے ویسے ہی ایک، ڈیڑھ ماہ بعد مرجانا ہے۔
سیدہ شہربانو کہتی ہیں کہ یہ ان کے لیے بہت تکلیف دہ بات تھی، وہ کتے جو 8 سال تک ہمارے لیے کام کرتے ہیں، بوڑھا ہونے پر انہیں اس طرح مار دیا جائے۔ انہوں نے ان کتوں کی جان بچانے کا فیصلہ کیا، اعلیٰ حکام سے مشاورت کے بعد جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز سے رابطہ کیا اور بالآخر جسٹس فار ککز (جے ایف کے) نامی این جی او سے مل کر ایک پالیسی تیار کی گئی۔ اب ان کتوں کو پرسکون موت دینے کے بجائے ان کی نیلامی یا پھر خواہشمند فیملیز کو گود دیا جائے گا۔
پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کے پاس تلاشی کے لیے استعمال کیے جانے والے کتے عموماً لیبرا ڈار کی نسل سے ہوتے ہیں جوکہ ایک بہت محبت کرنے والی نسل ہے۔ انہیں سنفرڈاگز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بہت ذہین نسل سمجھتی جاتی ہے۔ ان بوڑھے کتوں کو پنجاب پولیس کے ویٹرنری ماہرین کے حوالے کیا جاتا ہے جہاں ان کو زہر کا انجیکشن لگا کر پرسکون موت دے دی جاتی ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق ان کتوں کو دھماکہ خیز مواد اور منشیات کی تلاش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کتوں کا کچھ عرصے بعد ویٹرنری ماہرین سے طبی معائنہ بھی کروایا جاتا ہے، تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان کتوں کی روزانہ کی ورکنگ تو صرف چار گھنٹے ہوتی ہے لیکن ان سے کئی کئی گھنٹے کام لیا جاتا ہے جس سے ان کے سونگھنے کی حس کم اور نظرکمزور ہوجاتی ہے، ان کے ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہوتی ہے۔
پولیس نے ان کی صحت کی جانچ کے لیے باقاعدہ ویٹرنری ڈاکٹر بھرتی کر رکھے ہیں ۔ ویٹرنری ڈاکٹروں کی سفارش پر ہی ان کی ریٹائرڈمنٹ اور انہیں یوتھنائز کرنے کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ پاک فوج کے بعد پنجاب پولیس اسپیشل برانچ کے پاس سنفرڈاگز کو تربیت دینے کی سہولت ہے، ان کتوں کے سونگھنے کی صلاحیت ایک عام انسان سے ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے جبکہ ان کی قیمت 15 سے 25 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
جے ایف کے اینیمل ریسکیو اینڈ شیلٹر کی سربراہ ضوفشاں انوشے نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ''بدقسمتی سے قیام پاکستان سے پہلے کے قانون کے تحت پولیس اور اسپیشل برانچ کے لیے کام کرنے والے کتوں اور گھوڑوں کو پرسکون موت دے دی جاتی تھی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے تاہم موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس بات کا نوٹس لیا اور انہوں نے کتوں اور گھوڑوں کو مارنے کے عمل کو فوراً بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ضوفشاں کے مطابق پنجاب پولیس کے پاس اس وقت 60 کتے ہیں جن میں سے کچھ ریٹائرڈ ہوچکے جبکہ ستمبر تک مزید کچھ ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ اس وقت ریٹائرڈ کتوں کی تعداد 6 ہے جن کے لیے فیملیز تلاش کی گئی ہیں۔ کتوں کو گود لینے کے سخت ایس اوپیز رکھے گئے ہیں، کتا گود لینے والے کو بیان حلفی دینا ہوگا کہ وہ اسے فروخت نہیں کرے گا، اسی طرح ان کتوں کو سراغ رسانی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور سب سے اہم یہ کہ ان کو بریڈنگ مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔
سیدہ شہربانو نے بتایا کہ ریٹائرڈ ہونے والے کتوں کو پہلے نیلام کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اگر کوئی نیلامی میں یہ کتے نہیں لیتا تو پھر انہیں جے ایف کے، والوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ان کتوں کو یادگاری بیج دینے سمیت ریٹائرمنٹ کی مختصر سے تقریب بھی منعقد کی جائے گی۔ انہیں خوشی ہے کہ ان کے اس اقدام سے وہ 6 کتوں کو مرنے سے بچالیں گی۔
کتوں کے علاوہ پولیس کے زیر استعمال گھوڑوں سے متعلق بھی یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ گھوڑوں کو بھی پرسکون موت دینے کے بجائے انہیں شیلٹر ہوم میں بھیج دیا جائے گا۔ ضوفشاں کہتی ہیں کہ پولیس کے زیر استعمال گھوڑوں کو سب سے زیادہ بحالی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھٹنے خراب ہوچکے ہوتے ہیں، ان کو ہم عزت اور احترام کے ساتھ رکھیں گے جہاں ہمارے پاس تربیت یافتہ ڈاکٹر اور عملہ موجود ہے۔ اگر کوئی فیملی کسی کتے اور گھوڑے کو گود نہیں لیتی تو ان کا ادارہ ہی ان کی دیکھ بھال کرے گا۔
دوسری طرف جانوروں سے محبت کرنے اور انہیں گھروں میں پالنے والے شہریوں کا کہنا ہے ہ یہ بہت احسن اقدام ہے، اسلام نے جانوروں سے حسن سلوک کا درس دیا ہے۔ گلبرگ کے رہائشی رانا محمد داؤد نے بتایا ان کے پاس مختلف نسلوں کے پانچ کتے ہیں، انہیں کتے پالنے کا شوق ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی کتے کو گود لے سکیں۔ یہ ان کے لیے خوشی کی بات ہوگی کہ وہ کسی ایسے کتے کی خدمت اور دیکھ بھال کرسکیں گے جس نے اپنی جوانی ہماری سیکیورٹی کے لیے وقف کی ہے۔
ایک خاتون عائشہ احمد نے کہا جس طرح پنجاب پولیس نے برطانوی دور کے اس ظالمانہ قانون کو ختم کیا ہے اسی طرح دیگر سیکیورٹی اداروں کو بھی چاہیے کہ محکمے میں کام کرنے والے کتوں اور گھوڑوں کو پرسکون موت دینے کے بجائے انہیں کسی این جی اوکے حوالے کر دے۔