قومی تنازعہ جیت اور ہار
الزام لگانے والے اپنی مہم کا آغاز ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کے عہدے سے کرتے ہیں ...
موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ایک نامور کارٹونسٹ نے شیر کو کالے بوٹوں کے پاس بٹھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بحران میں اس وقت طاقتور کون نظر آ رہا ہے۔ قلمی ظرافت کے ذریعے دیا گیا یہ بیان معنی خیز بھی ہے اور ظاہری طور پر چند ایک حقائق کو بیان بھی کرتا ہے جو آج کل بحث کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ایک خوشگوار کیفیت کو ناخوشگواری میں تبدیل کر دیا ہے۔ جو عسکری قیادت گزشتہ ہفتے ان کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی، آج اس کے اعتراضات، وزیر اعظم کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ حکومت نے خود پر وار کر کے اپنے مد مقابل سیاسی قوتوں کو تنقید کی ٹھوس وجوہات بھی بیان کر دی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان کا بیان ان جذبات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو اہم سیاسی حلقوں میں ہر دوسرا شخص اپنے دل میں رکھے ہوئے ہے اور زبان پر لا رہا ہے۔ اگر حکومت کا خیال ہے کہ فوج کے حق میں بولنے والے یا اس کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے بے حیثیت اقلیت میں ہیں تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔ لوگوں کی کتنی تعداد کیا سوچتی ہے اس کا مستند پیمانہ تو شاید موجود نہیں، مگر اعداد و شمار کے زاویے سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ حکومت اور اس کے معاون ذرایع ابلاغ کی ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکر اس کے گلے میں سیاسی بوجھ کی طرح پڑ سکتی ہے۔ سات لاکھ کے قریب تو فوجی ہیں، قانون کا نفاذ کرنے والے دوسرے ادارے اور ریٹائرڈ افسران اور جوانوں کو ساتھ ملا لیں تو تعداد اصل سے د گنی ہو جاتی ہے۔
ہر ایک فوجی اوسطاً آٹھ ممبران کے خاندان کی نمایندگی کرتا ہے، یہ تعداد سوا کروڑ سے زیادہ بن جاتی ہے، فوج کے زیر نگرانی چلنے والے فلاحی اور کمرشل اداروں سے منسلک افراد اور ان کے حلقہ احباب کو اس فارمولے میں شامل کریں تو فوج جیسی سوچ رکھنے والے پاکستانی شہری، اس سے کہیں زیادہ ہیں، جنھوں نے نواز لیگ کے لیے ووٹ ڈالا۔ نواز لیگ پر اعتراض کرنے والی سیاسی جماعتیں اور وہ تمام آدمی جو حکومت سے اور وجوہات کی بنیاد پر نالاں ہونگے مگر ان حالات میں اپنے غصے کو فوج پر کی جانے والی تنقید کے زمرے میں نکال رہا ہے۔ یہ حکومت مخالف جذبات کے دائرے کو وسیع کر دیتے ہیں۔ اس سے مراد یہ نہ لی جائے کہ جیسے نواز لیگ کی حکومت ڈگمگا رہی ہے یا چند دنوں میں انتہائی غیر مقبول ہو جائے گی۔ نواز لیگ ایک جمہوری عمل کے ذریعے الیکشن جیت کر طاقت میں آئی ہے۔
اس کی آئینی حیثیت مقبولیت اور غیر مقبولیت کے وقتی زیرو بم سے بری طرح متاثر نہیں ہو سکتی۔ مگر یہ سمجھنا کہ نواز لیگ اس بحران سے پہلے اور اس کے بعد عام اور خاص حلقوں میں ایک ہی نظر سے دیکھی جا رہی ہے تو درست نہیں ہو گا، اور نہ ہی یہ بیان اس حقیقت کی بنیاد بنے گا کہ اس تمام تنازعہ نے فوج اور آئی ایس آئی پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑا۔ یہ دونوں ادارے اپنے نام اور شہرت کو اپنی طاقت کا حصہ مانتے ہیں، دنیا بھر میں بھی ایسا ہی ہے، جنگیں لڑنے والے اور ملک کے لیے خفیہ انداز میں کام کر کے تحفظ فراہم کرنے والے ہمیشہ اپنے گرد طاقت اور رعب کا ہالہ قائم کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کا کام مشکل بھی ہو جاتا ہے اور ان کے دائو پیچ ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
زمانہ قدیم سے فوجیوں کی پریڈ ہاتھی گھوڑے اونٹ، توپیں، تیر کمان اور فوجیوں کے جتھے نمائش کے لیے اس وجہ سے استعمال کیے جاتے رہے ہیں تا کہ رعب و دبدبہ قائم ہو اور مخالفین اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کے سامنے موجود سب تر نوالے ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں جیمز بانڈ007 کے کردار کے طور پر کام کرکے اپنی خاموش طاقت کا لوہا منواتی ہیں، لہٰذا ہالی ووڈ کی فلموں میں بہت کم ایسا ہو گا جب خفیہ ایجنٹ کسی موقع پر حتمی مات کھا جائے، یہ افسانوی کردار کسی نہ کسی طریقے سے بد ترین حا لات سے خود کو نکال کر ملک کے لیے کامیابی اور دشمن کے لیے پشیمانی کا باعث بنتے ہوئے ہی دکھائے جاتے ہیں۔ جس فوج اور انٹیلی جنس سے رعب و دبد بہ اور پراسراریت کا ہالہ چھین لیا جائے، وہ بہترین ہتھیاروں اور لوازمات کے باوجود نفسیاتی طور پر اپنی اور دوسروں کی نظر میں قدر کھو دیتی ہی ہے۔
بدقسمتی سے اس تنازعہ نے یہ کام کر دکھایا ہے۔ اب الزام لگانے والے اپنی مہم کا آغاز ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کے عہدے سے کرتے ہیں۔ اس سے کم پر کوئی ٹی وی مباحثہ شرو ع ہی نہیں ہوتا۔ پچھلے چند سالوں میں دنیا کے مختلف اخباروں اور جرائد میں چھپنے والا مواد پاکستان کے ریاستی اداروں کو بدترین تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود اتنی احتیاط ضرور برتتا تھا کہ کسی کلیدی عہدے دار کا نام نہ لیا جائے۔ افغانستان میں ایک حملے پر شایع شدہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ نے سابق آرمی چیف کا نام ضرور لیا تھا مگر اس طرح کا مواد شاذ و نادر ہی سامنے آتا تھا، اب اپنے ملک میں سوشل میڈیا کے بعض حصوں میں اور مخصوص چینل اور اس سے جڑے اخبار میں کہا اور لکھا ہوا اٹھا کر دیکھ لیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے مرکزی ادارے زیر بحث نہ ہوں، بلکہ کسی نائب تحصیل دار کے دفتر کے افراد سے متعلق بات کی جا رہی ہو۔
حکومت شاید ریاستی اداروں کی بے توقیری سے اس طرح مطمئن ہو کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی تہمتیں سیاستدانوں کے دامن کو گندا کرنے کے بجائے ان اداروں کے یونیفارم کو میلا کر رہی ہیں، مگر اس سے ہونے والا نقصان دور رس اور مداوے کے بغیر ہے۔ بلواسطہ الزامات نے دنیا بھر میں فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں ایک مخصوص منفی تصور پیدا کر دیا تھا۔ علاقائی طور پر حامد کرزئی اور دہلی کے حکمرانوں نے اس تصور کو مزید مستحکم کیا۔
ممبئی حملے اور اسامہ بن لادن کے واقعے نے اسکو مزید زہریلا کیا اور اب اندرونی طور پر حامد میر پر حملے کے واقعے کو خاص رخ دیکر تنگ گھیرے میں ایک اور دائرے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس زوایہ سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا اس اصل نقصان ہوا کس کا ہے، حکومت کی پریشانی وقتی ہے، واویلا کرنے والا چینل اور اخبار معافی تلافی کر کے اپنے معاملات درست کر لے گا، مگر الزامات کے جو خنجر ریاست کی پیٹھ پر گھونپ دیے گئے ہیں ان سے ہونے والا زخم مندمل نہیں ہو گا۔ اور یہ اس تمام مسئلے کا سب سے افسوس ناک پہلو ہے۔ شاید اس تمام مسئلے کی بنیاد بھی یہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان کا بیان ان جذبات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو اہم سیاسی حلقوں میں ہر دوسرا شخص اپنے دل میں رکھے ہوئے ہے اور زبان پر لا رہا ہے۔ اگر حکومت کا خیال ہے کہ فوج کے حق میں بولنے والے یا اس کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے بے حیثیت اقلیت میں ہیں تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔ لوگوں کی کتنی تعداد کیا سوچتی ہے اس کا مستند پیمانہ تو شاید موجود نہیں، مگر اعداد و شمار کے زاویے سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ حکومت اور اس کے معاون ذرایع ابلاغ کی ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکر اس کے گلے میں سیاسی بوجھ کی طرح پڑ سکتی ہے۔ سات لاکھ کے قریب تو فوجی ہیں، قانون کا نفاذ کرنے والے دوسرے ادارے اور ریٹائرڈ افسران اور جوانوں کو ساتھ ملا لیں تو تعداد اصل سے د گنی ہو جاتی ہے۔
ہر ایک فوجی اوسطاً آٹھ ممبران کے خاندان کی نمایندگی کرتا ہے، یہ تعداد سوا کروڑ سے زیادہ بن جاتی ہے، فوج کے زیر نگرانی چلنے والے فلاحی اور کمرشل اداروں سے منسلک افراد اور ان کے حلقہ احباب کو اس فارمولے میں شامل کریں تو فوج جیسی سوچ رکھنے والے پاکستانی شہری، اس سے کہیں زیادہ ہیں، جنھوں نے نواز لیگ کے لیے ووٹ ڈالا۔ نواز لیگ پر اعتراض کرنے والی سیاسی جماعتیں اور وہ تمام آدمی جو حکومت سے اور وجوہات کی بنیاد پر نالاں ہونگے مگر ان حالات میں اپنے غصے کو فوج پر کی جانے والی تنقید کے زمرے میں نکال رہا ہے۔ یہ حکومت مخالف جذبات کے دائرے کو وسیع کر دیتے ہیں۔ اس سے مراد یہ نہ لی جائے کہ جیسے نواز لیگ کی حکومت ڈگمگا رہی ہے یا چند دنوں میں انتہائی غیر مقبول ہو جائے گی۔ نواز لیگ ایک جمہوری عمل کے ذریعے الیکشن جیت کر طاقت میں آئی ہے۔
اس کی آئینی حیثیت مقبولیت اور غیر مقبولیت کے وقتی زیرو بم سے بری طرح متاثر نہیں ہو سکتی۔ مگر یہ سمجھنا کہ نواز لیگ اس بحران سے پہلے اور اس کے بعد عام اور خاص حلقوں میں ایک ہی نظر سے دیکھی جا رہی ہے تو درست نہیں ہو گا، اور نہ ہی یہ بیان اس حقیقت کی بنیاد بنے گا کہ اس تمام تنازعہ نے فوج اور آئی ایس آئی پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑا۔ یہ دونوں ادارے اپنے نام اور شہرت کو اپنی طاقت کا حصہ مانتے ہیں، دنیا بھر میں بھی ایسا ہی ہے، جنگیں لڑنے والے اور ملک کے لیے خفیہ انداز میں کام کر کے تحفظ فراہم کرنے والے ہمیشہ اپنے گرد طاقت اور رعب کا ہالہ قائم کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کا کام مشکل بھی ہو جاتا ہے اور ان کے دائو پیچ ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
زمانہ قدیم سے فوجیوں کی پریڈ ہاتھی گھوڑے اونٹ، توپیں، تیر کمان اور فوجیوں کے جتھے نمائش کے لیے اس وجہ سے استعمال کیے جاتے رہے ہیں تا کہ رعب و دبدبہ قائم ہو اور مخالفین اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کے سامنے موجود سب تر نوالے ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں جیمز بانڈ007 کے کردار کے طور پر کام کرکے اپنی خاموش طاقت کا لوہا منواتی ہیں، لہٰذا ہالی ووڈ کی فلموں میں بہت کم ایسا ہو گا جب خفیہ ایجنٹ کسی موقع پر حتمی مات کھا جائے، یہ افسانوی کردار کسی نہ کسی طریقے سے بد ترین حا لات سے خود کو نکال کر ملک کے لیے کامیابی اور دشمن کے لیے پشیمانی کا باعث بنتے ہوئے ہی دکھائے جاتے ہیں۔ جس فوج اور انٹیلی جنس سے رعب و دبد بہ اور پراسراریت کا ہالہ چھین لیا جائے، وہ بہترین ہتھیاروں اور لوازمات کے باوجود نفسیاتی طور پر اپنی اور دوسروں کی نظر میں قدر کھو دیتی ہی ہے۔
بدقسمتی سے اس تنازعہ نے یہ کام کر دکھایا ہے۔ اب الزام لگانے والے اپنی مہم کا آغاز ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کے عہدے سے کرتے ہیں۔ اس سے کم پر کوئی ٹی وی مباحثہ شرو ع ہی نہیں ہوتا۔ پچھلے چند سالوں میں دنیا کے مختلف اخباروں اور جرائد میں چھپنے والا مواد پاکستان کے ریاستی اداروں کو بدترین تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود اتنی احتیاط ضرور برتتا تھا کہ کسی کلیدی عہدے دار کا نام نہ لیا جائے۔ افغانستان میں ایک حملے پر شایع شدہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ نے سابق آرمی چیف کا نام ضرور لیا تھا مگر اس طرح کا مواد شاذ و نادر ہی سامنے آتا تھا، اب اپنے ملک میں سوشل میڈیا کے بعض حصوں میں اور مخصوص چینل اور اس سے جڑے اخبار میں کہا اور لکھا ہوا اٹھا کر دیکھ لیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے مرکزی ادارے زیر بحث نہ ہوں، بلکہ کسی نائب تحصیل دار کے دفتر کے افراد سے متعلق بات کی جا رہی ہو۔
حکومت شاید ریاستی اداروں کی بے توقیری سے اس طرح مطمئن ہو کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی تہمتیں سیاستدانوں کے دامن کو گندا کرنے کے بجائے ان اداروں کے یونیفارم کو میلا کر رہی ہیں، مگر اس سے ہونے والا نقصان دور رس اور مداوے کے بغیر ہے۔ بلواسطہ الزامات نے دنیا بھر میں فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں ایک مخصوص منفی تصور پیدا کر دیا تھا۔ علاقائی طور پر حامد کرزئی اور دہلی کے حکمرانوں نے اس تصور کو مزید مستحکم کیا۔
ممبئی حملے اور اسامہ بن لادن کے واقعے نے اسکو مزید زہریلا کیا اور اب اندرونی طور پر حامد میر پر حملے کے واقعے کو خاص رخ دیکر تنگ گھیرے میں ایک اور دائرے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس زوایہ سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا اس اصل نقصان ہوا کس کا ہے، حکومت کی پریشانی وقتی ہے، واویلا کرنے والا چینل اور اخبار معافی تلافی کر کے اپنے معاملات درست کر لے گا، مگر الزامات کے جو خنجر ریاست کی پیٹھ پر گھونپ دیے گئے ہیں ان سے ہونے والا زخم مندمل نہیں ہو گا۔ اور یہ اس تمام مسئلے کا سب سے افسوس ناک پہلو ہے۔ شاید اس تمام مسئلے کی بنیاد بھی یہی ہے۔