تعلیم مسائل و افکار
اس میں شک نہیں کہ فوجی آمریتوں نے حبس کی ایسی فضا پیدا کی کہ لوگ لُو کی دعا مانگنے پر مجبور ہوئے...
اس وقت پاکستان جن ان گنت بحرانوں اور مسائل کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، جس کے کئی اسباب ہیں لیکن کلیدی سبب تعلیم کی پسماندگی ہے، جس نے فکری، سماجی اور معاشی فرسودگی کو انتہائوں تک پہنچا دیا ہے۔ پاکستان میں ایک طرف شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے، جب کہ دوسری طرف جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ انتہائی ناقص اور غیر معیاری ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں تعلیمی بجٹ میں اضافے کے وعدے کرتی ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد دیگر وعدوں کی طرح اس وعدے کو بھی فراموش کر دیتی ہیں۔ بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے سالانہ قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم میں کسی قسم کے معمولی سے اضافے کو بھی روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں ایک سے زائد نظام تعلیم مروج ہیں، جو ایک دوسرے کی ضد ہی نہیں متصادم بھی ہیں۔ ساتھ ہی کچھ حلقے سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب بالخصوص ثانوی تعلیم کے نصاب میں مثبت اور فعال تبدیلیوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس صورتحال نے معاملات و مسائل کو مزید الجھا دیا ہے۔ ماہرین تعلیم اور اہل دانش اس اہم قومی مسئلے پر مسلسل سینہ قرطاس کو سیاہ کر رہے ہیں، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پاکستان ایک انتہائی زد پذیر (Fragile) ملک بن گیا ہے۔ مغرب کے بیشتر تجزیہ نگار پاکستان کو ''ناکامی کی طرف گامزن ریاست'' قرار دے رہے ہیں، جب کہ دیگر کچھ دانشوروں کے خیال میں پاکستان ابھی ''ناکام'' نہیں ہوا، البتہ ایک ''بیمار ریاست'' ضرور بن چکا ہے، جس میں ابھی اصلاح کی گنجائش باقی ہے۔
دوسرا مسئلہ سماجی پسماندگی ہے، جسے پروان چڑھانے میں حکمران طبقات، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی بنیادی کردار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں کے سبب اس ملک کو جس طرح سیاسی، سماجی اور تزویراتی مسائل کی دلدل میں دھکیلا گیا، اس نے تعلیم کو قومی ترجیحات میں بہت نچلے درجے پر پہنچا دیا۔ حکمران اشرافیہ کی مسائل کے حل میں عدم دلچسپی اور عوامی سطح پر خواندگی کی ابتر صورتحال کی وجہ سے ملک مسائل کی گرداب میں پھنستا چلا گیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جن ان گنت پیچیدہ مسائل سے دو چار ہے، ان کے پیچیدہ ہونے کا ایک سبب خواندگی کی شرح میں تشویشناک کمی بھی ہے۔ اس صورتحال کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر ایسی باشعور اور طاقتور آوازیں موجود نہیں ہیں، جو ریاستی مقتدر اعلیٰ اور منصوبہ سازوں کو جرأت مندانہ فیصلوں پر مجبور کر سکیں۔
حبس قسم کی یہ فضا اس حکمران اشرافیہ نے پیدا کی ہے، جسے عام آدمی کے مسائل و مصائب سے کوئی غرض نہیں ہے۔ جو اپنے مفادات کے حصول میں غلطاں و پیچاں عوام کی حالت زار سے بے نیاز ہیں۔ اس میں وردی اور بے وردی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ان کے فیصلے عوام کی خواہشات کے خون سے لکھے جاتے ہیں۔ ان کے محل عوام کی قبروں پر تعمیر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا، ان تمام حشر سامانیوں کے باوجود اس ملک کے عوام جمہوریت کا تسلسل اور جمہور کی حکمرانی کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ فوجی آمریتوں نے حبس کی ایسی فضا پیدا کی کہ لوگ لُو کی دعا مانگنے پر مجبور ہوئے۔ اسی حبس نے انھیں ان لوگوں کو قبول کرنے پر مجبور کیا، جو کبھی آمروں کی آنکھ کا تارا اور ان کے محبوب نظر ہوا کرتے تھے۔ یہ سادگی تھی یا سادہ لوحی کہ ان سیاستدانوں کو فوجی آمروں کا متبادل سمجھ لیا جو اپنی سرشت میں آمروں سے بڑے آمر تھے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ آمریتوں نے جبر کے ماحول کی بنیاد رکھی، لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ اظہار رائے پر قدغن میں خاکی وردی والوں سے بڑھ کر سفید پوشوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
چند ہفتے قبل ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مضامین پر مشتمل کتاب ''تعلیم: مسائل اور افکار'' منظر عام پر آئی ہے۔ جس میں فاضل مصنف کے تعلیمی مسائل پر 8 مضامین کے علاوہ دیگر موضوعات جن میں نظری زاویہ کے عنوان سے 7 مضامین، سیاست کے دریچے کے عنوان سے 6 مضامین، مختلف شخصیات کے بارے میں ان کی آرا پر مبنی 14 مضامین کے حصے جسے چراغوں کی روشنی کا نام دیا گیا ہے اور کراچی پر 3 مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر ایک ضمیمہ بھی شامل اشاعت ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی اس کتاب کے تمام حصوں اور مضامین کا جائزہ لیا جائے تو موضوع کے اعتبار سے یہ الگ الگ حصوں میں ضرور منقسم ہیں، لیکن ان تمام مضامین کا مرکزی خیال ایک ہی ہے، یعنی تعلیم۔
مثال کے طور پر سیاست کے دریچے کے عنوان سے شامل حصے میں جو 6 مضامین شامل کیے گئے ہیں، وہ دراصل مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں تعلیم کے بارے میں پیش کردہ ان جماعتوں کی سوچ کا جائزہ ہیں۔ اسی طرح جن محترم اور معتبر شخصیات پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے ان میں سبھی کسی نہ کسی حوالے سے فروغ علم کے علم بردار رہے ہیں۔ ان تمام شخصیات نے اپنی تمام زندگی معاشرے کے سماجی شعور میں اضافے اور خرد افروزی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اس حصے میں جن شخصیات پر مضامین لکھے گئے ہیں ان میں ڈاکٹر اصغر علی انجینئر، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر شریف المجاہد، ڈاکٹر منظور الدین احمد، ڈاکٹر ذکی حسن، پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹر عقیلہ کیانی سمیت کئی اہم شخصیات شامل ہیں، لیکن اس ملک میں روشنی کی ایک کرن ملالہ یوسف زئی پر بھی ان کا مضمون ہے۔
اس کتاب میں نظری زاویوں کے عنوان سے ایک چونکا دینے والا حصہ بھی شامل ہے۔ اس حصے میں ڈاکٹر موصوف نے بعض اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ آیا تاریخ کے مضمون کی جدید دور میں کوئی اہمیت ہے؟ اگر ہے تو اسے کیسے پڑھایا جانا چاہیے؟ ذرایع ابلاغ جمہوریت کے فروغ میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان سے کس کردار کی توقع کی جاتی ہے یا کی جانی چاہیے؟ المیہ مشرقی پاکستان پر اہل علم و دانش اور محققین کیوں خاموش رہے ہیں۔
اس المیے کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کیوں نہیں گئی؟ اہل علم نے اس موضوع کو اپنی طبع زاد تحریروں کا حصہ کیوں نہیں بنایا؟ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نئی نسل کے سامنے کیا مسائل درپیش ہیں اور وہ اپنے مشترکہ ماضی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ مستقبل کے حوالے سے کیا مشترک اقدامات ممکن ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان کی اس عظیم ہستی کے بارے میں بھی بحث چھیڑی ہے، جس نے سقوط ڈھاکا کی شکست خوردگی کی شکار قوم میں ایک نئی روح پھونکی، اس کی توانائیوں کو مجتمع کیا۔ نیا متفقہ آئین دیا اور عالمی سطح پر ملک کا وقار بلند کیا۔
اس طرح یہ کتاب تعلیم کے فروغ میں حائل رکاوٹوں، اہل علم کی کاوشوں اور سیاسی جماعتوں کی خواندگی کے حوالے سے لن ترانیوں پر ایک خوبصورت تجزیاتی تحریر ہے۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ لکھنو کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو ہی میں نہیں بلکہ تحریر میں بھی اس معاشرت کی وضعداریوں کی جھلک پائی جاتی ہے۔ وہ اگر تنقید بھی کرتے ہیں تو کسی بھی مقام پر شائستگی اور احترام کا پہلو نظر انداز نہیں ہونے دیتے۔ اس کا ثبوت سیاسی جماعتوں کے منشور کے جائزے پر مبنی حصے میں کیے گئے تنقیدی جائزے ہیں، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی بات کس خوبصورتی سے کہہ جاتے ہیں۔ یہ ان کے وسیع مطالعہ، سماجی ڈھانچے پر گہری نظر اور پر اثر انداز تحریر کا بھی کمال ہے۔
یہ کتاب طالب علموں کے علاوہ ان تمام متوشش شہریوں کے لیے اپنے اندر معلومات کا خزینہ رکھتی ہے، جو علم کی موجودہ صورتحال پر فکرمند ہیں اور ان معاملات اور مسائل کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جو خواندگی کی شرح میں اضافہ اور فروغ علم کی راہ میں حائل ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں ایک سے زائد نظام تعلیم مروج ہیں، جو ایک دوسرے کی ضد ہی نہیں متصادم بھی ہیں۔ ساتھ ہی کچھ حلقے سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب بالخصوص ثانوی تعلیم کے نصاب میں مثبت اور فعال تبدیلیوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس صورتحال نے معاملات و مسائل کو مزید الجھا دیا ہے۔ ماہرین تعلیم اور اہل دانش اس اہم قومی مسئلے پر مسلسل سینہ قرطاس کو سیاہ کر رہے ہیں، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پاکستان ایک انتہائی زد پذیر (Fragile) ملک بن گیا ہے۔ مغرب کے بیشتر تجزیہ نگار پاکستان کو ''ناکامی کی طرف گامزن ریاست'' قرار دے رہے ہیں، جب کہ دیگر کچھ دانشوروں کے خیال میں پاکستان ابھی ''ناکام'' نہیں ہوا، البتہ ایک ''بیمار ریاست'' ضرور بن چکا ہے، جس میں ابھی اصلاح کی گنجائش باقی ہے۔
دوسرا مسئلہ سماجی پسماندگی ہے، جسے پروان چڑھانے میں حکمران طبقات، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی بنیادی کردار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں کے سبب اس ملک کو جس طرح سیاسی، سماجی اور تزویراتی مسائل کی دلدل میں دھکیلا گیا، اس نے تعلیم کو قومی ترجیحات میں بہت نچلے درجے پر پہنچا دیا۔ حکمران اشرافیہ کی مسائل کے حل میں عدم دلچسپی اور عوامی سطح پر خواندگی کی ابتر صورتحال کی وجہ سے ملک مسائل کی گرداب میں پھنستا چلا گیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جن ان گنت پیچیدہ مسائل سے دو چار ہے، ان کے پیچیدہ ہونے کا ایک سبب خواندگی کی شرح میں تشویشناک کمی بھی ہے۔ اس صورتحال کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر ایسی باشعور اور طاقتور آوازیں موجود نہیں ہیں، جو ریاستی مقتدر اعلیٰ اور منصوبہ سازوں کو جرأت مندانہ فیصلوں پر مجبور کر سکیں۔
حبس قسم کی یہ فضا اس حکمران اشرافیہ نے پیدا کی ہے، جسے عام آدمی کے مسائل و مصائب سے کوئی غرض نہیں ہے۔ جو اپنے مفادات کے حصول میں غلطاں و پیچاں عوام کی حالت زار سے بے نیاز ہیں۔ اس میں وردی اور بے وردی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ان کے فیصلے عوام کی خواہشات کے خون سے لکھے جاتے ہیں۔ ان کے محل عوام کی قبروں پر تعمیر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا، ان تمام حشر سامانیوں کے باوجود اس ملک کے عوام جمہوریت کا تسلسل اور جمہور کی حکمرانی کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ فوجی آمریتوں نے حبس کی ایسی فضا پیدا کی کہ لوگ لُو کی دعا مانگنے پر مجبور ہوئے۔ اسی حبس نے انھیں ان لوگوں کو قبول کرنے پر مجبور کیا، جو کبھی آمروں کی آنکھ کا تارا اور ان کے محبوب نظر ہوا کرتے تھے۔ یہ سادگی تھی یا سادہ لوحی کہ ان سیاستدانوں کو فوجی آمروں کا متبادل سمجھ لیا جو اپنی سرشت میں آمروں سے بڑے آمر تھے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ آمریتوں نے جبر کے ماحول کی بنیاد رکھی، لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ اظہار رائے پر قدغن میں خاکی وردی والوں سے بڑھ کر سفید پوشوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
چند ہفتے قبل ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مضامین پر مشتمل کتاب ''تعلیم: مسائل اور افکار'' منظر عام پر آئی ہے۔ جس میں فاضل مصنف کے تعلیمی مسائل پر 8 مضامین کے علاوہ دیگر موضوعات جن میں نظری زاویہ کے عنوان سے 7 مضامین، سیاست کے دریچے کے عنوان سے 6 مضامین، مختلف شخصیات کے بارے میں ان کی آرا پر مبنی 14 مضامین کے حصے جسے چراغوں کی روشنی کا نام دیا گیا ہے اور کراچی پر 3 مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر ایک ضمیمہ بھی شامل اشاعت ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی اس کتاب کے تمام حصوں اور مضامین کا جائزہ لیا جائے تو موضوع کے اعتبار سے یہ الگ الگ حصوں میں ضرور منقسم ہیں، لیکن ان تمام مضامین کا مرکزی خیال ایک ہی ہے، یعنی تعلیم۔
مثال کے طور پر سیاست کے دریچے کے عنوان سے شامل حصے میں جو 6 مضامین شامل کیے گئے ہیں، وہ دراصل مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں تعلیم کے بارے میں پیش کردہ ان جماعتوں کی سوچ کا جائزہ ہیں۔ اسی طرح جن محترم اور معتبر شخصیات پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے ان میں سبھی کسی نہ کسی حوالے سے فروغ علم کے علم بردار رہے ہیں۔ ان تمام شخصیات نے اپنی تمام زندگی معاشرے کے سماجی شعور میں اضافے اور خرد افروزی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اس حصے میں جن شخصیات پر مضامین لکھے گئے ہیں ان میں ڈاکٹر اصغر علی انجینئر، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر شریف المجاہد، ڈاکٹر منظور الدین احمد، ڈاکٹر ذکی حسن، پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹر عقیلہ کیانی سمیت کئی اہم شخصیات شامل ہیں، لیکن اس ملک میں روشنی کی ایک کرن ملالہ یوسف زئی پر بھی ان کا مضمون ہے۔
اس کتاب میں نظری زاویوں کے عنوان سے ایک چونکا دینے والا حصہ بھی شامل ہے۔ اس حصے میں ڈاکٹر موصوف نے بعض اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ آیا تاریخ کے مضمون کی جدید دور میں کوئی اہمیت ہے؟ اگر ہے تو اسے کیسے پڑھایا جانا چاہیے؟ ذرایع ابلاغ جمہوریت کے فروغ میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان سے کس کردار کی توقع کی جاتی ہے یا کی جانی چاہیے؟ المیہ مشرقی پاکستان پر اہل علم و دانش اور محققین کیوں خاموش رہے ہیں۔
اس المیے کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کیوں نہیں گئی؟ اہل علم نے اس موضوع کو اپنی طبع زاد تحریروں کا حصہ کیوں نہیں بنایا؟ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نئی نسل کے سامنے کیا مسائل درپیش ہیں اور وہ اپنے مشترکہ ماضی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ مستقبل کے حوالے سے کیا مشترک اقدامات ممکن ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان کی اس عظیم ہستی کے بارے میں بھی بحث چھیڑی ہے، جس نے سقوط ڈھاکا کی شکست خوردگی کی شکار قوم میں ایک نئی روح پھونکی، اس کی توانائیوں کو مجتمع کیا۔ نیا متفقہ آئین دیا اور عالمی سطح پر ملک کا وقار بلند کیا۔
اس طرح یہ کتاب تعلیم کے فروغ میں حائل رکاوٹوں، اہل علم کی کاوشوں اور سیاسی جماعتوں کی خواندگی کے حوالے سے لن ترانیوں پر ایک خوبصورت تجزیاتی تحریر ہے۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ لکھنو کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو ہی میں نہیں بلکہ تحریر میں بھی اس معاشرت کی وضعداریوں کی جھلک پائی جاتی ہے۔ وہ اگر تنقید بھی کرتے ہیں تو کسی بھی مقام پر شائستگی اور احترام کا پہلو نظر انداز نہیں ہونے دیتے۔ اس کا ثبوت سیاسی جماعتوں کے منشور کے جائزے پر مبنی حصے میں کیے گئے تنقیدی جائزے ہیں، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی بات کس خوبصورتی سے کہہ جاتے ہیں۔ یہ ان کے وسیع مطالعہ، سماجی ڈھانچے پر گہری نظر اور پر اثر انداز تحریر کا بھی کمال ہے۔
یہ کتاب طالب علموں کے علاوہ ان تمام متوشش شہریوں کے لیے اپنے اندر معلومات کا خزینہ رکھتی ہے، جو علم کی موجودہ صورتحال پر فکرمند ہیں اور ان معاملات اور مسائل کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جو خواندگی کی شرح میں اضافہ اور فروغ علم کی راہ میں حائل ہیں۔